عوام بنام ریاست پاکستان 

  عوام بنام ریاست پاکستان 
  عوام بنام ریاست پاکستان 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 راقم نے کورونا کے بعد سیلاب میں گھرے عوام کا مقدمہ وطن عزیز کی عدالت میں کچھ یوں پیش کیا ہے: 
اے ہمارے پیارے پاکستان!  ہم عوام بہت مرتبہ بے گھر ہوئے۔۔1947ء میں ہم نے اپنے گھر،کاروبار، نوکریاں،کھیتی باڑی،مال مویشی، دوست اور رشتے دار بھی چھوڑ کر آپ کو اپنا گھر بنا یا۔۔ اورپھر بعض دفعہ توبہت مواقع پر ہر بار اپنا نیا پاکستان بنتا رہا۔۔اور۔۔ ہر بار ہم بے گھرہوئے اور غربت کی چکی میں پستے رہے۔۔ لیکن ایک مرتبہ بھی اشرافیہ کہ جن کا پاکستان بنانے میں کوئی عمل دخل بھی نہیں تھا، کا نقصان نہیں ہوا۔۔ان کا گھر ہر باربڑے سے بڑا ہوتا گیا۔۔اور۔۔ کاروباربڑھتا گیا۔۔ لیکن ہم وہیں کھڑے۔۔1947ء والے حالات میں زندگی بسر کرتے رہے۔۔ آج سیلاب سے جو ہماری حالت ہے،کوئی دیکھنے بھی نہیں آیا۔۔حکمران بھی ہیلی کاپٹر سے ہماری حالت زار دیکھ کر واپس شہر اقتدار چلے گئے ہمیں کسی نے کوئی تسلی تک نہیں دی۔۔سیلاب کی وجہ سے ہمارے گھر تباہ ہوئے۔۔ ہمارے روزگار برباد ہوگئے۔۔آج ہم سڑکوں پر۔۔یاپھر پانی میں گھری اونچی جگہوں پر چارپائی کھڑی کر کے روزانہ جیتے اور مرتے،بیماریوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ 


میرے پیارے پاکستان!  ہم تم سے کچھ نہیں مانگتے۔۔صرف ایک اپیل ہے۔۔کہ 1947 ء سے لے کر آج تک۔۔ہم عوام نے آپ کے لیے کیا کچھ نہیں کیا؟۔۔تیرے کھیت آباد کئے۔۔ تیری فیکٹریاں چلائیں۔۔سڑکیں بنائیں۔۔ تیری ترقی کے لئے ہماری زمینیں چھین لی گئیں۔۔مگر۔۔ مٹھی بھر اشرافیہ۔۔ایک مفاد پرست ٹولہ جو پہلے بھی چھوٹے طبقے کو لوٹتا رہا اور آج بھی وہ بے حس اور ہم سے لاپرواہ۔۔ اپنی دولت بچانے کے لیے ہمیں قربانی کا بکرا بنارہاہے۔۔میرے پیارے وطن۔۔میں تم سے ایک سوال کرتا ہوں۔۔ کہ تم آج جس طرح ہو۔۔دنیا میں پہچان رکھتے اورجتنے بھی ترقی یافتہ ہوچکے ہو۔۔کیا 1947ء میں بھی اسی طرح تھے؟۔۔ ہرگز نہیں!۔۔ تمہارے دامن میں ترقی کے حوالے سے کوئی چیز نہ تھی۔۔مفلوک الحالی اور غربت تھی۔۔نہ یہ سڑکیں،نہ موٹروے،نہ اتنے زیادہ میزائل، ٹینک۔اور نہ ہی ایٹم بم۔۔اور نہ ہی خوب صورت ایئرپورٹس۔۔اورنج لائن ٹرین اور میٹرو بسیں تھیں۔۔ نہ بحری جہاز، نہ اچھے بینک تھے، نہ اچھے اخبار،نہ ہی پل پل کی خبر دینے والے یہ ٹی وی چینلز تھے، نہ تم میں ایٹمی قوت بننے کی صلاحیت نہ بین الاقوامی میزائل ٹیکنالوجی۔۔ یہ سب کچھ میں نے تمہیں دیا۔۔یہ سب ہم عوام کے خون پسینے سے بنے ہیں۔۔


