کپتان خود کو ضائع نہ کریں!

کپتان خود کو ضائع نہ کریں!
کپتان خود کو ضائع نہ کریں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عمران خان قومی لیڈر ہیں،کروڑوں لوگ ان کی قیادت پر یقین رکھتے ہیں اور انہیں اپنا قائد مانتے ہیں۔ وہ نیا پاکستان تخلیق کرنا چاہتے ہیں اور لاکھوں لوگ بالخصوص نوجوان اس خواب کو اپنا کر اس کی تعبیر کے لئے سرگرم ہیں۔ کپتان نے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سیاست میں فعال کر دیا ہے،جو ہر مجلس میں اپنی پارٹی کا جذباتی انداز میں دفاع کر رہے ہوتے ہیں ۔کپتان اور ان کے پُرجوش کارکن آج کی سیاست کی حقیقت ہیں اور اثاثہ بھی، یہ اثاثہ کسی طور ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ روایتی سیاست سے اکتائے نوجوانوںکو پرانی سیاست کے پرانے چہروں کی پارٹی میں شمولیت ہضم نہیں ہوئی‘ انہیں خدشہ تھا کہ کہیں یہ سیاست دان پارٹی کی انقلابی جدوجہد کوہائی جیک نہ کر لیں ۔دھرنے نے ان خدشات کے خاکے کو کچھ گہرا کیا ہے۔پتہ نہیں کس نے کپتان کودھرنے کا مشورہ دیااور پھر اس کو طویل تر کرنے کی رائے ‘انہیں اس کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہئے۔ وزیراعظم سے استعفے کی تکرار پر کون اصرار کرتا رہا، امپائر سے رابطہ رکھنے والوں کے عزائم دوبارہ چیک کرنے کی ضرورت ہے۔
کپتان نے دھرنے پر اپنا بہت وقت ضائع کیا ہے‘ وسائل کو کھپایا اورکارکنوں کوبہت تھکایا ہے۔یہ کارکن جنہیں اپنے علاقوں اور حلقوں میں تبدیلی کی لہریں پیدا کرنا ہیں ‘لوگوں کو متحرک کرناہے،کپتان نے انہیں دھرنے میں محدود کردیا ۔ٹی وی چینلوں نے سینکڑوں گھنٹے لاکھوں لوگوں کو سکرین سے چپکائے رکھا ۔دھرنے میںاگرچہ ترانوں اور دھنوں نے اگست ستمبر کی حبس کا احساس کچھ کم تو کیا لیکن تبدیلی کا جھونکا کہیں سے نہیں آیا، مسائل میں کمی کی کوئی نوید نہیں آئی۔حکومت جو ریڈ زون کی طرف پیش قدمی سے پہلے سہمی دبکی بیٹھی ہوئی تھی، بعد کے واقعات سے دھرنے کا خوف ختم ہو گیا۔ وارننگ اور الٹی میٹم کی ایسی مٹی پلید ہوئی ہے کہ اب حکومت کو کسی وارننگ کاکوئی ڈر نہیں رہا،چنانچہ اسی تاریخی دھرنے کے دوران میں حکومت نے بجلی کے دوگنے بلوں سے عوام کو پیس کر رکھ دیا۔
کپتان کو ابھی بہت کام کرناہے، مگر وہ حکومت گرانے کی روایتی سیاست میں الجھ کر رہ گئے ہیں ۔ وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ بھی روایتی ذہن کی عکاسی تھا۔ بھلا وزیراعظم کی رخصتی سے کیا تبدیلی آتی،یوسف رضا گیلانی گئے تو راجہ پرویز اشرف آگئے، وہ جاتے تو ان جیسا کوئی اور آجاتا ۔اِسی طرح نوازشریف کے جانے سے نظام بدلتا نہ حالات۔ پھر بھی کپتان سینکڑوں گھنٹے استعفے کی دہائی دیتے رہے ۔انہیں باعزت واپسی کے کئی مواقع ملے، مگر آس پاس کے روایتی سیاست دانوں نے کپتان کو جانے نہیں دیا ۔
