زوال پذیر تعلیمی نظام

زوال پذیر تعلیمی نظام
 زوال پذیر تعلیمی نظام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے نتائج کے مطابق اس سال سی ایس ایس کے امتحان میں 9301 امیدواروں میں سے صرف 312 امیدوار ہی کامیاب ہو پائے۔ یوں سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی کا تناسب 3.32 فیصد ہی رہا۔ پاکستان کے تعلیمی نظام پر نظر رکھنے والے کسی بھی شخص کے لئے اس خبر میں حیرت کا کوئی خاص سامان نہیں ہے۔ مقابلے کے امتحان میں تو ویسے بھی ذہانت سے زیادہ حصہ رٹا لگانے کی ’’صلاحیت‘‘ کا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مقابلے کے امتحانات میں بعض اوقات ذہین اور وسیع مطالعہ امیدوار ناکام ہو جاتے ہیں اور اوسط درجے کا ذہن رکھنے والے امیدوار محض رٹے کی ’’صلاحتیوں‘‘ کا مظاہرہ کرکے کامیاب ہوجاتے ہیں، یہاں پر اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ مقابلے کے امتحان کے ذریعے ریاست نے اپنی مشینری کو چلانے کے لئے ایسی ذہنی صلاحتیوں کے افراد ہی لینے ہوتے ہیں جو ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو برقرار رکھنے کے لئے ریاست کی مدد کرسکیں۔ پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر میں ریاستوں کی یہی کوشش رہتی ہے کہ اپنی ریاستی مشینری کو چلانے کے لئے ’’یس سر‘‘ ٹائپ کے افراد کو بیوروکریسی میں شامل کیا جائے۔ دنیا کی کو ئی بھی ریاست کسی بھی طور پر یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ اس کی مشینری ایسے’’مفکرین‘‘ چلانا شروع کردیں جو سوچ اور فکر کے اعتبار سے اتنے بلند ہوں کہ حکمرانوں کی اطاعت ہی نہ کر پائیں۔

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو چین وہ پہلا ملک تھا جہاں پر ہان خاندان کی بادشاہت یعنی200قبل مسیح سے یہ روایت موجود تھی، کوئی بھی شخص ریاستی عہدیدار یا آج کی زبان میں بیوروکریٹ بننا چاہتا ہے تو اسے ’’شاہی امتحان‘‘ دینا پڑتا، جس میں اس کو اپنی علم اور دانش ثابت کرنا پڑتی۔ قدیم چینی تہذیب کا یہ عمل اس دورکے معروض کے مطابق بہت بڑا انقلابی قدم تھا کہ جس دور میں ریاستی عہدوں پر کوئی بھی شخص بادشاہ سلامت یا اس کے خاندان کی ذاتی خواہش اورپسند کے علاوہ کبھی بھی دربار میں اپنی جگہ نہیں بنا پاتا تھا، مگر چین میں ایسا کرنے کے لئے کسی بھی فرد کو اپنی دانش باقاعدہ امتحان میں ثابت کرنا پڑتی۔ بعد ازاں دنیا کی اکثر ریاستوں میں ریاستی عہدے داروں کے لئے اسی امتحانی طریقے کو ہی اپنا یا گیا، مگر چین جہاں سے اس نظام کا آغاز ہوا، وہاں پر بھی ان ’’شاہی امتحانات‘‘ میں یہ بات دیکھی جاتی تھی کہ کسی ایسے شخص کو شاہی ملازمت دی جائے، جس کا علم اتنا ہی ہو کہ وہ ریاستی امور کو مناسب انداز میں چلا پائے، نہ کہ کسی ایسے شخص کو جو اپنے علم اور فکری بلندی سے حکمرانوں کی اطاعت ہی نہ کر پائے۔ خیر مقابلے کے امتحان میں تو ہم یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ ریاست کے اپنے مخصوص تقاضوں کے باعث ان امتحانات میں’’مفکروں‘‘ والا ذہن رکھنے والے کئی امیدوار کامیاب نہیں ہو پاتے، مگران یونیورسٹیوں، کالجوں اور ایسے تعلیمی اداروں کے بارے میں کیا کہیں کہ جن کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے اداروں میں ’’مفکرین‘‘ تیار کرکے ان کو قوم کی خدمت کے لئے پیش کرنے والے ہیں۔


یہ صرف سنی سنائی یا کہیں پڑھی ہوئی باتیں ہی نہیں ہیں، بلکہ مجھے گزشتہ کئی برسوں سے خود کئی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں مختلف موضوعات پر لیکچر دینے کے مواقع ملتے رہے ہیں۔ اس نظام کو دیکھ کر یہ کہنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا کہ ہمارا تعلیمی نظام تیزی کے ساتھ زوال پذیری کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پرائیویٹ یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں کا بظاہر مشن کچھ بھی ہو، مگر اصل مقصد صرف پیسہ بنانا ہے، چاہے اس کے لئے اگلی نسلیں فکری طور پر بانجھ ہی کیوں نہ ہو جائیں۔’’ایچ ای سی‘‘ نے بھلے اچھے مقاصد کے لئے بہت سی یونیورسٹیوں اور کالجوں کی اجازت دی ہو، مگر زمینی حقائق یہی ہیں کہ ہر چھوٹے، بڑے شہر میں کھمبیوں کی طرح تیزی سے اگنے والے سکول، کالج اور جامعات پاکستانی سماج میں کسی بھی طرح کے سدھار کی بجائے، اس سماج کے مستقبل کو مزید نقصان پہنچا رہے ہیں۔ طالب علم اپنے مضامین میں فکری اور تخلیقی مہارت پیدا کرنے کی بجائے صرف ’’جی پی اے‘‘ بہتر کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں، کیونکہ ان کے اساتذہ نے ان کے ذہنوں میں یہ راسخ کر دیا ہے کہ اب روزگار کے حصول کے لئے کسی تخلیقی صلاحیت کی نہیں، بلکہ زیادہ سے زیادہ ’’جی پی اے‘‘ لانے کی ضرورت ہے۔