 افسوس تو یہ ہے کہ پہلے ہمیں غیر مسلموں نے مارا۔اب ہمیں اپنے پاکستانی وڈیرے،جاگیر دار،صنعتکار، اور اب تو این جی او مافیا بھی سیاست میں آکر ہمارا شکارکر ر ہے ہیں۔۔حکمران بیرونی قرض لیتے اور ہماری نسلیں ادا کرتی ہیں۔۔ آئی ایم ایف سے ڈیل ہوتی ہے۔۔ ہمیں پوچھاتک نہیں جاتا۔۔ہماری بنیادی ضروریات۔۔ بجلی،گیس، پانی، ٹیلی فون کے بل اور سیلز ٹیکس تک عالمی مالیاتی ادارے طے کرتے ہیں۔۔ آئی ایم ایف کی فرمانبرداری ہر آنے والی حکومت، ہر سال کرتی ہے۔۔ہمارے نام پر لئے گئے قرضوں پر عیاشیاں حکمران کرتے ہیں اور اس کی قیمت ہم عوام ادا کرتے ہیں۔۔ ا ے وطن عزیز!  اس وقت مملکت پاکستان جو کچھ تمہارے پاس ہے۔ وہ عوام کے خون پسینے کا کمایا ہوا ہے۔۔ہم عوام پر مسلط حکمران پارلیمنٹ کے ارکان اور وزیروں کی تنخواہیں متفقہ طور پر بڑھاتے ہیں مگر ہم عوام کا خیال نہیں کرتے۔۔
 اے ریاست پاکستان! ہم تم سے کچھ نہیں مانگتے۔۔۔ لیکن جو کچھ ہم نے تمہیں 1947ء سے اب تک دیا ہے، یہ ہمارا پیسہ تمہارے پاس قرض ہے اس میں سے کچھ ہمیں واپس کر دو، ہماری زندگی سنور جائے گی۔۔
اگر آج چند لوگہ ہماری 74سال کی محنت کو اپنے کھاتے میں ڈال کر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کو جدید اسپتال دیے، سینکڑوں یونیورسٹیاں، درجنوں ایئرپورٹس، موٹرویز بحری جہاز دیئے ہیں تو وہ جھوٹ بولتے ہیں۔۔ یہ سب کسی نے نہیں، ہم عوام نے دئیے ہیں۔۔ اور تمہیں نہیں پتہ کہ تمہیں ترقی دیتے دیتے ہماری کمر پر اتنا بوجھ پڑا کہ ہماری کمر اب سیدھی نہیں ہوپاتی۔۔ ہم صرف یہ کہیں گے کہ آج ہم پر مشکل وقت ہے اور عوام کو مدد کی ضرورت ہے۔۔ میں تم سے مدد کے نام پر بھیک نہیں چاہتا۔۔ میں تو چاہتا ہوں کہ وہ قرض جو ہم نے تمہیں 74 سالوں میں دیا تھا، وہ ہم عوام کی ملکیت ہے، اس میں سے کچھ تو ہمیں واپس کر دو۔۔ تاکہ ہم اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں، انہیں تعلیم دلا سکیں اور ایک باعزت شہری کی طرح زندہ رہ سکیں۔۔ ہم گداگر ہیں، اور نہ ہی فقیر۔کہ کورونا کے بعد اب سیلاب کی آفت پر بھی لائنوں میں لگ کر بھیک مانگیں۔


