وقت ایک سا نہیں رہتا
پاکستان میں احتساب اور انتقام ایسے گڈ مڈ ہوئے ہیں کہ سرا پکڑنا تو دور نظر بھی نہیں آرہا ۔بس یہی دعا ہے کہ حالات سدھر جائیں کیونکہ نفرت اورانتقام میں اندھے لوگ شریف خاندان کی دشمنی میں پاکستان سے بدلہ لے رہے ہیں اور نقصان ریاست کا ہورہا ہے ملک ناک کی سیدھ میں نیچے جارہا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب یہ معیشت قابل اصلاح نہ رہے تو بھائی معیشت دانوں کو لائیں کیونکہ پاکستان تجربہ گاہ نہیں ایٹمی طاقت ہے ۔
کوئی نیا پراجیکٹ نہیں لگا ان کے پرانے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پائے، میٹرو پنجاب اور فیڈرل حکومت کے سینے پہ سانپ کی طرح رینگ رہی ہے اور انکے پاس شہباز فیکٹر اور سپیڈ نہیں ہے۔ ڈار مانترا ناپید اور نواز شریف کی طرح ووٹ بنک صفر اور سیکنڈ لائن آف لیڈرشپ نہ ہونے کے برابر ہے-
جبکہ دونوں بھائیوں نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنےجان نشین تیار کئے ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ تب ہی پریشانی میں چاروں کو اندر کرکے بھی عمران خان کی حکومت کامیاب نہیں کرپائی۔اب کب حکومت ہینڈ اوور کرنی ہے فیصلہ انہوں نے کرنا ہے -اپوزیشن کا کیس تو نااہل نا تجربہ کار اور نتیجتا صفر رزلٹ والی حکومت پہلے ہی انکے حق میں کرچکی ہے۔ تاریخ ان سب کو پاکستان کے ساتھ معاشی دہشت گردی پر معاف نہیں کرے گی جس کی وجہ سے ملک سالوں پیچھے چلا گیا ۔
یہ سوچ ہی غلط ہے کہ “ رشوت کے بغیر کام نہیں چلتا” کرپشن پر کریک ڈاؤن سوچ کی تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں۔ اپنے قول و فعل میں تضاد ختم کریں ایمانداری اور محنت کو شعار بنائیں اجتماعی ایماندارانہ سوچ کی ترویج کریں اور غلط کو غلط کہیں اور ریاستی قانون مک مکا کی بجائے ان کو کیفر کردار تک پہنچائے تو کیسے کرپشن ختم نہیں ہوتی۔
سوچ تبدیل کریں چہرے نہیں زرا سوچئے وقت ایک سا نہیں رہتا ۔تاریخ یہی بتاتی ہے نواز شریف کیساتھ حسد بغض اور حد سے زیادہ انتقامی رویہ رکھنے والوں کا انجام اچھا نہیں ہوا اپنے بڑوں کی عزت نہ کرنے والوں کو دنیا میں کوئی منہ نہیں لگاتا ۔افسران لیڈر نہیں ہوتے یہ مسلمہ حقیقت ہے۔اصلاحات لاکر ادارے بنائیں جمہوریت کی قدر کریں۔نیب کیاکوئی بھی پوچھنے والا نہیں تب ہی تو ریٹائرمنٹ پر بھی ڈھول بجتے ہیں۔
اگر“عمر لاز”صحیح معنوں میں مدینہ کی ریاست میں نافذ ہوجاتے تو چائینہ ماڈل احتساب کی بھی ضرورت نہ رہتی ۔کسی بھی ریاست میں امیر غریب کا فرق قانون کی عملداری اور انصاف کا معیارطے کرتا ہے وہ اقوام عالم میں کہاں کھڑے ہیں ۔میں ماہر قانون بابر ستار سے متفق ہوں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ قانون کے غلط استعمال کا ہے نا کہ اختیارات کی کمی کا۔۔۔فیئر ٹرائل سے پہلے ہی لوگوں پر کرپشن کا الزام لگا کر انہیں جیل میں ڈال دینا ہمارے آئین کے بھی خلاف ہے، لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا ؟ یہی ملین ڈالر کا سوال ہے۔
اکتوبر میں مشرف نے پاکستان میں مارشل لاء لگایا تھا-حالات کم و بیش ویسے ہی ہیں پہلے سات نکاتی کرپشن پروگرام اب احتسابی پروگرام پیش خدمت ہے۔اُس دن نواز شریف قید تھا آج بھی نواز شریف ملک کی ترقی سمیت جیل میں ہے۔ فرق سوچ کا ہے سوچ اگر عوامی مطالبے پر تبدیل نہ ہو تو المیے جنم لیتے ہیں۔ جس طرح مسلم لیگی کارکنوں نے اپنے قائدکا نیب عدالت پیشی پر استقبال کیاہے انہوں نے آئینہ دکھایا کہ غریب پرور لیڈر دلوں میں گھر کرلیتا ہےاسےگرانے والے خود گر جاتے ہیں،موسمی بٹیرے صرف اچھے موسموں میں نکلتے ہیں اورچتاؤنی بھی کہ جو کرنا کرلو“عوام نواز شریف کے ساتھ ہیں”آواز خلق نقارہ خدا۔
خواب ٹوٹنے نہیں چاہیے مگر خواب دیکھنے چھوڑ دینے سے بڑی کوئی کسمپرسی نہیں یہ فکر انفرادی اجتماعی قومی ریاستی سب سطحوں پر یکساں قابل عمل ہے۔ ریاست حکومت پارلیمان&اداروں کو ملک کے بہترین مفاد میں کچھ سوچنا چاہیے کچھ کرنا چاہیے۔ ملک ہے تو سب ہے ملک نہیں تو سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائیگا۔ مدینہ کی ریاست بنانے کیلئےمدینہ والے کی تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا!باتوں سے زیادہ کام پر توجہ دینا پڑے گی- پیغمبر اسلام ص اور انکے ساتھیوں نے اپنے حسن سلوک ،کردار اور سخت محنت سے اُس معاشرے کو اسلامی معاشرے میں تبدیل کیا اور والی ریاست مدینہ نے تمام لوگوں کو تحفظ عزت نفس فراہم کیا
آخر میں صرف اتنا ہی کہ : فَاِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا ۙ﴿۵﴾
پس یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ، اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان پر بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