سردار ایاز صادق کو ایک فیصد ووٹ کم ملے ، علیم خان کو 9-1زیادہ

سردار ایاز صادق کو ایک فیصد ووٹ کم ملے ، علیم خان کو 9-1زیادہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ :قدرت اللہ چودھری
 ہرالیکشن میں کچھ نئے تجربات سامنے آتے ہیں، نئی حقیقتیں ابھرتی ہیں، کئی ستارے ڈوب جاتے ہیں اور افق سیاست پر نئے ستارے چمکنے لگتے ہیں، لاہور کے حلقہ 122کے ضمنی انتخابات میں کامیاب اور ناکام امیدواروں کے متعلق تاویلات کا ایک نیا تانا بانا بنا جارہا ہے، یہ درست ہے کہ اس الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو ووٹ کم پڑے ہیں۔ اسی طرح تحریک انصاف کا امیدوار بھی اتنے ووٹ حاصل نہیں کر پایا جتنے 2013ء کے الیکشن میں عمران خان کو پڑے تھے۔ لیکن سردار ایاز صادق کی کامیابی کی اہمیت کم کرکے پیش کرنے کی ایک شعوری کوشش کی جارہی ہے اور اصلی فتح کو ’’اخلاقی فتح ‘‘ کے گہن میں لپیٹا جارہا ہے، حالانکہ اگر معاملات برعکس ہوتے یعنی علیم خان دوہزار ووٹوں سے جیتے ہوتے تو کیا پھر بھی سوچ کا انداز یہی ہوتا؟اور سردار ایازصادق کو اخلاقی فتح کا ڈھول بجانے دیا جاتا ؟اگرچہ سترہزار جعلی ووٹوں کی تھیوری کا بھانڈہ بیچ چوراہے کے پھوٹ گیا ہے لیکن اس طرف کسی کا دھیان نہیں ہے حالانکہ یہ سوال بڑا جائز اور مناسب ہے کہ عمران خان جن ستر ہزار جعلی ووٹوں کا ڈھنڈوراپیٹ رہے تھے وہ اب کہاں چلے گئے اور اب کی بار کس امیدوار کے حصے میں آئے ہیں؟
2013ء کے عام انتخابات میں سردار صادق کو جو ووٹ ملے تھے وہ ڈالے جانے والے ووٹوں کا 51.6فیصد تھے جبکہ ضمنی انتخابات میں یہ شرح 50.6فیصد ہے، گویا سردار صادق کے ووٹ عام انتخابات کی نسبت ایک فیصد کم ہوئے ہیں۔ مدمقابل عبدالعلیم خان کو ضمنی انتخابات میں 48.7فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ 2013ء میں عمران خان کو 46.8فیصد ووٹ ملے تھے، گویا علیم خان کے ووٹ 1.9فیصد بڑھ گئے ہیں، ووٹوں کی اس شرح کو دیکھ کر اگر کوئی شخص یہ دلیل لائے کہ علیم خان تو عمران خان سے زیادہ پاپولر ہیں کیونکہ انہیں 1.9فیصد ووٹ زیادہ ملے ہیں تو حسابی کتابی کلیئے کے مطابق ممکن ہے یہ غلط نہ ہو، لیکن یہ دعویٰ بلا دلیل ہوگا، سب کو معلوم ہے علیم خان نے جس طرح ووٹروں کو اپنی جانب راغب کیا وہ ہر شخص نہیں کرسکتا نہ ہر شخص کے پاس اتنے وسائل ہیں ، البتہ ایک سوال یہاں حسب حال ہے کہ اتنے زیادہ اخراجات کے بعد بھی اگر محض ’’ اخلاقی کامیابی ‘‘ ہی حاصل کرنی تھی تو یہ بہت کم اخراجات سے بھی مل سکتی تھی، کیونکہ ’’اخلاقی کامیابی‘‘ نے اعدادوشمار کے کسی کنڈے میں تو نہیں تلنا ہوتا ہے ،بس یہ ایک احساس کا نام ہے۔ اب اگر اتنی زیادہ جدوجہد اور سرمایہ کاری کے باوجود آدمی انتخاب ہار جائے اور اس طرح کی توجیحات کا سہارابھی نہ لے تو یہ ہارنے والے سے سراسر زیادتی ہے۔
اوکاڑہ میں بھی ایک الیکشن اسی دن لڑا جارہا تھا جس دن لاہور کا معرکہ کارزار گرم تھا، وہاں صحیح معنوں میں اپ سیٹ ہوا۔ آزادامیدوار ریاض الحق (جج) نے تمام سیاسی جماعتوں کو پچھاڑ دیا کیا مسلم لیگ (ن) ، کیا تحریک انصاف ، کیا پیپلزپارٹی ، سب کے سب اس آزاد امیدوار کے سامنے چاروں شانے چت پڑی ہیں لیکن ’’اخلاقی فتح ‘‘ کا دعویٰ کوئی نہیں کررہا، شاید اس لئے کہ محض تین ہفتوں کی انتخابی مہم نے ریاض الحق جج کو اتنے ووٹ دلوائے جس کا وہ خود بھی شاید ٹھیک طرح سے تصور نہ کرتے ہوں ریاض الحق پہلی دفعہ قومی اسمبلی کا الیکشن جیتے ہیں۔ انہوں نے 13ء میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کی درخواست دی جو انہیں نہ ملا اور عارف چودھری لے اڑے جب وہ نااہل ہوگئے تو ٹکٹ ان کے بیٹے علی عارف کو دے دیا گیا، وہ دوسری بار بھی ٹکٹ سے محروم ہوگئے۔
