تبدیلی مذہب کی وجوہات
کسی بھی اِ نسان کا اپنے مذہب سے تعلق دو ہی ذریعوں سے بنتا ہے۔ایک تعلق تو پیدائشی ہوتا ہے۔ دنیا کے مختلف مذاہب کو ماننے والوں کا 90% تعلق پیدائشی ہوتا ہے۔ دوسراتعلق دانستہ تبدیلیِ مذہب سے ہوتا ہے۔
یہ تعلق زیادہ اہم اور خصوصیت کا حامل ہوتا ہے۔ پیدائشی طور پر اگر میَں مسلمان ہوں تو اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ مسلمان کے گھر پیدا ہو گیا۔کان میں اَذان دے دی گئی۔ ختنے ہو گئے۔
اِسلامی نام گھر والوں نے رکھ دیا ذرا بڑا ہوا اور اگر والدین مذہبی رجحان رکھتے تھے تو اُنہوں نے مجھے قرآن اور نماز پڑھنے کی طرف راغب کر دیا۔روزے بھی رکھوا دئیے ۔ میری شادی کا موقعہ آیا تو اسلامی طریقے سے نکاح پڑھوا دیاگیا۔ اُس کے بعد میَں اپنی شادی کے نتیجے میں ’’مسلمان ‘‘ اولاد پیدا کرنے کا ذریعہ بن گیا۔ یہ رِیت صدیوں سے چلی آرہی ہے۔
مسلمان تعداد میں تو بہت بڑھ گئے ہیں لیکن بغیر معیار اور بغیر اعلیٰ وصف کے ۔ اپنے برِصغیر کو ہی دیکھ لیں 56 کروڑ مسلمان ہیں۔ سماجی معاشرتی اور تجارتی اخلاقیات سے اکثر عاری۔ غیر منظم انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی کج کردار، بے ترتیب اور طیش مزاج۔
مسلمانوں کے اِن ہی اوصاف نے ہم پر ’’اسلامی دہشت گرد‘‘ کا ایسا لیبل لگا دیا ہے کہ ہمارے دشمن اس لیبل کی بے تحاشہ مارکیٹنگ کر کے مسلمانوں کو عموماًاور پاکستانیوں کو بالخصوص وحشی قاتلوں کے روپ میں پیش کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
تبدیلیِ مذہب کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ انفرادی طور پر جو لوگ تبدیلیِ مذہب کرتے ہیں وہ عام طور پر اپنے پیدائشی مذہب سے کسی بھی وجہ سے غیر مطمین ہو سکتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ ایک فرد کے مذہب میں Rigid رسومات ہوں، بہت زیادہ پابندیاں ہوں ،جو غیر فطری بھی ہوں، کوئی فرد اعلیٰ علمیت کی وجہ سے اپنے مذہب کی توہمات اور غیر عقلی عقیدوں سے بیزار ہو کر بھی مذہب تبدیل کر سکتا ہے۔
انفرادی طور پر مذہب تبدیل کرنے والے خواتین اور مرد اپنے منتخب شدہ مذہب پر بڑے خلوص اور شدّت سے قائم رہتے ہیں کیونکہ وہ نئے مذہب کا تمام مذاہب سے عموماً موازنہ کرتے ہیں۔
اپنے منتخب شدہ مذہب کی اچھائیوں کو زیادہ گہرائی سے پرکھتے ہیں اور پھر اُن پر قائم رہتے ہیں۔ اس زمّرے میں آج کی دنیا میں اسلام وہ دین ہے جس کو اِنفرادی طور پر سوچ سمجھ کر Adopt کیا جا رہا ہے کیونکہ دینِ اسلام اپنی اصل حالت میں اِنسانی فطرت کے قریب ترین ہے ۔شمالی امریکہ میں اسلام اِنفرادی طور پر تیزی سے پھیلتا ہوا دین ہے کیونکہ اسلام گوروں کی سائنسی سوچ کو مطمین کرتا ہے۔