کراچی، لاہور سمیت پاکستان کے ہر بڑے شہر میں شائد ہی کوئی ایسا علاقہ ہو، جہاں پر ’’ایم بی اے‘‘ اور’’بی بی اے‘‘ کروانے والے کالج اور یونیورسٹیاں موجود نہ ہوں۔ ’’ایچ ای سی‘‘ نے چند روز قبل ہی انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں 155 یونیورسٹیاں غیر قانونی ہیں اور یہ کروڑوں روپے دے کر اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اپر مڈل کلاس اور مڈل کلاس گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کروائی جاچکی ہے کہ صرف ’’ایم بی اے‘‘ یا اکاونٹس کے کسی مضمون میں اعلیٰ ڈگریوں سے ہی ان کو روزگار مل سکتا ہے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بینکوں میں اچھی تنخواہ والی اعلیٰ درجے کی ملازمتیں مل سکتی ہیں۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ نوجوان مہنگے سے مہنگے کالجوں اور جامعات میں داخلے لے رہے ہیں۔ ان کالجوں اور جامعات کا چونکہ بنیادی مقصد ہی پیسہ کمانا ہے، اس لئے یہ بغیر کسی میرٹ کے ایسے طالب علموں کو بھی ہاتھوں ہاتھ ڈگریاں دے دیتے ہیں، جو طالب علم کسی بھی صورت میں اس کسوٹی پر پورا نہیں اترتے۔ ایسے طالب علم جب پیسوں کے عوض ڈگریاں لے کر ’’مارکیٹ‘‘ میں نوکری لینے آتے ہیں تو کوئی بھی ملٹی نیشنل کمپنی یا بڑا ادارہ ان کو نوکری نہیں دیتا، جس سے ان نوجوانوں میں فرسٹریشن پیدا ہوتی ہے اور اس فرسٹریشن کے سماج پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ بات کوئی بھی سوچنے کو تیار نہیں کہ بڑے بڑے شہروں میں جس تیزی سے پرائیوٹ کالج اور جامعات ’’ایم بی اے‘‘ یا ’’بی بی اے‘‘ تیار کر رہے ہیں تو کیا روزگار کی منڈی میں اتنی کھپت کی گنجائش بھی ہے کہ نہیں؟

پرائیویٹ سیکٹر میں ترقی کے باعث اب سماجی علوم اور ادب کے مضامین میں اعلیٰ ٰ ڈگریوں کی’’روزگار کی منڈی میں‘‘ کوئی خاص وقعت نہیں رہ گئی، کیونکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں، بینکوں اور بڑے بڑے اداروں کو اپنے منافعوں کے حصول کے لئے اکاؤنٹس کے شعبے کے ڈگری یافتہ افراد کی ضرورت ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ انتہائی مہنگی یونیورسٹیوں سے اکاؤنٹس میں اعلیٰ درجے کی ڈگریاں لے کر ملٹی نیشنل کمپنیوں میں لاکھوں روپے کی تنخواہوں پر کام کرنے والے لوگوں سے آپ اگر تھوڑی دیر بھی گفتگو کریں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ان میں سے اکثر افراد ہر طرح کے سماجی، سیاسی اور تاریخی شعور سے بالکل بے بہرہ ہیں،کیونکہ ان کے دماغوں میں یہ بات راسخ کر دی گئی ہے کہ اس طرح کے شعور کی اب ’’مارکیٹ‘‘ میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسی طرح اگر سماجی علوم جیسے تاریخ، عمرانیات، ابلاغیات، سیاسیات یا ادب کے مضامین میں ایم فل حتیٰ کہ پی ایچ ڈی کرنے والے سکالروں سے بات چیت کی جائے تو شائد پچاس میں سے ایک سکالر ہی ایسا ہوگا، جو اپنے مضمون میں کچھ تخلیق کرنے کا خواہاں ہوگا۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے اکثر سکالروں کا مقصد یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ’’جی پی اے‘‘ حاصل کرکے اپنے ریٹ میں اضافہ کروایا جائے۔ یہ بات درست ہے کہ ہمارے ہاں صرف تعلیم ہی نہیں، بلکہ شائد ہی کسی شعبے کی حالت قابل رشک ہو، مگر تعلیم اور صحت دو ایسے شعبے ہیں، جن میں منا فع کی اندھی ہوس ایک سنگین جرم تسلیم کیا جانا چاہیے۔ مغرب خاص طور پر یورپ کے کئی ممالک جہاں پر سرمایہ داری نظام یا منڈی کی معیشت ہے، ایسے ممالک میں بھی ریاست تعلیم اور صحت کے شعبوں میں خود اتنی زیادہ سرمایہ کاری اس لئے کرتی ہے کہ عام شہری بھی تعلیم اور صحت جیسے بنیادی حقوق سے فائدہ اٹھا سکیں، مگر ہمارے یہاں ایک طرف سرکاری تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں پر حکومتی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے تو دوسری طرف پرائیویٹ شعبوں کے اندھے منافع کی حرص عام اورغریب شہری کو یہ موقع ہی نہیں دیتی کہ وہ تعلیم اور صحت جیسے بنیادی حقوق سے فیض یاب ہو سکے۔

مزید :

کالم -