نظام بدلنے کی بات کرنے والوں کی سوچ زیادہ وسیع اور زیادہ گہری ہونی چاہئے ۔کپتان کے پاس مناسب وقت موجود ہے،اپنے پیغام کو گلی گلی پہنچانے کا، اپنی پارٹی کو محلے اور گاﺅں کی سطح پر منظم کرنے کا ۔وہ براہ راست کارکنوں سے ملیں،پارٹی کے رہنماﺅں سے تفصیلی ملاقاتیں کریں،ہر ضلع اور حلقے کی سیاست کو سمجھیں ۔اگر وہ ہر ماہ دو اضلاع کے لئے بھی وقت نکالیں تب اگلے چار سال میں یہ کام مکمل نہیں ہو سکتا۔ ایک اور بہت اہم کام نوجوانوں کی سیاسی تربیت ہے،کسی زمانے میں جماعت اسلامی اور سوشلسٹ پارٹیاں، بلکہ پیپلز پارٹی بھی سٹڈی سرکل اور گروپ ڈسکشن کا اہتمام کیا کرتی تھیں۔اب کوئی پارٹی یہ تکلف نہیں کرتی ۔پی ٹی آئی کے نوجوان مجلسوں میں پرجوش انداز میں دفاع کررہے ہوتے ہیں ‘سوشل میڈیا پر بھی بڑے سرگرم ہیں،لیکن اس میں دلیل کی کمی ہوتی ہے۔ اگرکوئی لکھنے والاکسی بات سے اختلاف کرنے کی جسارت کرلے تو سوشل میڈیا کے مجاہدین اپنے تابڑ توڑ حملوں میںگلی کی لڑائی کی زبان کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ان نوجوانوں کو دلائل کے ہتھیار فراہم کرنا پارٹی کے تِھنک ٹینک کی ذمہ داری ہے ۔حکومت کی ناقص پالیسیوں،نااہلی اور کرپشن بارے معلومات نہ صرف نوجوانوں کو دلائل سے مسلح کریں گی، بلکہ قومی ڈبیٹ کا معیار بھی بلند کریں گی ۔   
حکومت ایسی ہی ”شاندار“کارکردگی کا مظاہرہ کرتی رہی اور نمائشی کاموں پر اربوں لٹاتی رہی تو کپتان کا کام مزیدآسان ہوجائے گا۔ن لیگ کی قیادت بے پناہ وسائل لٹا کر شاہانہ پراجیکٹس کھڑے کررہی ہے، ان کے افتتاح کے فیتے کاٹ کر تالیاں بجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں خوشحال پاکستان تعمیر ہورہا ہے، جبکہ واقعہ یہ ہے کہ کروڑوں افراد بھوک سے بلک رہے ہیں، اپنے بنیادی مسائل کے حل کے لئے ترس ر ہے ہیں،سرکاری محکمے خاموشی سے عوام کی ہڈیاں چبا رہے ہیں،مگر بلکتے عوام کی دبی دبی سسکیاں سننے والا کوئی نہیں،لمحہ لمحہ مرتے اکھڑتی سانسوں کے ساتھ زندگی گھسیٹتے عوام کی خبر لینے والا کوئی نہیں ۔ کپتان یہ ہولناک تصویر دکھا سکتے ہیں،عوام کی خبر لے سکتے ہیں ۔
ہم جانتے ہیں کہ پرانے پاکستان کے لرزتے نظام سے فائدہ اٹھاتے لوگ کسی بھی تبدیلی کو سر نہیں اٹھانے دیں گے ۔پرانے نظام کو چلانے والے طبقہ کے پاس وسائل ہیں اور قوت ہے جسے وہ تبدیلی کو روکنے کے لئے بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ان کے ہتھکنڈے اور ہتھیار بھی پرانے ہیں،ان کے نعرے اور دعوے بھی گھسے پٹے۔یہ آپس میں مفاد کی ڈوری میں بندھے ہوئے ہیں، لالچ سے جڑے ہوئے ہیں۔کم ہمتی ان پر گھبراہٹ طاری کرتی ہے تو حواس باختہ ہوکرقوت استعمال کرتے ہیں،کبھی یہ قوت کریک ڈاﺅن کی صورت اختیار کرتی ہے، کبھی جیلیں بھرتے ہیں اور کبھی سفاکانہ فائرنگ ۔کوئی انہیں سمجھائے،اوجھلیو! تبدیلی کو بیریئرز اور کنٹینرز سے نہیں روکا جاسکتا۔ نئے پاکستان کا خواب دیکھنے والوں کے پاس عزم اور حوصلہ ہے ۔ حوصلے پہاڑوں میںسے بھی راستہ بنا لیتے ہیں،پر نہیں مگر طاقت پرواز رکھتے ہیں۔
 تبدیلی کی خواہش اب ایک قوت بن چکی ہے، اسے روایتی بیانات اورنمائشی اقدامات سے بہلایا نہیں جاسکتا ۔ایک جاندار قیادت ہی تبدیلی کی شدید خواہش کو تحریک کی صورت دے سکتی ہے، لیکن جاندارقیادت کو بہت چوکنا ہونا چاہئے، اس میں اتنی سمجھ بوجھ ہو کہ کسی کے بہکاوے میں نہ آئے،کسی سیاسی یتیم کی چکنی چپڑی باتیں انہیں بندگلی میں نہ لے جائے۔ عمران خان اگر تبدیلی کی لہروں کوسمت دینا چاہتے ہیں توانہیں پرانی سیاست کے خضاب زدہ سیاست دانوں سے بچنا چاہئے ۔ بڑی تبدیلی کے لئے گہری سوچ، مربوط حکمت عملی اوربڑا حوصلہ چاہئے ۔چھوٹی چھوٹی سیاسی مہم جوئیاں کپتان کو بڑے مقصد سے ہٹا دیں گی،انہیں قوم کو بچانے سے پہلے خودکو ضائع ہونے سے بچانا چاہئے ۔

مزید :

کالم -