تبدیلیِ مذہب کی بڑی وجہ غربت اور ظلم میں پسے ہوئے عوام کی اپنی جان کے تحفظ کی خواہش بھی ہوتی ہے جو اُن غریبوں کی دانست میں فاتح بادشاہوں کے مذہب سے ہم آہنگی کے احساس سے پوری ہوتی ہے۔
ہندوستان میں جب مگدہ (صوبہ بِہار) کے ظالم ہندو بادشاہوں کو شکست دے کر اشوک نے بدھ مذہب اِختیار کیا تو ہندو مظلوم عوام فوراً بُدھ مت کے پیرو کار ہو گئے۔ غورطلب بات ہے کہ عوام جوق در جوق تبدیلیِ مذہب کسی عقیدے کی خاطر نہیں کرتے بلکہ نئے فاتح سے چھوٹی چھوٹی مراعات اور جان کا تحفظ حاصل کرنے کے لئے کرتے تھے۔
یورپ میں رومن ایمپائر کے زمانے میں عیسائیت ابھی خال خال پھیلی تھی اور وہ بھی Saint paul ،سینٹ انتھونی اور پطرس کی تبلیغی کوششوں سے۔ لیکن جب بارنطینی شہنشاہ کونسٹیٹائن نے چو تھی صدی عیسوی میں عیسائیت قبول کر لی تو سب سے پہلے ریاستی سطح پر یہ مذہب مشرقی یورپ اور پھر تمام یورپ نے اِختیار کی۔ یہ ہی ہندوستان میں ہوا۔
مسلمان حملہ آور اور فاتح ہندوستان میں اسلام پھیلانے نہیں آئے تھے۔ نچلی ذات کے ہندوجو شودر، ملیچھ، چنڈال کہلاتے ہیں وہ اولیائے کرام کے اِخلاق اور اِنسان نوازی سے متاثر ہو کرکلمہ گو تو ہو گئے لیکن اُن کی سماجی تربیت اسلامی اصولوں پر نہ ہو سکی۔
لہذا برِصغیر میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد ہونے کے باوجود، انہوں نے کوئی سائنسدان، کوئی موجدّ، کوئی اونچے پائے کا فلاسفر پیدا نہیں کیا۔ البتہ سب سے زیادہ فرقے یہاں ضرور پیدا ہوئے۔
ایک اور وجہ تبدیلیِ مذہب کی ہوتی ہے محبت کی شادی۔ اس تبدیلیِ مذہب میں روحانیت یا اپنے اصل مذہب سے کسی بیزاری کا ہاتھ نہیں ہوتا۔ بلکہ خالصتاً فرد کی کوئی غرضمندی ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ قائدِاعظم کی بیوی رِتی بائی نے شادی سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا۔
یہی چیز عمران خان کی جمائما سے شادی میں پیش آئی۔ طلاق کے بعد مجھے نہیں لگتا کہ جمائما اسلام پر قائم ہے ۔ ہماری تاریخ میں بڑی بڑی شادیاں اسی نوعیت کی ہیں۔ خان لیاقت علی خان کی دوسری شادی،فیض احمد فیض اور ڈاکٹر ایم ۔
ڈی تاثیر کی کامیاب شادیاں محبت کا نتیجہ ہی تھیں۔ چونکہ ایسی شادیاں سمجھوتے کی شادیاں ہوتی ہیں اس لئے اِن شادیوں سے مستفید ہونے والے اور اُن کی اولادیں مذہب کے بارے میں آزاد خیال ہوتی ہیں۔ بھارت میں تو اَب ہزاروں مثالیں ہیں جہاں مسلمان خواتین ہندو نوجوانوں سے شادی کر رہی ہیں۔
