’’بدایونی پیڑے‘‘
سوات آپریشن کے بعد آئی ڈی پیز کیمپس کی میڈیا کوریج کے لیے مجھے مردان جانا پڑا ۔ سفر کے دوران شام ہو گئی تو ہمارے ڈرائیور نے ایک چائے کے کھوکھے پر گاڑی روک لی وہ مردان کا بینک روڈ تھا جہاں سے ہمارے ایک کولیگ نے بدایونی پیڑوں کا ایک ڈبہ خرید لیا پیڑے بہت خوش ذائقہ اورمزے دار تھے ۔ میں میٹھا کھانے کی بہت شوقین ہوں اس لیے میٹھے پیڑے مجھے بہت اچھے لگے اور مجھ میں تجسس پیدا ہوا کہ دیکھا جائے کہ ان پیڑوں کو کیسے بنایا جاتا ہے ۔لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی اور دکانوں کا سروے کرنا بہت مشکل لگ رہا تھا سو اس پروگرام کو ہم نے کسی اور وقت کے لیے موخر کر دیا اور گھر کی راہ لی ۔
تقریبا پانچ سال بعد ایک دن میرا مردان جانا ہوا تو میں بینک روڈ بھی گئی جو بدایونی پیڑوں کا مرکز کہلایا جاتا ہے ۔ مردان کا یہ منفرد میٹھا بھارت کے صوبہ اتر پردیش کے علاقے بدایون سے مردان میں آیا ۔ اسی نسبت سے یہ بدایونی پیڑے کہلائے ۔ بدایون میں اب بھی یہ مٹھائی تیار کی جاتی ہے ۔بدایون سے جو لوگ ہجرت کر کے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں آباد ہوئے انھوں نے اس کی ترکیب سیکھی اور مردان میں یہ مٹھائی بنانا شروع کر دی ۔یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ مردان میں بنانے جانے والے پیڑے بالکل بدایون میں بنائے جانے واے پیڑوں کی ہو بہو نقل ہیں لیکن پھر بھی ان کا ذائقہ اور مٹھاس بے مثال ہے ۔
بدایونی پیڑے بنانے کے لیے سب سے پہلے کھویا اور چینی گھی میں خوب بڑے بڑے کڑاہوں میں پکائی جاتی ہےاس طرح کہ سفید کھویا چینی کے ساتھ یک جان ہو کر ہلکی برائون شکل اختیار کر لے اس کی تیاری میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں ۔ بعد ازاں اس مواد کو مشینیوں میں ڈال کر گول گول پیڑوں کی صورت دے دی جاتی ہے۔ یہ پیڑے مشین سے ایک بڑے تھال میں گرتے رہتے ہیں ، تھال میں باریک چینی موجود ہوتی ہے اس طرح ان پیڑوں پر چینی کا ہلکا کوٹ کیا جاتا ہے پیڑے اندر سے نرم اور باہر سے کرنچی یا خستہ بنائے جاتے ہیں ۔کئی دکانوں پر سفید کھوئے کے پیڑے بھی ہوتے ہیں لیکن اکثر برائون پیڑے ہی زیادہ فروخت ہوتے اور پسند کئے جاتے ہیں ۔
مردان میں کوئی شادی یا کوئی بھی شادی کی تقریب ہو یہ پیڑے دعوتوں کی شان بڑھاتے ہیں۔ دکان میں موجود ایک دکاندار نےمجھے بتایا کہ یہ پیڑے چونکہ کئی ہفتوں تک تازہ اور صحیح حالت میں رہتے ہیں لہذا ان کو اندرون اور بیرون ملک بھی سوغات کے طور پربھیجا جاتا ہے جہاں لوگ انھیں بہت شوق سے کھاتے ہیں ۔ یہ پیڑے گھی میں بنتے ہیں اگرچہ یہ زیادہ بھاری نہیں ہوتے لیکن پھر بھی انھیں کم تعداد میں کھانا چاہیے کیونکہ یہ میٹھے بہت ہوتے ہیں ۔یہ ایک ایسی میٹھی میراث ہے جو مقامی لوگوں اور باہر سے آنے والے افراد دونوں کو ہی متاثر کرتی ہے ۔
اتر پردیش کے ہندوستانی شہر بدایون سے متعارف ہونے والے ایک لذیذ میٹھے پکوان کو پاکستان میں گویا دوسرا گھر مل گیا ہے۔ اور یہ ان مہاجرین کی بدولت ہوا جو 1947 کی تقسیمِ ہند کے بعد یہ قیمتی نسخہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ یہ دونوں جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان مشترکہ تاریخ اور پائیدار تعلقات کی علامت ہے۔
بدایونی پیڑے نے نہ صرف مقامی صارفین بلکہ دنیا کے دیگر حصوں میں رہنے والے لوگوں کا دل بھی موہ لیا ہے لہذا آپ بھی اگر کبھی مردان جائیں یا گھر بیٹھے ان میٹھے بدایونی پیڑوں سے لطف اندوز ہونا چاہیں تو بینک روڈ پر موجود دکانوں پر جائیں یا آن لائن ارڈر کریں اور لذیذ پیڑوں کا بھرپور لطف اٹھائیں ۔۔
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔
