پاکستانی مڈل کلاس اور ہتھکڑیاں

پاکستانی مڈل کلاس اور ہتھکڑیاں
پاکستانی مڈل کلاس اور ہتھکڑیاں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میرا شمار قیامِ پاکستان کے عینی شاہد وں میں نہیں ہوتا، لیکن اتنا ضرور ہے کہ پاکستان بننے کے مناظر مَیں اپنے والد کی آنکھوں سے دیکھتا رہا ہوں جو آزادی کا سورج طلوع ہونے سے چند گھنٹے پہلے اپنی تئیسویں سالگرہ پہ سہارنپور ریلوے اسٹیشن پر انجن تبدیل ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ اولین سوال یہ کہ ایک آزاد ملک کے لیے برِصغیر کے مسلمانوں کی جدو جہد کیا کوئی مذہبی تحریک تھی ۔ اِس کا جواب ہمیشہ یہی ملا کہ اُس وقت یہ سیاسی اور معاشی حقوق کی تحریک تھی، جس میں مذہب یوں اہم ہے کہ یہی ہماری قومیتی پہچان کا سب سے نمایاں حوالہ تھا۔ ساتھ ہی والد وضاحت کیا کرتے کہ قائد اعظم تھیوکریسی نہیں چاہتے تھے، لیکن اپنے موقف کے حق میں پوائنٹ اسکورنگ کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ اسی لیے تو ایک پریس کانفرنس میں ایک پاکستان مخالف صحافی نے جب طعنہ دیا کہ نئے ملک میں کہیں ملاؤں کی حکومت قائم نہ ہو جائے تو قائد نے پلٹ کر پوچھا تھا ’’انڈیا میں پنڈتوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘
تاریخ کو ری وزٹ کرنے میں مشکل یہ ہے کہ بسا اوقات ایک ہی واقعے کی رنگا رنگ توضیحات سامنے آنے لگتی ہیں۔ ’’انگریز جان چکا تھا کہ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر آئندہ بڑا ٹکراؤ مغربی ممالک اور سوویت یونین کے درمیان ہوگا، لہذا ہندوستان کو سوویت اثر سے دُور رکھنے کے لیے بیچ میں ممکنہ حد تک زیادہ جغرافیائی فاصلہ ہونا چاہئیے‘‘۔ ’’ایک نئی مملکت قائم ہو جانے سے اہلِ مغرب کو مشرقِ وسطی میں اپنے مفادات پر نظر رکھنے میں مدد ملے گی‘‘ ۔

اِس حساب سے بعض غیر ملکی مصنفین کے نزدیک پاکستان کا وجود میں آنا ایک طے شدہ امر تھا۔ لیکن اِس کے برعکس، بی بی سی کے سید راشد اشرف جیسے میرے بزرگ دوست سمجھتے ہیں کہ ہمارے لیے یہ طرزِ فکر غلط فیصلوں سے پیدا ہونے والے احساسِ شکست کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ایک بات پہ البتہ سبھی متفق ہیں کہ پاکستان نے کسی نہ کسی شکل میں ایک مسلم مڈل کلاس کو جنم دیا، جو متحدہ ہندوستان میں ناممکن تھا۔
تیزی سے معدوم ہوتی ہوئی پرانی نسل کے لوگوں سے قبل از تقسیم مسلمانوں کی حالتِ زار کی جو تفصیل سنی اُس کی روشنی میں، کم از کم بڑے صوبے کی حد تک، نئی مڈل کلاس والی بات واضح تر ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔

پنجاب میں نہروں سے سیراب ہونے والے پیداواری علاقوں کو چھوڑ کر باقی زیرِ کاشت اراضی کی ملکیتی اکائیاں تھیں ہی چھوٹی چھوٹی۔ کاشتکاروں کی گزر بسر تنگی سے ہوا کرتی بلکہ اکثر و بیشتر بظاہر خوشحال زمیندار بھی مہاجن کے سود در سود قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہوتے۔

مسلمانوں کی شہری و قصباتی افرادی قوت بھی یا تو دیہاڑی دار محنت کشوں پر مشتمل تھی یا گِنے چُنے چھوٹے کاروباری لوگ جنہیں غیر مسلموں کا اقلیتی مگر مظم تجارتی طبقہ پاؤں پر کھڑا نہ ہونے دیتا۔ اسی طرح تعلیم و تدریس، قانون اور صحافتی شعبے کی اعلی اسامیوں پر بھی یہی لوگ چھائے ہوئے تھے۔
تقسیمِ برصغیر کے بعد سرکاری ملازمتوں اور تربیت یافتہ پیشوں کا خلا نئے ملک میں فوری دستیاب افرادی قوت نے پورا کیا۔ یہ انتظامی اور پیشہ ورانہ ضروریات ہنگامی نوعیت کی تھیں اور مہاجرین کی آباد کاری اور املاک کی بحالی ایک بہت بڑا چیلنج تھی، جب اِن کاموں سے فارغ ہوئے تو وہ نئے طبقات وجود میں آچکے تھے، جنہیں آپ پاکستانی مڈل کلاس کا نام دیں گے۔