چوتھی وجہ تبدیلیِ مذہب ایک فرد اور صرف ایک فرد کی اپنے موجودہ مذہب سے بیزاری ہوتی ہے جو اُسے کچھ سوچنے اور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ایسی بیزاری کا اظہار 15ویں صدی میں کئی ہندو رِشیوں اور بھگتوں نے اپنے مذہب کی بیہودہ رسموں کے خلاف کیا۔ یہ لوگ دراصل دینِ اسلام کے اِنسانی اصولوں سے بہت متاثر تھے لیکن اُن میں علیٰ الا علان مسلمان ہونے کی جرأت بھی نہ تھی۔
15ویں صدی کے ہندوستان کا یہ دَور کبیر پنتھی دَورکہلاتا ہے۔ اس دَور میں بابا گرونانک جو ذات کے بنئے تھے اور ہندہ مت سے نالاں تھے، وہ البتہ ہندو مذہب کے خلاف ایک تحریک کے زبردست محور بنے۔ سکھ مذہب کی بنیاد بابا گرونانک نے رکھی۔اُنہوں نے اپنا مذہب Formally تبدیل نہیں کیا تھا بلکہ اُنہوں نے مسلمانوں کے بنیادی عقیدہِ وحدت کو اپنا کر رّب کو اپنا معبود بنا لیا تھا۔
آج دنیا میں 3 کروڑ سے زیادہ سکھ آباد ہیں۔ وہ تبدیلیِ مذہب کی وجہ سے سکھ نہیں ہوئے۔ وہ اپنے گورو اوّل کے توحیدی فلسفے کو اپنے پنتھ کا حصہ بنا کر ایک نئے مذہب کے پیرو کار بنے ،بالکل ایسے ہی جس طرح ہندوؤں کے لاکھوں بھگوانوں اور غیر انسانی چُھوت چَھات سے بیزا ہو کر بدھ مت معرضِ وجود میں آیا۔ جین مت بھی ہندو دھرم کی انسان دشمن روایات سے تنگ آکر وجود میں آیا تھا۔
تبدیلیِ مذہب کی پانچویں بڑی اور کامیاب وجہ تبلیغ ہے۔ دراصل تبدیلیِ مذہب کی سوائے عیسائیت اور اسلام کے کسی بڑے مذہب میں اجازت نہیں ہے۔ آپ ہندو مذہب کا کلاسیکی لٹریچر پڑھ لیں۔ ہر ہندو پیدائشی ہوتا ہے اور اُس کی ذات پات اُس کی پچھلی زندگی کے کرموں کے مطابق اوپر سے ہی طے ہو جاتی ہے۔ ہندو کا آواگون کا اصول یہ ہی بتاتا ہے۔
یہودیوں میں بھی تبدیلیِ مذہب کی اجازت نہیں ہے کیونکہ کلاسیکی یہودیت میں ہر یہودی اسرائیل کی اولاد ہے۔ عیسایوں نے تبلیغ کے شعبے کو سائنٹیفک بنایا۔ مسلمانوں نے اپنے سنہری دور کے 4 سو سالوں میں عیسایوں سے بھی زیادہ کامیاب اور عالمانہ تبلیغ کی۔ مدرسے بنائے۔ یونیورسٹیاں بنائیں۔ بحث مُباحثہ کے لئے دارالحکمت بنائے۔ سائنسی تجربہ گاھیں تعمیر کیں۔
فکری سوچ پر آج کی طرح پہرے نہیں لگائے۔ سوال کرنے والے پر کُفرکا فتویٰ نہیں لگتا تھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے اس دور میں اسلام دنیا کے تینوں بڑے براعظموں میں پھیل چکا تھا۔ مختلف الراء مسلمان عالم، بغیر جانی خطرے کے اپنے علم اور اپنی سوچ کا پرچار بھی کر تے تھے۔