کیا تمہیں یاد نہیں؟تم تو گواہ ہو۔۔ ان حکمرانوں کے پاس کچھ نہیں تھا۔۔ مگر وہ آج بڑے مالدار، جاگیر دار، سرمایہ دار، صنعتکار اور اربوں کھربوں کے مالک بن گئے ہیں۔۔ لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے گھروں میں رات کو کھانے کے لئے کچھ نہیں ہوتا، ہمارے بچے بھوکے سوتے ہیں۔۔ ہمارے بچوں کے تن پر کپڑے نہیں ہیں۔۔ بس ہم چاہتے ہیں کہ جو آج کا حکمران ہمیں بھیک دے رہا ہے۔۔ نہ دے ہمیں ذلیل نہ کرے۔۔ بس ہمیں ہمارا قرض واپس کردے،ہم خوشحال ہو جائیں گے۔۔ ہمارے گھر کا چولہا جل جائے گا،ہمیں روٹی میسر ہو جائے گی لیکن اگر لائن لگا کر بھکاریوں اور فقیروں کی طرح ہاتھ پھیلانا ہے تو یہ ممکن نہیں ہے۔۔
۔۔ اس لئے ہم ایک اور فریاد بھی کرنا چاہتے ہیں۔۔ کہ جب سے اس ملک کے اندر یوٹیلٹی سروسز کے لیے ادارے بنائے گئے۔۔ جن میں واپڈا، سوئی گیس، ٹیلیفون، واٹر سپلائی اور دیگر شامل ہیں جو ہمارے گھروں میں شہری سہولیات فراہم کرتے ہیں۔۔ توہم نے جب سے یہ خدمات لینا شروع کیں تو ان کی مطلوبہ سیکیورٹی ہم ادا کر چکے۔۔ یہ سکیورٹی ان اداروں کے پاس جمع ہے۔۔ا ور۔۔ہم ہر ماہ اس کا بل بھی ادا کرتے ہیں۔۔ یوٹیلٹی کمپنیوں کے پاس جمع کروائی گئی۔۔یہ سیکورٹی توہمارا پیسہ ہے، جو سال ہا سال سے بینکوں میں پڑا ہے۔۔اور۔۔ سود در سود بڑھ رہا ہے۔۔ ہم حکومت کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔۔ بس ہماری یہ رقم ہی واپس کردو تاکہ ہم گزارا کر سکیں۔


۔۔ اور ہاں!۔۔ ابھی یاد آیا۔۔ تمہارے بینکوں میں ہزاروں لاوارث اکاونٹس میں بھی کھربوں موجود ہیں۔۔ وہ بھی ہمیں واپس کردو۔۔ یہ بھی ہماری ملکیت ہیں۔۔اور۔۔ ہاں۔۔ ہم یہ بھی وعدہ کرتے ہیں کہ ہم نسل در نسل غلاموں کی طرح حکمرانوں کے خوبصورت محلات۔۔ اور۔۔تمہاری یہ خوبصورت سڑکیں، موٹروے مزدوری کرکے بناتے رہیں گے۔۔ہم نے کونسا امریکہ یا برطانیہ بھاگ جانا ہے۔۔ لیکن ڈرو اس وقت سے، جب ہم اپنا حق مانگنے کے لیے سختی کرنے پر تیار ہوجائیں۔۔ اورہمارے ہاتھ حکمرانوں اور افسروں کے گریبان تک پہنچ جائیں۔۔اور یہ بھی واضح رہے کہ ہماری یہ آواز کاشتکار، چھوٹے کسان، مزدور دیہاڑی دار، مزارع اور ہاری کی آواز ہے۔۔ اسے دھیان سے سنو۔۔ کیونکہ حکمرانوں کی ہٹ دھرمی، عدم توجہی اور خاموشی پر کل ہماری گرجدار آواز ہوگی اور پھر یہ اشرافیہ فزدہ ہوجائے گا۔۔ ہماری آواز سارے شہریوں کی آواز ہے۔
تمہاری خدمت گار عوام

مزید :

رائے -کالم -