حمزہ شہباز جیت گئے

حمزہ شہباز جیت گئے
 حمزہ شہباز جیت گئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سردار ایازصادق کی انتخابی مہم میدان میں نوازاور شہباز شریف نہیں بلکہ حمزہ شہباز چلا رہے تھے، اس میں کون جیتا اور کون ہارا،دلچسپ توجیہات کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلم لیگ نون نے کامیابی کا جشن منایاکہ ووٹروں نے صرف لاہور نہیں بلکہ عملی طور پرپورے پاکستان کے تخت کا فیصلہ کرنا تھا۔سردار ایاز صادق یہ انتخاب ہار جاتے تو جوڈیشئل کمیشن میں بیٹھے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت پاکستان کے اعلیٰ ترین منصفوں کا فیصلہ بھی ہار جاتا۔آئینی، پارلیمانی اور جمہوری نظام کے آگے پھر بڑا سوالیہ نشان لگا دیا جاتا۔سردار ایاز صادق اس طرح کامیاب ہوئے کہ انہوں نے عبدالعلیم خان کو صرف اڑھائی ہزار ووٹو ں سے پچھاڑا اور ان کے صوبائی اسمبلی کے امیدوار محسن لطیف بھی اپنا انتخاب ہا ر گئے۔ مسلم لیگ نون کا قلعہ سمجھے جانے والے شہرکے ضمنی انتخاب میں اس کے ایک لاکھ دو ہزار نو سو اٹھائیس ووٹوں کے مقابلے میں تحریک انصاف کو قومی او ر صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر مجموعی طور پرایک لاکھ چار ہزار اکانوے ووٹ ملے یعنی ایک ہزار تریسٹھ ووٹ زیادہ، اسی کی بنیاد پر تجزئیے ہو رہے ہیں کہ کچھ ہی ہفتوں کے بعد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف حیران کن نتائج دے سکتی ہے۔یہی سوال میں نے مسلم لیگیوں کے سامنے رکھا تو جواب ملا کہ کیا تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات میں بھی ایسے امیدوار دے سکتی ہے جو عبدالعلیم خان کی طرح روپے خرچ کر سکیں۔وہ تین ہزار کے قریب ووٹ جماعت اسلامی اور عوامی تحریک کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے قرار دیتے ہیں کہ اگر عبدالعلیم خان امیدوار نہ ہوتے تو مسلم لیگ نون برتری بیس ہزار کی ہوتی۔ مسلم لیگی کارکن ،عبدالعلیم خان پر تمام تر اخلاقی اور غیر اخلاقی تنقید کے باوجود تسلیم کرتے ہیں کہ اس انتخاب کو کانٹے دار عبدالعلیم خان نے ہی بنایا ہے۔


تحریک انصاف اس کارکردگی کے باوجود غم، غصے اور صدمے کی حالت میں کیوں ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ اصل سوال ہی سردار ایاز صادق کی کامیابی اور ناکامی کا تھا۔ محسن لطیف کی شکست کو ایک طرف رکھتے ہوئے لاہوریوں نے گیارہ اکتوبر کو کم و بیش وہی فیصلہ دہرا دیا جو انہوں نے دو برس پہلے گیارہ مئی کو دیا تھا۔تحریک انصاف نے جوڈیشئل کمیشن میں ہارا ہوا مقدمہ ایک مرتبہ پھر عوامی ، سیاسی اور انتخابی عدالت میں ہار دیا ہے چاہے یہ محض اڑھائی ہزار ووٹوں سے ہی کیوں نہ ہارا ہو۔جوڈیشئل کمیشن کا فیصلہ اس نکتے پر بھی درست ثابت ہوا کہ بے ضابطگیاں کسی بھی حلقے میں منظم دھاندلی اورنتیجے کی تبدیلی کا جواز ثابت نہیں ہوئیں لہذا اب سیاسی قوتوں کو محلاتی سازشوں سے کہیں زیادہ اپنا وقت عوامی مسائل حل کرنے پر صرف کرنا چاہئے۔ یہ پیغام بھی اسی ضمنی انتخاب نے دیا ہے۔ مسلم لیگ نون کے رکن پنجاب اسمبلی محسن لطیف حلقے سے غائب رہے تھے۔ اس حلقے کے عوام کی مشکل یہ رہی کہ عوام کو تھانے ، کچہری، ہسپتال اور بلدیہ تک میں اپنے مسائل کے حل کے لئے اپنے منتخب رہنماوں کی مدد چاہئے مگر سردار ایاز صادق سپیکر بننے کے بعد اسلام آباد میں زیادہ مصروف ہو گئے۔ اسلم اقبال اپوزیشن کے ایم پی اے تھے جبکہ محسن لطیف دستیاب ہی نہ تھے ۔ پہلے سے کم مارجن سے کامیابی مسلم لیگ نون کی حکومت کی طرف بلدیاتی انتخابات نہ کروانے کی سزا بھی ہے۔ سردار ایاز صادق کی کم برتری اور محسن لطیف کی شکست ان خدمات کی عدم فراہمی پر ہے جو بنیادی طور پر ان کی ذمہ داری ہی نہیں تھی۔