آزاد خیال اِبنِ رُشد، اِبنِ عربی، ابوزرغفاری، فارابی ، الرازی، البیرونی ،اِبنِ خلدون، جابر بن حیان، اِبنِ سینا، الخوارزمی، الکندی اور الظواہری نہ صرف زندہ رہے بلکہ اُن کی سائنسی اور علمی تحریروں کوآج بھی دنیا کی اعلیٰ درسگاہوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ یہ عالم ،دین کے بھی پابند تھے لیکن وہ دین کے بارے میں اپنے نظریات عوام الناس پر تھوپتے نہیں تھے۔
ہندوستان میں مذہبی تبلیغ نہائت منظم طریقے سے رومن کیتھولک مسیحوں نے 16 ویں صدی میں ہی شروع کر دی تھی۔ حالانکہ ابھی برطانوی سامراج برِصغیر میں نہیں آیا تھا۔ 16ویں صدی کے عیسائی مبلغ پُرتگیز اور آئرش تھے۔
اُنہوں نے ہندوستان کے مشرقی ساحلوں پر بسنے والے مچھیروں کو رومن کیتھولک بنایا، اُن کے لئے درسگاھیں بنائیں، اُنہیں مغربی لباس اور تہذیب سے روشناس کرایا۔
ہسپتال بنائے۔ انگریزی راج کے آنے کے بعد پروٹسٹنٹ فرقے کے مسیحی کثیر تعداد میں ہندوؤں کی چھوٹی جاتیوں سے آنے لگے۔ مسیحی مشنریوں نے نئے عیسائیوں کے لئے Convent سکول بنائے، اُن کی معاشی حالت بہتر کرنے کے لئے حکومتی اِداروں میں ملازمتیں مخصوص کیں۔ خاص طور پر ریلوے، پولیس اور نرسنگ کے شعبوں میں ہندوستانی عیسائیوں کے کوٹے مختص ہو گئے۔
اس سہولت سے غریب اور معاشرتی طور پر پسے ہوئے مسلمان بھی عیسائی ہونا شروع ہو گئے۔ مسلمان بادشاہوں نے نو مسلم ہندوؤں کی چھوٹی جاتیوں کو کسی قسم کی مراعات نہ دی تھیں۔
اِسی لئے صدیوں سے مسلمان ہونے والے عوام الناس غربت، جہالت ،بے ایمانی، بے ترتیبی،توہم پرستی، پیر پرستی، خوشامد اور ضمیر فروشی کا شکار رہے۔ یہ خصلتیںآج کے مسلمانوں میں اُسی شدّت سے قائم ہیں اور ہم دنیا میں ایک نکمّی قوم کی شہرت رکھتے ہیں۔
عیسائت Conversion کے سدّباب کے لئے مسلمانوں میں باقاعدہ تبلیغی تحریک کی بنیاد 1920 میں مولانا محمد الیاس کاندھلوی نے رکھی۔ اُن کی دیکھا دیکھی ہندوؤں نے پنجاب میں 1928 میں شُدھی کی تحریک چلائی تاکہ نچلی ذاتوں کے عیسائی اور مسلمان ہونے والوں کو ہندواِزم میں واپس لایا جائے۔
اس تحریک کا اصل رُوحِ رواں سوامی دیانند تھا جس نے آریہ سماج کی بنیاد 18ویں صدی میں ہی ڈال دی تھی۔ کلکتہ میں 19ویں صدی میں تیزی سے بڑھتی ہوئی عیسائت کے خلاف برھمو سماج کی تحریک لائی گئی جس کا بانی رابندر ناتھ ٹیگور کا والِد تھا۔ ہندوؤں کی ہر دو تحریکیں عیسائت اور مسلمانیت کے ردِعمل میں بنی تھیں۔
اس کا بڑا ثبوت یہ تھا کہ اِن دونوں تحریکوں کا مقصد وحدت اور ذات پات سے مبرّا ہندو معاشرہ بنانا تھا کیونکہ عیسائی مشنریوں کے اور مسلمان مبلغوں کے یہ دونکات ہی نچلی ذاتوں کے ہندوؤں کو اپیل کرتے تھے۔