لیکن انہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب جیت کر ثابت کردیا کہ پاپولر جماعتوں کا ٹکٹ ہروقت اور ہر لمحے کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتا۔ آزاد امیدوار بھی ووٹروں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ سکتا ہے، حالات کی نبض پہچان سکتا ہے، اور اس نبض شناسی کے نتیجے میں کامیاب بھی ہوسکتا ہے، ریاض الحق کا خان دان اوکاڑے کا متمول خاندان ہے وہ انتخابی سیاست میں تو نووارد ہیں لیکن صنعت اور تجارت میں عرصے سے سرگرم ہیں، نعمت گھی ملز ان کی ملکیت ہے، اور بھی بہت سے صنعتی ادارے ان کی سلطنت میں شامل ہیں، لیکن فلاحی کاموں میں بھی ان کا حصہ ہے۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں وہ فلاحی کام کرتے ہیں۔
فضل دین ٹرسٹ ہسپتال اور نعمت فیملی ہسپتال اوکاڑہ کے لوگوں کو مفت طبی سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے دو علیحد ہ علیحدہ سکول بھی کھولے گئے ہیں ممکن ہے ان کے فلاحی کاموں نے بھی ان کی کامیابی میں اپنا حصہ ڈالا ہو لیکن انہوں نے الیکشن جیتنے کے لئے جو حکمت عملی تیار کی، اس کی تفصیلات جب مجھے عتیق الزمان بٹ بتارہے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ ایسے شخص کو ضرور جیتنا چاہئے تھا، کسی کا دل چاہے تو اس حکمت عملی کو حقارت سے ووٹ خریدنے کے مترادف قرار دے لے، لیکن کوئی ان ووٹروں سے بھی پوچھے کہ کیا اس طرح ووٹ خریدے جارہے تھے یا دل جیتے جارہے تھے؟ میرا خیال ہے بعد والے درست ہوسکتی ہے۔
لاہور میں علیم خان نے ممکن ہے ریاض الحق سے زیادہ خرجہ کردیا ہو، لیکن یہ خرچ کسی ٹرسٹ کے تحت نہیں تھا، نہ کسی گھی ملز کی جانب سے گھی کے ڈبے عطیہ کئے جارہے تھے، نہ کلو دو کلو چینی دے کر لوگوں کو رام کیا جارہا تھا، یہاں تو سیدھا سادہ ’’کیش کروپ‘‘ کی طرح کا سودا تھا، علیم خان اگر اس خرچ کو کسی ضابطے کے تحت لاتے، اور جو دولت انہوں نے لٹائی اس کا ایک معمولی حصہ چند فلاحی ادارے کھولنے پرلگادیتے تو ممکن ہے اگلے الیکشن میں وہ بہتر پوزیشن میں ہوتے۔ اب بھی ان کے پاس وقت ہے، وہ تحریک انصاف کی ایجی ٹیشنل سیاست کی بھول بھلیوں سے نکلیں، ہرمہینے کروڑوں نہیں تو لاکھوں روپے غریب غربا کی فلاح وبہبود پر خرچ کردیا کریں تو ممکن ہے انہیں اگلے کسی الیکشن میں ’’اخلاقی فتح‘‘ سے آگے بڑھ کر کامیابی حاصل ہوجائے ،یارلوگوں نے سارا فوکس لاہور پر رکھا ہوا ہے وہ اوکاڑے کی جانب نہیں دیکھتے جہاں تحریک انصاف کے امیدوار اشرف سوہنا کی ضمانت ضبط ہوگئی ، انہیں 6356ووٹ مل سکے ، جب وہ پیپلزپارٹی میں تھے اور 2013ء کو صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا تو صوبائی حلقے میں بھی ( جہاں کل ووٹ تقریباً نصف ہوتے ہیں) 17,800ووٹ لے گئے۔ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کے میاں منیر جیت گئے تھے وہ جس طرح جمپ لگاکر تحریک انصاف میں گئے اس سے انہیں کیا حاصل ہوا ؟
ایک فیصد ووٹ

مزید :

تجزیہ -