قصور اپنا نکل آیا
مسلم لیگ(ن) کے لئے جشن فتح منانے کا موقع نہیں، بلکہ بال بال بچنے پر شکرانے کے نوافل ادا کرنے کا وقت ہے۔ این اے 122 کے اعصاب شکن معرکے سے کم از کم یہ تو طے ہو گیا کہ اب تخت لاہور پر قبضہ برقرار رکھنے کا معاملہ بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔عام آدمی کو براہِِ راست ریلیف دئیے بغیر حکومت چلانا پارٹی کے لئے گڑھا کھودنے کے مترادف ہے۔ یہ بھی واضح ہو گیا کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف کو طرز حکومت میں بعض بنیادی تبدیلیاں لانا ہونگی۔ ایسا نہ کیا گیا تو پھر تنزلی کا عمل روکنے کی کوئی اور صورت باقی نہیں بچے گی۔ میٹرو بس، میٹرو ٹرین اور دیگر میگاپراجیکٹس کافی نہیں ،عوام کو درپیش مسائل کا فوری حل ممکن بنانا ہو گا۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں کی خوفناک صورت حال سب کے سامنے ہے۔ سرکاری دفاتر میں کرپشن اور سرخ فیتے کا منحوس چکر ایک عفریت بن کر پورے نظام کو ہی نگل سکتا ہے۔ ہوش میں آنا ہو گا اور جلد آنا ہو گا۔ ضمنی انتخابات کے سنسنی خیز نتائج الارمنگ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر بہت سے اسباق بھی سموئے ہوئے ہیں ،اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ حکومت کے خلاف بعض قوتیں اپنا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں ،تو بھی اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ جیسے تیسے بھی ہو حکومت کو اپنی بقاء کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے کا راستہ خود ہی بنانا ہو گا۔ شاہی دورلد چکا ،ووٹروں کو دور نہیں رکھا جا سکتا۔ حکمران شخصیات اور ارکان اسمبلی تک عام آدمی کو رسائی دینا ہو گی۔
دھرنوں کے خاتمے کے بعد جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ نے دھاندلی کے تمام الزامات مسترد کر دئیے تو کچھ وقت کویوں لگا کہ سیاسی استحکام آئے گا۔ جمہوریت مضبوط ہو گی۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد پھر سے بحران پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ حکمران جماعت نے ضمنی الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو عمومی تاثر یہی تھا کہ ایاز صادق آسانی سے کامیاب ہو جائیں گے۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ حالات کروٹیں بدلنے لگے۔ اگرچہ آزاد ذرائع سے آنے والے سروے مسلم لیگ(ن) کی کامیابی کی نوید ہی سنارہے تھے، لیکن پارٹی کے بعض سیاسی دماغوں نے معاملے کو بھانپ لیا۔ انتخابی مہم کی قیادت کیلئے حمزہ شہباز شریف میدان میں آئے تو وفاقی وزراء کی فوج بھی ان کے ہمراہ تھی۔ زبردست انتخابی مہم چلائی گئی حتیٰ کہ سونامی جلسوں کے لئے مشہور تحریک انصاف کے ڈونگی گراؤنڈ والے جلسے کا بھی بھرپور جواب دیا گیا۔ بظاہر مطمئن نظر آنے والی حکمران جماعت اندر سے خدشات کا شکار بھی تھی۔ ایک موقع پر جب یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ خفیہ رپورٹوں میں ایاز صادق کو کلین سویپ کرتے دکھایا گیا تو وزیراعظم نواز شریف مطمئن ہونے کے بجائے مزید اضطراب کا شکار ہو گئے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ سوچ رہے ہوں کہ حکومت کو شرمندہ کرنے کے لئے انہیں ٹریپ تو نہیں کیا جارہا ۔ یہی وہ موقع تھا کہ جب بھکھی پاور پلانٹ کا ڈول ڈالا گیا۔ اگلے روز نواز شریف شہر کا دورہ کرتے اور صحافیوں سے ملتے نظر آئے۔خواہ ضمنی الیکشن کے لئے ہی سہی،لیکن وزیراعظم کا یہ عمل خوداس امر کا اعتراف ہے کہ حکمران جماعت اس حوالے سے بعض کوتاہیوں کی مرتکب ہورہی ہے۔ ان تمام کاوشوں کے نتیجے میں ایاز صادق تو جیت گئے، لیکن تخت لاہور پر شہر کی بلاشرکت غیرے حکمرانی کے تصور کو دھچکہ لگا ہے۔ مکرر عرض ہے کہ اس میں سب سے زیادہ قصور حکمران شخصیات اور ان کی شاہانہ سوچ کا ہی ہے۔
این اے 122 کے ضمنی الیکشن میں اپنی ہار کو اخلاقی فتح کہنے والی تحریک انصاف کیلئے بھی یہ شکست ایک اپ سیٹ کی مانند ہے، جس منصوبہ بندی سے یہ سیٹ خالی کرا کے نئے الیکشن کا بندوبست کیا گیا ،تحریک انصاف کے لئے اس میں شکست کا آپشن رکھا ہی نہیں گیا تھا۔ یہ بھی محض خام خیالی ہے کہ علیم خان بعض الزامات کے باعث کمزور امیدوار تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کے پاس ان سے بہتر کوئی امیدوار سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ ارب پتی ہونے کے ساتھ ساتھ ’’سخی‘‘ ہونا ان کی بہت بڑی خوبی ہے۔ وہ خوش اخلاق بھی ہیں، یہ علیم خان ہی تھے،جنہوں نے حلقے میں ان کونے کھدروں میں بھی اپنے لئے حمایت پیدا کر لی، جنہیں حکمران جماعت معمولی رعایتوں کے عوض اپنی پاکٹس تصور کررہی تھی۔ علیم خان کی جانب سے بے پناہ وسائل کا اندھا دھند استعمال الیکشن ہارنے کے لئے ہر گز نہیں تھا۔ عمران خان بھی بخوبی آگاہ تھے کہ دھرنوں کے دھرے رہ جانے اور پھر جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ آ جانے کے بعد فی الوقت واحد راستہ یہی ہے کہ ضمنی الیکشن میں کسی بھی طرح ایاز صادق کو شکست سے دو چار کر کے 2013 ء کے پورے انتخابی عمل کو متنازعہ بنادیا جائے ۔ تحریک انصاف اور دھرنے میں شریک اس کی اتحادی جماعتوں کے علاوہ پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ(ق) کے ووٹروں نے بھی اس ’’نیک کام‘‘ میں بھرپور حصہ ڈالا۔ عمران خان اپنی ذاتی انتخابی مہم سے کہیں بڑھ کر یونین کونسلوں اور وارڈوں کی سطح تک خود گئے اور اپنی پوری طاقت صرف کی۔ ریحام خان کو سیاست سے دور رکھنے کا اعلان کرنے کے باوجود انتخابی مہم میں ساتھ لانے پر مجبور ہو گئے۔
کپتان نے کسی پیر و فقیر کا در بھی نہیں چھوڑا جس نے حمایت کی ہامی بھری اس کے گھر پہنچ گئے۔ وزیراعلیٰ کے پی کے کو خصوصی طور پر لاہور بلوایا گیا۔ تحریک انصاف کی پوری قیادت حکومت مخالف جماعتوں اور وسائل کے ساتھ مکمل یکسوئی سے اس انتخابی جنگ میں شریک ہوئی۔ ایاز صادق بے شک ڈھائی ہزار کے مارجن سے ہی جیتے، لیکن فتح مند تو ہو ہی گئے۔ اب جلد ہی سپیکر قومی اسمبلی بھی منتخب کر لئے جائیں گے۔ مسلم لیگ(ن) اس صورت حال پر آگے کیا پالیسی بنائے گی یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ضمنی الیکشن کے نتائج سے کچھ اہم نکات، مگر واضح ہو گئے۔ ایک تو یہی کہ پہلے بھی فاتح تھے اب بھی ظفر مند رہے۔ عمران خان کا اس حلقے کے حوالے سے مسلسل یہ دعویٰ کہ 2013 ء میں 57 ہزار جعلی ووٹ بھگتائے گئے یکسر باطل ثابت ہو گیا۔ احتجاج کا سلسلہ نئے سرے سے شروع کرنے کے لئے جو بنیاد انہیں درکار تھی وہ نہیں مل سکی ( یہ الگ بات ہے کہ نئی احتجاجی تحریک کا معاملہ کسی جواز کے بجائے کسی سکرپٹ کا محتاج ہے) اس حلقے کے صوبائی حلقے پی پی 147 سے کلثوم نواز کے حقیقی بھانجے محسن لطیف کو عوام نے مسترد کر کے تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ سنادیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے حلقے میں پھرمسلم لیگ(ن) کا امیدوار کامیاب ٹھہرا ،جبکہ نیچے صوبائی اسمبلی کے دونوں حلقے اب تحریک انصاف کے پاس چلے گئے۔ تحریک انصاف کا یہ دعویٰ بھی کھوکھلا ہو گیا کہ صوبائی اسمبلی کا امیدوار جیت جائے اور قومی اسمبلی کا ہار جائے ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ خان صاحب! دیکھ لیں اب ایسا ہو چکا ہے۔ اسی روز اوکاڑہ کے حلقہ این اے 144 میں بھی ضمنی الیکشن ہوا جہاں مسلم لیگ(ن) کا امیدوار آزاد امیدوار سے بری طرح ہار گیا۔ یہ سیٹ مسلم لیگ(ن) کے ایم این اے کے نااہل ہونے سے ہی خالی ہوئی تھی۔
اب اس حلقے سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی بھی مسلم لیگ(ن) کا ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت میں کھڑے ہوئے ۔ نو منتخب ایم این اے چودھری ریاض جج 27سال تک مسلم لیگ(ن) میں رہے۔ مسلم لیگ(ن) نے بہرحال یہ حلقہ کھودیا۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہاں تحریک انصاف کے اس امیدوار کی ضمانت ضبط ہو گئی، جس کی انتخابی مہم خود عمران خان نے چلائی تھی۔ لگتا یوں ہے کہ تحریک انصاف کو 2018ء میں اگلے انتخابات اگر بروقت ہوتے تو جیتنے کے لئے ابھی بہت سے پاپڑ بیلنے ہیں۔ مُلک کی سب سے مقبول پارٹی ہونے کا دعویٰ کرنے والی جماعت کے امیدوار کی ضمانت ضبط ہونا نہایت اہم ہے۔آثارہیں کہ سیاسی محاذ پھر سے گرم ہو سکتا ہے۔ کوئی دھرنا، کوئی تحریک ،کوئی شورشرابا ہو سکتا ہے۔ این اے 122 کا ضمنی الیکشن مسلم لیگ(ن) کو پھر سے جتوا کر اطمینان سے حکومت کرنے کے لئے تو نہیں کرایا گیا تھا؟ اس ساری صورت حال میں تحریک انصاف، دھرنوں میں شامل جماعتوں سمیت پھر سے حکومت گرانے کی کوشش کر سکتی ہے۔ ایسے ماحول میں مین سٹریم سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کے تحفظ کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
مُلک کے اگلے سیاسی منظر نامے میں پیپلز پارٹی اپنے لئے جو بھی کردار پسند کرے یہ اس کا حق ہے، مگر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ آصف زرداری کی عدم موجودگی میں معاملات مزید ابتری کی طرف جارہے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے بعد پارٹی اور حکومت چلانے میں شہ دماغ کا کردار ادا کرنے والے آصف علی زرداری کی وجہ شہرت ہی ان کی بہادری ہے۔ اس لئے انہیں ’’مرد حر‘‘ کا خطاب دیا گیا تھا۔ انہوں نے وطن واپس آ کر سیاسی سرگرمیاں شروع نہ کیں تو خدشہ ہے کہ پنجاب سے سکڑتی پیپلز پارٹی ہوم گراؤنڈ سندھ میں بھی بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔کیا واقعی کوئی نیا بحران پیدا ہونے جا رہا ہے؟ پاکستان جیسے مُلک میں کوئی بھی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی؟سازشی تھیوریاں ہیں کہ حکومت کو ایک بار پھر سے گھیرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو ماضی کی طرح ’’فائدہ ‘‘استعمال کرنے والے ہی اٹھائیں گے، استعمال ہونے والے محض استعمال ہی ہوں گے۔ *