اس انتخاب کے عمومی تجزئیے سے ہٹ کر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سردار ایاز صادق کی کامیابی سے کس کو کتنا فائدہ ہوا۔ سب سے پہلا اور براہ راست فائدہ تو سردار ایاز صادق کو ہوا جوپھر ممکنہ طور پر قومی اسمبلی کے سپیکر کا عہدہ سنبھال لیں گے۔ دوسرااور بڑا فائدہ میاں نواز شریف کو حکمران جماعت کے سربراہ کے طور پر ہوا کہ اب انہیں عمران خان کی طرف سے اس جارحانہ سیاست کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جو سردار ایاز صادق کی شکست کی صورت میں یقینی تھی۔ یہ ایک حلقہ اتنا اہم تھا کہ اس کی بنیاد پر ایک مرتبہ پھر پورے ملک کے انتخابی عمل نے چیلنج ہوجانا تھا۔ ایک چھوٹے دعوے کے مطابق سردار ایاز صادق کے اڑھائی ہزار اکثریتی ووٹروں نے میاں نواز شریف کی حکومت کے باقی ماندہ اڑھائی سال کو قدرے آسان بنا دیا ہے اور ایک بڑے دعوے کے مطابق انہوں نے پاکستان میں آئینی ، جمہوری اور پارلیمانی نظام کے تسلسل کو یقینی بنادیا ہے۔میری نظر میں اس الیکشن سے سب سے بڑا فائدہ حمزہ شہباز شریف کو ہوا ہے جوالیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے بعد سردار ایاز صادق کی انتخابی مہم کی سربراہی کر رہے تھے۔ وہ پارٹی کے اندر اپنے تایا نواز شریف اور اپنے والد شہباز شریف کے بعد تیسرے درجے کی قیادت سمجھے جاتے ہیں جن کا پنجہ براہ راست تحریک انصاف کی صف اول کی قیادت عمران خان کے ساتھ لڑا دیا گیاتھا۔ عمران خان کی ریلیوں اور جلسوں کے مقابلے میں حمزہ شہباز شریف کی ریلیاں اور جلسے ہوتے رہے۔ حمزہ شہباز بہرحال عمران خان جیسی مقبولیت کے مالک نہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے براہ راست عمران خان کو پچھاڑا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ میرے تحریک انصاف کے دوست اس سے اتفاق نہ کریں مگر ان کے چہروں کی سوگواری اور دفاتر کی ویرانی بتار ہی ہے کہ وہ شعیب صدیقی کی کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھنے کے لئے تیار نہیں۔ اگر وہ سیاسی ذہن کے مالک ہوتے تو مسلم لیگ نون سے زیادہ ووٹ لینے کو بنیاد بناتے ہوئے پہلی رات ہی عبدالعلیم خان اور شعیب صدیقی کے ساتھ ’شکریہ لاہور‘ ریلی کا اعلان کر دیتے۔ یہاں کتابوں میں لکھی ہوئی یہ بات درست ثابت ہوئی ہے کہ اصل شکست اس وقت ہوتی ہے جب آپ اسے قبول کر لیتے ہیں۔


