دہشتگردوں کیلئے معافی کی آئین میں گنجائش نہیں، بلوچستان ہائیکورٹ

    دہشتگردوں کیلئے معافی کی آئین میں گنجائش نہیں، بلوچستان ہائیکورٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کوئٹہ(مانیٹر نگ ڈیسک)بلوچستان ہائی کورٹ نے ایک اہم اور تاریخی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997ء (ATA) کے تحت سزا یافتہ قیدی کسی بھی قسم کی خصوصی یا عام معافی کے قانونی حق دار نہیں، دفعہ 21-ایف کے تحت دہشتگردی کے مجرموں کے لیے معافی یا سزا میں کمی کی کوئی گنجائش موجود نہیں اور اس شق میں کسی قسم کی تشریح یا نرمی نہیں جاسکتی۔ نجی ٹی وی کے مطابق جسٹس محمد کامران خان ملاخیل اور جسٹس نجم الدین مینگل پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 2023ء اور 2024ء  میں دائر متفرق آئینی درخواستوں پر مشترکہ فیصلہ سناتے ہوئے تمام پٹیشنز خارج کر دیں۔فیصلے کے مطابق درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا تھا کہ انہیں آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 45 کے تحت صدرِ مملکت کی معافی اور پاکستان جیل قوانین 1978 کے تحت عام یا خصوصی رعایت کا حق حاصل ہے تاہم عدالت نے قرار دیا کہ 2001 میں دفعہ 21-ایف کے اضافے کا مقصد ہی یہ تھا کہ دہشت گردی کے مجرموں کو ہمیشہ کے لیے معافی کے دائرے سے خارج کیا جائے۔عدالت نے قرار دیا کہ یہ قانون سازی عوامی سلامتی کے تحفظ اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تناظر میں شعوری اور دانستہ طور پر کی گئی تھی۔ عدالت کے مطابق انسدادِ دہشت گردی ایکٹ ایک خصوصی قانون ہے جو عام قوانین، بشمول جیل ایکٹ 1894، پر فوقیت رکھتا ہے۔عدالت نے اس موقف کو بھی مسترد کر دیا کہ دہشت گردی کے مجرموں کو معافی سے محروم رکھنا آئین کے آرٹیکل 25 (قانون کے سامنے مساوات) کی خلاف ورزی ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ دہشت گردی کے تمام مجرم ایک علیحدہ قانونی طبقہ تشکیل دیتے ہیں، اس لیے ان پر یکساں قانون کا اطلاق امتیازی نہیں بلکہ معقول درجہ بندی ہے۔

بلوچستان ہائیکورٹ

مزید :

صفحہ آخر -