عام تاثر کے مطابق، کسی بھی معاشرے میں درمیانہ طبقہ ہی نظام اقدار کا محافظ ہوتا ہے۔ وجہ اُس کی یہ کہ مقتدر اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی ایلیٹ کی سوچ تو اپنے مفادات کے دائرے سے باہر نکلتی نہیں۔

رہا محنت کش طبقہ تو تعلیم سے بے بہرہ اور شدید جسمانی و ذہنی دباؤ کا مسلسل شکار رہنے کے سبب سماج اُسے اچھائی یا برائی کا آزادانہ تعین کر سکنے کے قابل نہیں چھوڑتا۔

تو کیا ہماری نئی قدروں کا تعین واقعی ہماری نئی مڈل کلاس کر رہی ہے؟ یہ مڈل کلاس ہے کن پرتوں پر مشتمل؟
سماجی رویوں کی منطق کو سمجھنے کے لیے مَیں نے ایڈورٹائزنگ والے دوست سجاد انور سے مشورہ مانگا تو انہوں نے مارکیٹ سروے کے ماہرین کی پیشہ ورانہ دانش کی روشنی میں دو اہم نکات کی نشاندہی کی۔ ایک تو پورے معاشرے کی بالائی، متوسط اور ادنی طبقات میں تقسیم اور پھر اسی ترتیب سے اِن میں سے ہر طبقے کی تین تین پرتیں۔

مثلاً سب سے اوپر بالائی طبقہ ہے تو سہی، مگر غور کریں تو اِس میں اعلی، متوسط اور ادنی طبقاتی پرتیں دکھائی دینے لگیں گی۔ اسی طرح ہمارا درمیانہ طبقہ بھی کوئی ایک منجمد اکائی نہیں، بلکہ یہ بھی واضح طور پر اعلی متوسط، درمیانی متوسط اور ادنی متوسط طبقات میں بٹا ہوا ہے۔ پھر مجموعی طور پر تیسرے نمبر پہ آنے والا ادنی طبقہ پرت در پرت اسی صورت حال سے دوچار ہے۔

یہ نکتے میری سمجھ میں آ تو گئے، لیکن ذرا سا الجھاؤ باقی رہا کہ کیا الگ الگ طبقوں کی یہ نشاندہی صرف آمدنی کی بنیاد پہ ہے یا اِس کے لیے کچھ اور اشارے بھی متعین کیے جا سکتے ہیں۔ خاص طور پر متوسط طبقے کی اندرونی تہوں کے سلسلے میں۔
اضافی اشاروں سے میری مراد خوشحالی کے دیگر انڈیکیٹر تھے۔ جیسے یہی سوال کہ تنخواہ کے لحاظ سے ایک آدمی کا شمار اعلی متوسط طبقے میں ہے لیکن رہتا کرائے کے مکان میں ہے۔ اب ایک اور شخص شامل تو درمیانے متوسط طبقے میں ہے، مگر کار نئے ماڈل کی، بچے پرائیویٹ اسکول میں زیرِ تعلیم، ایک آدھ رہائشی یا کمرشل پلاٹ اِس کے علاوہ۔ آپ کہیں گے ’’یار ، کیا باتیں کرتے ہو؟‘‘۔

مَیں عرض کروں گا کہ خوشحالی اور تنگ دستی قسمت کے کھیل سہی، مگر متوسط طبقے کو ادنی سے اعلی اور اعلی سے درمیانی پرت میں ڈال دینا ریاستی پالیسی کا کھیل بھی تو ہے۔

ایک افسر اپنے بچوں کو اسی محکمے کے قائم کردہ کم قیمت مگر معیاری اسکول اور کالج میں بھیجتا ہے اور ریٹائر ہوتے ہی اُسے ایک خوشنما اور آرام دہ ملکیتی بنگلے میں اللہ کی مہربانی سے سر چھپانے کی جگہ مل جاتی ہے۔ باقی محکموں اور باقی پیشوں کے لوگ جن میں کم یا زیادہ تنخواہ پانے والے سبھی ہیں، سر چھپاتے نہیں، سر ٹکراتے رہتے ہیں۔
سوال پھر وہی ہے کہ پاکستان نے بلاشبہ ایک مسلم مڈل کلاس پیدا تو کی، لیکن اِس مڈل کلاس کی اندرونی پرتوں کی آنیاں جانیاں ایک الگ کہانی ہیں۔ شاید بعض قارئین کو حیرت ہوکہ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی ایسی آنیاں جانیاں طبقاتی طرزِ عمل کا انڈیکیٹر سمجھ لی جاتی ہیں۔