اگر ہم تحریک انصاف کے اوکاڑہ کے جلسے اور مسلم لیگ نون کے ڈونگی گراونڈ کے جلسے کی تقاریر کا موازنہ کریں تو حمزہ شہباز ایک متحمل مزاج اورمدبر سیاستدان کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ نون کی دوسرے درجے کی قیادت ان کے بارے بدکلامی کرتی ہے تو انہیں بھی خود جواب دینے کی بجائے یہ ذمہ داری اپنے نائبئین کو سونپ کر اپناشخصی تاثر بہتر بنانا چاہئے۔ یہاں حمزہ شہباز شریف نے نواز شریف کا انداز اپنایااور انتخابی مہم کی کامیاب قیادت کر کے پنجاب سنبھالنے کے کوالیفائنگ راونڈ میں کامیابی حاصل کر لی۔شریف خاندان کے ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ میاں نواز شریف جتنی دیوانہ وار محبت اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف سے کرتے ہیں اتنی ہی اپنے بھتیجے سے بھی کرتے ہیں۔وہ حمزہ کی اس جرات کو سراہتے ہیں جو انہوں نے جلاوطنی کے عرصے کے دوران مشرف کی آمریت کا سامنا کرتے ہوئے دکھائی۔ پنجاب میں مسلم لیگ شہباز شریف سے کہیں زیادہ نواز شریف نے حمزہ کے حوالے کر رکھی ہے اور وہ بہت سارے مطالبات جو حمزہ شہبازاپنے والد سے نہیں منوا سکتے، اپنے تایا سے منوا لیتے ہیں۔ یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ پنجاب شہباز شریف کے بیٹے کے پاس ہی رہے گا ۔ مجھے کہنے دیجئے کہ حمزہ شہباز ، عمران خان جیسے قائد کو اپنے شہر میں پچھاڑنے کے باوجود کچھ وجوہات کی بناء پر پنجاب کی سطح تک محدود رہیں گے ۔ ان میں وہ خاندانی وجوہات بھی اہم ہو سکتی ہیں جو ہمارے برصغیر پاک و ہند کے خاندانوں میں بدرجہ اتم موجود ہیں اور جن پر بننے والے سٹار پلس کے ڈرامے بہت مقبول ہوا کرتے تھے۔ بہرحال ان روایتی وجوہات کے ساتھ اس خاندان کو سیاست کرتے ہوئے اب عشرے گزر چکے لہذا یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معمول کے روایتی اختلافات کے باوجود یہ خاندان اپنی سیاسی اور سماجی وحدت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے گا۔ یہ دور کے ڈھول سہی مگر مریم نواز شریف کو مرکزی سطح پر پارٹی قیادت میں اپنا کردار بڑھانا کرنا پڑے گا۔ قریب کے ڈھول تو یہ ہیں کہ حمزہ شہباز شریف کی قیادت میں تحریک انصاف کی انتہائی جارحانہ انتخابی مہم کے کامیاب مقابلے نے انہیں بہت مضبوط کر دیا ہے۔ وہ خاندان کے افراداور اپنے دوستوں ہی نہیں بلکہ اختلاف رکھنے والوں سے بھی مبارکبادیں وصول کر رہے ہیں۔اسی انتخابی مہم نے بتایا ہے کہ مسلم لیگ نون موروثی سیاست برقرار رکھے گی۔ اس مہم میں ان وفاقی وزراء نے بھی وزیراعظم کے بھتیجے اور وزیراعلیٰ کے بیٹے کی قیاد ت کو تسلیم کر لیا ہے جو اس سے پہلے اس میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے تھے۔ حمزہ شہباز نے عمران خان کو ہی نہیں پارٹی میں اپنے بارے تحفظات رکھنے والوں کو بھی شکست دینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

مزید :

کالم -