پاکستان اور بھارت سمیت تنازعات میں گھرے 52ملکوں میں 8سو ملین افراد بھوک کا شکار

پاکستان اور بھارت سمیت تنازعات میں گھرے 52ملکوں میں 8سو ملین افراد بھوک کا ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


واشنگٹن/اسلام آباد(آن لائن ،اے این این) پاکستان اور بھارت سمیت تنازعات میں گھرے دنیا کے52ملکوں میں 800ملین افراد بھوک کا شکار،جاری فہرست میں پاکستان کا نمبر11،بھارت25ویں نمبر پر براجمان،انڈیکس کے مطابق 2005 کے مقابلے میں پاکستان میں بھوک کی صورتحال میں 4.4 پوائنٹس کمی آئی ہے،افغانستان سمیت8ممالک میں غذائی قلت کی صورتحال خوفناک حد بری ہے،تنازعات میں گھرے ممالک ہی غذائی قلت کا شکار ہو رہے ہیں۔یہ رپورٹ انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ، جنسرن ورلڈ وائیڈ اور ویلٹ ہنگرالف نے تیار کی ہے۔فہرست میں پاکستان گیارہویں نمبر پر جبکہ بھارت 25 ویں نمبر پر ہے جہاں صورتحال تشویشناک ہے۔گلوبل ہنگر انڈیکس 2015 کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والے مسلح تصادم کے باعث 800 ملین لوگوں تک پوری خوراک نہیں پہنچ رہی ہے۔2015 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں 52 ممالک ایسے ہیں جن میں سے زیادہ تر میں مسلح تصادم جاری ہونے کے باعث صورتحال یا تو پریشان کن ہے یا پھر تشویشناک۔ان ممالک میں آٹھ ممالک ایسے ہیں جہاں پر صورتحال خوفناک حد تک ہے اور ان میں سینٹرل افریقن ریپبلک 46.9 پوائنٹس کے ساتھ سرِ فہرست ہے۔خوفناک حد تک صورتحال کی فہرست میں افغانستان بھی شامل ہے۔تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2000 سے ترقی پذیر ممالک میں بھوک میں 27 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔رپورٹ کے مطابق پہلے نمبر پر سینٹرل افریقن ریپبلک، دوسرے پر چاڈ اور تیسرے پر زیمبیا ہے۔انڈیکس کے مطابق 2005 کے مقابلے میں پاکستان میں بھوک کی صورتحال میں 4.4 پوائنٹس کمی آئی ہے۔دوسری جانب بھارت میں 2005 کے مقابلے میں بھوک کی صورتحال میں 9.5 پوائنٹس کمی آئی ہے۔اس انڈیکس میں بہت سے ممالک شامل نہیں کیے گئے کیونکہ ان ممالک سے تصدیق شدہ اعداد و شمار نہیں لیے جا سکے۔ ان ممالک میں جنوبی سوڈان، کانگو اور شام شامل ہیں۔تاہم ان ممالک کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ بھوک کی صورتحال کافی خوفناک ہے۔کنسرن ورلڈ وائیڈ کے چیف ایگزیکٹو ڈومنک میکسورلی کا کہنا ہے تصادم ترقی کو پیچھے کی جانب دھکیل دیتا ہے۔ امن کے بغیر مفلسی اور خوراک کی کمی کو 2030 تک ختم کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی جا سکے گی۔ وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری تصادم کو ہونے سے روکنے اور مسائل کے حل کو اولین ترجیح بنائے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تنازعات کی صورت حال اور شدید بھوک کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اور یوں وسط افریقی جمہوریہ، شاڈ اور زمبابوے میں غذائی کمی لاحق ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں غربت میں کمی لانے کے حوالے سے میں پیش رفت کے حصول کے باوجود، کم از کم 52 ترقی پذیر ملکوں میں افلاس کی سطح تشویش ناک اور پریشان کن ہے۔ ویلٹ ہنگر لائف کے صدر، باربل ڈائکمن کے بقول، مسلح تنازعات میں گھرے 80 فی صد سے زیادہ لوگ اپنے ملکوں کے اندر ہی رہتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو غذا کے عدم دستیابی کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔تاہم، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برعکس اس کے، انگولہ، ایتھیوپیا اور روانڈا میں غذائی کمی کی سطح قدرے کم ہوئی ہے، جہاں 1990 اور 2000کی دہائیوں میں خانہ جنگی درپیش رہی ہے۔ڈومینک مک سورلی، کنسرن ورلڈ وائیڈ کے سربراہ ہیں۔ بقول ان کے، تنازع کے بعد ترقی کی رفتار میں کمی آتی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بین الاقوامی برادری تنازع سے گزیر کرے، اور دکھوں کا مداوا اور مسائل کے حل کو سیاسی ترجیح کا معاملہ بنائے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترقی پذیر ملکوں میں 2000 سے اب تک، غذائی ابتری کی سطح میں 27 فی صد بہتری آئی ہے۔ سنہ 2000سے اب تک برازیل، کروشیا، پیرو اور ونزویلا ان ملکوں میں شامل ہیں جہاں بھوک میں کمی واقع ہوئی ہے۔ آفات کا سبب بننے والے قحط ، جن میں 10 لاکھ سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن جایا کرتے تھے، اب ختم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