یہ نہیں کہ وہاں اعلی ترین عدالت کے کسی جج نے ریٹائر ہوکر اُسی منصب پہ ایڈہاک تقرری اِس لیے قبول کر لی کہ اِس حیثیت میں سرکاری کھاتے سے ایک اور رہائشی پلاٹ کی گنجائش نکل آئے گی؟ مَیں تو اُس ملک میں اپنا ہی ایک تجربہ شئیر کرنا چاہتا ہوں جس میں مجھے اپنی طبقاتی حیثیت کے تعین کے لیے ایک طویل سروے کا ہدف بن کر کئی دلچسپ سوالوں کے جواب دینا پڑے۔

یہی کہ اخبار کونسا پڑھتے ہو، ہوٹل میں کھانا کھا کر آیا نقد ادائیگی کرتے ہو، چیک دیتے ہو یا امریکن ایکسپریس کارڈ۔ شام کے مشاغل میں ترجیح ٹی وی دیکھنے کو ہے، سنیما جاتے ہو یا تھیٹر۔ مڈل کلاس کے اندر میرے رتبے کا تعین کرنے کے لیے یہ سب کلاس انڈیکیٹر تھے۔
اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں، جہاں سروے کرنے والی بی اماں کو چائے پیش کی گئی، سوال جواب کا سیشن پون گھنٹے تک چلا۔
چونکہ جوابات گہرائی میں جاکر پوری ایمانداری سے دیے گیے، اس لیے انٹرویو ختم ہونے کے قریب پہنچا تو کیفیت یہ تھی جیسے ذہن ہانپ رہا ہو۔ بہرحال اپنی کارکردگی پہ اُتنا ہی اطمینان محسوس ہوا جتنا امتحان میں فرسٹ آنے کے عادی طالب علم کو ہوا کر تا ہے۔

یہ امکان دور دور تک نہیں تھا کہ ٹیسٹ میں امیدوار کی سپلی بھی آسکتی ہے۔ ریسرچر نے شئاستگی سے کچھ ذاتی باتیں پوچھنے کی اجازت چاہی، جو دے دی۔ ذاتی بات تھی میری تنخواہ، کار کا ماڈل، بیڈ رومز کی تعداد اور کیا بچے پرائیویٹ اسکول میں پڑھتے ہیں۔

غالباً میرے یہ کوائف بی بی سی میں میرے منصب سے کم تر درجہ کے تھے۔ اِس لیے بڈھی میم نے جاتے جاتے زوردار دھماکہ کر دیا۔ کہا ’’اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو آپ کا عہدہ پروڈیوسر کی بجائے اسسٹنٹ پروڈیوسر لکھ دوں‘‘۔ مجھے ’ہاں‘ کہتے ہی بنی، ورنہ اُس بیچاری کی ریسرچ غلط ہوجاتی۔
یہ تو وہ اشارے ہوئے، جن کی مدد سے برطانیہ میں سوشل کلاس اور پھر اُس کے اندر میرے ذیلی طبقے کا تعین ہوا۔ میرے بارے میں یہی کام اگر کسی کو وطنِ عزیز میں کرنا پڑ جائے تو پھر اُس کا پیمانہ کیا میری تنخواہ ہوگی، تعلیمی اسناد ہوں گی یا شہر میں میرا رہائشی علاقہ۔

بحث کو طول نہ بھی دیا جائے تو متوسط طبقے کی بالائی پرت یا اپر مڈل کلاس اور اُس کے مقابلے میں ادنی متوسط طبقے یا لوئر مڈل کلاس کے درمیان جو نازک سا فرق ہے، اُس کی نشاندہی کون کرے گا۔ پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور نصف درجن اساتذہ کے ساتھ قومی احتساب بیوریو کے حسنِ سلوک نے اب یہ مسئلہ بھی حل کر دیا ہے۔

پرائمری ٹیچر سے لے کر وائس چانسلر تک تمام اساتذہ دنیا بھر میں متوسط طبقے کے افراد شمار ہوتے ہیں۔ نیب کی بدولت اِس طبقہ بندی میں یہ نکھار آگیا ہے کہ اگر کسی انتظامی بے ضابطگی کی بنا پہ بطور یونیورسٹی استاد مجھے دھر لیا جائے تو مَیں اپر مڈل کلاس ہوں اور اگر ہتھکڑی بھی پہنا دی جائے تو لوئر مڈل کلاس۔

مزید :

رائے -کالم -