وہ مہربان مشکلوں میں ڈھال تھا۔۔۔

ملا نہیں تو دل کو کچھ ملال تھا
وہ شخص جس کو چھوڑنا محال تھا
وہ اک نظر مجھے اسیر کر گئی
اس اک نظر میں جانے کیا کمال تھا
جو وقت اس کے ساتھ تھا وہ خوب تھا
وہی تو زیست کا سنہرا سال تھا
اگر ابھی نہیں مجھے وہ کہہ رہے
کہیں گے ایک دن کہ بے مثال تھا
سلگتی ریت پر جو حوصلے سے تھا
موذن رسول وہ بلالؓ تھا
پدر نہیں تو آج سوچتا ہوں میں
وہ مہربان مشکلوں میں ڈھال تھا
وہ خالی ہاتھ چھوڑ سب چلا گیا
کہ ہر طرح سے جو کمایا مال تھا
میں دوستوں سے اس لئے الگ ہوا
بچھا وہاں پہ سازشوں کا جال تھا
اکیلے کس طرح کٹے گا راستہ
بچھڑتے وقت لب پہ یہ سوال تھا
یہ ماں کا ظرف ہے خطائیں بخش دیں
کہ جو بھی تھا مگر وہ اس کا لال تھا
کلام :ڈاکٹر ظفر جاذب