رانی کوٹ کامعمہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا، ماہرین کھوج لگانے میں مصروف ہیں کہ آخر یہ قلعہ کیوں تعمیر کیا گیا، مقصد کیا تھا، کس دور میں تعمیر ہوا؟

  رانی کوٹ کامعمہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا، ماہرین کھوج لگانے میں مصروف ہیں کہ ...
  رانی کوٹ کامعمہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا، ماہرین کھوج لگانے میں مصروف ہیں کہ آخر یہ قلعہ کیوں تعمیر کیا گیا، مقصد کیا تھا، کس دور میں تعمیر ہوا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف:شہزاد احمد حمید
 قسط:187
 اس کی تعمیر کو سمجھنے کے لئے ماہرین دہائیوں سے یہاں کے چکر لگا تے رہے ہیں لیکن رانی کوٹ ایسا معمہ ہے جو ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔ رانی کوٹ میں روڈ رستے نہیں ہیں، فور بائی فور سے ہی آیا جایا جا سکتا ہے۔ راستہ ختم ہو جائے تو پیدل دیوار پر چڑھ کر ارد گرد کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ شاندار دکھائی دینے والی دیوار ایک مشکل طرز تعمیر ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین عرصہ سے یہ کھوج لگانے میں مصروف ہیں کہ آخر یہ دیواریں اور قلعہ کیوں تعمیر کیا گیا تھا، مقصد کیا تھا، کس دور میں تعمیر ہوا لیکن کسی حتمی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ وہ یہ بات مانتے ہیں کہ مقصد بیرونی لشکروں سے اپنا دفاع کرنا تھا۔ اس کی تعمیر کا آغاز کس نے اور کب کیا،تاریخ میں کوئی واضح حوالہ نہیں ملتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ قلعہ سر سا نیوں کے دور میں تعمیر ہوا جن کا مرکز فارس کا علاقہ تھا۔ یہاں سے ایک دفاعی لائن بلوچستان سے ہوتی ایران تک چلی گئی ہے۔ راستے میں چھوٹے چھوٹے اور قلعے بھی ہیں لیکن اس طرز کا قلعہ کہیں اور نہیں ہے۔ دراصل رانی کوٹ میں 2 اور قلعے بھی ہیں مگر یہ چھوٹے ہیں میں تو ان کو قلعہ نما حویلی ہی کہوں گا۔ باہر کی دیوار ایک عظیم structure ہے۔ مرکزی دروازے سے گاڑی دو تین کلو میٹر تک ٹیڑے میڑے راستے سے گزرتی ”میڑی“ تک آتی ہے۔ قلعہ کے اندر پہلی حویلی۔ خیال ہے یہ شاہی خاندان کے افراد کی رہائش گاہ تھی۔ اس سے آگے بھی پیدل ہی چلنا پڑتا ہے۔ چند کلو میٹر پیدل چل کر آپ تالاب کے پاس پہنچتے ہیں۔ ”پیر بانو جو تلو“ (یعنی پریوں کا تالاب)۔تالاب مچھلیوں سے بھرا، گہرا اور اس کے ارد گرد پتھر وں پر کافی پھسلن ہے۔ یہاں احتیاط سے قد م رکھیں۔ گرمی کے موسم میں اس تالاب میں لگائی گئی ڈبکی آپ کو لمحوں کے لئے گرمی کی شدت میں راحت دیتی ہے۔ ہمارا گائیڈ ”صادق گبول“ بتانے لگا؛ ”سائیں!قلعہ کی زمین سے چند قدیم اشیا جن میں انسانوں اور جانوروں کی  ہڈیاں شامل ہیں ملتی رہتی ہیں۔ان میں سے کچھ تو میرے دفتر میں بھی محفوظ ہیں۔ سرد موسم میں ملکی اور غیر ملکی سیاح یہاں کا رخ کرنے لگے ہیں۔ماضی کے حکمرانوں نے اس قلعہ کو وسعت بھی دی اور مضبوطی بھی۔ البتہ مستند طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ آخری بار اس قلعہ کی مرمت انیسویں صدی کے اوائل میں تالپور دور حکمرانی میں ہوئی لیکن پاکستان بننے کے بعد تو اس پر توجہ ہی نہیں دی گئی اور یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ حالیہ برسوں میں ایک غیر سرکاری ادارے ”سندھ ان ڈیو منٹ ٹرسٹ“ sindh endument trust))  نے اس کی مرمت کا کام شروع کیا ہے۔ مقصد ہے کہ اس منفرد قلعے کو بحال کرکے آنے والے اگلے پچاس ساٹھ سال کے لئے محفوظ کر لیا جائے۔یہ تاریخ اور شاید اس قلعے پر بھی احسان ہو گا۔اس تاریخی ورثہ کو اگلی نسلوں تک محفوظ رکھنا آج کے حکمرانوں اور نسل کی ذمہ داری بھی ہے۔“
ہمیں ریسٹورنٹ پر موجود اللہ دینہ گبول نے بتایا ”سائیں! اصل قلعہ تو یہاں سے دور ہے۔اس قلعہ کی مرمت ہوتی رہتی ہے چند سال پہلے اس کی دیوار مرمت کی گئی تھی لیکن جگہ جگہ سے یہ اب اکھڑ چکی ہے۔ جس شخص کو پیدل چلنے کی عادت نہ ہو سائیں اس کے لئے زیادہ دیر تک اس دیوار پر چلنا مشکل کام ہے۔سٹیپ لمبے اوراونچے ہیں۔ ہم جیسا انسان جلدی تھک جاتا ہے سائیں۔اُس دور کے جفاکش اور جنگجو انسانوں کے لئے جو طاقت اور بہادری میں ہم سے بہت آگے تھے ان پر چڑھنا اور دوڑنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ہم جیسوں کا تو سانس ہی پانچ دس قدموں کے بعد پھولنے لگتا ہے۔(دیوار سندھ پر چند قدم چلتے ہی نین کا سانس پھول گیاہے۔) سائیں! آپ آگے مت جائیں گرمی بھی بہت ہو رہی ہے اورلمبے راستے میں نہ پانی کا بندوبست ہے اور نہ ہی کوئی سایہ۔“ کہہ وہ ٹھیک ہی رہا ہے۔باس نے پو چھا؛ دینو بھائی! یہ قلعہ کب اور کس نے تعمیر کیا تھا؟“ وہ بتانے لگا؛”اس قلعہ کی کوئی مستند تاریخ نہیں ہے۔ کب،کس نے تعمیر کیا کوئی نہیں بتا سکتا البتہ ایک اندازے کے مطابق یہ دو ہزار سال پرانا ہے لیکن دیکھنے سے ایسا نہیں لگتا اس کی عمارت کافی بہتر حالت میں ہے۔ کہتے ہیں کہ ”میر شیر محمد تالپور نے اس کی مرمت اپنے دور حکومت میں تقریباً 200سال پہلے کراوئی تھی۔ اس دیوار کے اندر 3چھوٹے قلعے ”رانی کوٹ، شیر کوٹ اور موہن کوٹ ہیں۔“درمیان میں ایک تالاب بھی ہے جو حیرت انگیز طور پر مچھلیوں سے بھرا رہتا ہے۔یہ مچھلیاں ہیں بھی بہت فرینڈلی۔ آنے والوں سے جلد مانوس ہو جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں پریاں نہانے آتی تھیں۔ سندھی زبان میں اسے ”پیر بانو جو تلو“  یعنی ”پریوں کا تالاب“ کہتے ہیں۔ بس اتنا ہی جانتا ہوں میں سائیں۔“ اس کی بات ختم ہوئی ان سے اجازت چاہی۔ دیوار کے قریب ہی ایک بکریاں چراتا چرواہا نظر آیا ہے اور اس کے ساتھ ایک اور لمبا دبلا سندھی بھی ہے۔ کندھے پر سندھی اجرک۔ یہ عبدالرزاق گبول ہے۔ میں نے پوچھا؛”سائیں! یہا ں کون سی قوم آباد ہے؟“ جواب ملا؛’سائیں وڈا! یہاں اکثریت گبول قوم کی ہے۔ میں سماجی کارکن ہوں۔اگر یہاں باقائدہ سیاحتی ٹورز شروع کئے جائیں تو اس سے مقامی لوگوں میں خوشحالی آئے گی۔ علاقے کی ترقی بھی ہو گی اور لوگوں کے تعلقات میں بھی اضافہ ہو گا۔ ہم مہمان نوازلوگ ہیں اور آنے والوں کو دل سے خوش آمدید کہیں گے۔“رانی کوٹ صرف آثار قدیمہ کی جگہ ہی نہیں بلکہ قدرتی حسن اور سیاحت سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے  پر کشش مقام ہے۔‘‘ اس بات میں کوئی بناوٹ نہ ہے۔یہ مہمان نواز اور محبت کرنے والے لوگ ہیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -