جی آیاں نوں
آصف علی زرداری 11 سال لانڈھی جیل کراچی اور راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں رہے تھے،یہ جیل کسی مقدمے میں سزا پانے کی وجہ سے نہیں کاٹی گئی، بلکہ مقدمات میں ضمانت نہ ہونے کی بدولت محض مقدمات بھگتانے کے دوران میں کاٹی گئی۔ مقدمات نواز شریف دور میں بھی زیر سماعت رہے اور پرویز مشرف کے دور میں بھی، لیکن ان مقدمات کا انجام صرف یہ ہوا کہ کوئی بھی الزام ثابت نہ ہو سکا اور آصف علی زرداری کو باعزت رہا کر دیا گیا، تاہم اُن کی اسیری کے ساڑھے گیارہ سال کا عرصہ تو واپس نہیں آ سکتا، جو انہوں نے قید تنہائی میں گزارا۔ قواعد کے مطابق اُن کے اہل خانہ اور وکلاءکو اُن سے ملنے کی اجازت تھی، یار دوست البتہ پیشی کے دنوں میں متعلقہ عدالتوں میں پہنچ کر ملتے رہے۔ ان یار دوستوں میں اہل قلم بھی ہیں، سیاست دان بھی، سیٹھ ، بلکہ ابن سیٹھ اور صنعتکار بھی۔ آصف علی زرداری ہر پیشی پر وکٹری (V) کا نشان بناتے جو اکثر اخبارات کے صفحات کی زینت بنایا جاتا۔
اس سے قبل کی زندگی پر غور کریں، تو آصف علی زرداری عوام کی توجہ کا مرکز اس وقت بنے جب 1987ءاُن کی شادی ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو سے انجام پائی۔ وہ نواب شاہ کے ایم این اے اور کراچی بمبینو سینما کے مالک حاکم علی زرداری کے بیٹے تھے، وہ باپ کے کاروبار میں اُن کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ بے نظیر بھٹو سے اُن کی ملاقات لندن میں زیر تعلیم رہنے کے زمانے میں ہوئی تھی اور اِسی نسبت سے جب دونوں خاندانوں نے شادی کی بات چلائی، تو وہ کامیاب ہو گئی : یوں یہ دونوں میاں بیوی کے رشتہ میں بندھ گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی کاٹ کر 10اپریل 1986ءکو وطن واپس آ چکی تھیں ، اس وقت ملک میں صدر ضیاءالحق کا راج تھا۔ غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں محمد خان جونیجو ملک کے وزیراعظم تھے۔ صوبہ پنجاب میں میاں محمد نواز شریف ، جبکہ سندھ میں غوث علی شاہ وزیراعلیٰ تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان پیپلزپارٹی کو اکٹھا کرنے کی جدوجہد شروع کر دی۔
اُدھر محمد خان جونیجو نے مارشل لاءکے خاتمے کا مطالبہ کر دیا اور اعلان کیا کہ اگر اگست1986ءتک مارشل لاءنہ ہٹایا گیا، تو وہ مستعفی ہو جائیں گے۔ انہوں نے وزیراعظم کا حلف لینے کے بعد پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت بھی اختیار کر لی اور اس پارٹی کے صدر بھی بن گئے۔ اس صورت حال نے ضیاءالحق اور ان کے مارشل لاءلگانے والے ساتھیوں کو کافی پریشان کر دیا۔ پنجاب کے طاقت ور ترین گورنر غلام جیلانی خان بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر چلے گئے، انہوں نے فوج سے بھی ریٹائرمنٹ لے لی۔ پنجاب میں اُن کی جگہ وزیراعظم جونیجو کی سفارش پر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مخدوم سجاد حسین قریشی کو نیا گورنر مقرر کر دیا گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی شادی کے معاملات سے فارغ ہوتے ہی پوری سرگرمی سے اپنی پارٹی کو متحد کیا اور ہر سطح پر پارٹی کی تنظیم نو کی گئی۔
اس دوران محمد خان جونیجو اور ضیاءالحق کے اختلافات میں اتنی شدت آئی کہ آئین میں حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے صدر ضیاءالحق نے محمد خان جونیجو کی حکومت ختم کر دی اور ملک ایک بار پھر واپس آرمی کے قبضے میں چلا گیا۔ سیاسی پارٹیوں کی طرف سے نئے الیکشن کے مطالبے پر ضیاءالحق ٹس سے مَس نہ ہوئے اور انہوں نے کہا کہ آئین معطل ہے، حالانکہ اسی آئین کا استعمال کرتے ہوئے اس کی شق -58(2)(B) کے تحت انہوں نے محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کی تھی، اسمبلیوں کو تحلیل کیا تھا اور صوبوں میں نگران وزرائے اعلیٰ کی تقرری بھی کی تھی۔ یہ بحث ابھی جاری تھی کہ17اگست1988ءکو 30 اہم اور سینئر جرنیلوں اور فوجی افسروں سمیت ضیاءالحق طیارہ حادثے میں اس دُنیا سے چلے گئے اور چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان نے قائم مقام صدارت کا حلف لے کر اسلم بیگ کو نیا آرمی چیف مقرر کر دیا اور90دن میں الیکشنوں کا اعلان کر دیا۔ یوں پیپلزپارٹی کو مارچ 1977ء کے الیکشنوں کے تقریباً ساڑھے گیارہ سال بعد ووٹ دینے کے لئے پولنگ بوتھوں پر جانے کا موقع ملا۔
مسلم لیگ نے بھی چاروں صوبوں میں مقابلہ کیا، نتیجہ آیا تو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کی بدولت پیپلزپارٹی کو حکومت بنانے کی دعوت دی گئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم بن کر سامنے آئیں۔ آصف علی زرداری نے بھی کابینہ میں اپنی بیگم کا ہاتھ بٹایا اور یہی وہ وقت تھا جب پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت بنی اور میاں نواز شریف نے وزیراعلیٰ بن کر مرکز سے ”اِٹ کھڑکا“ شروع کر دیا۔ حسین حقانی اُن کے اطلاعات کے مشیر تھے، لہٰذا انہوں نے آصف علی زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب دیا۔ زرداری کے بارے میں اس قدر اِس قدر قصے کہانیاں عام ہوئیں کہ خدا کی پناہ۔ اگلے الیکشن تک تو سرے محل، فریکو دودھ اور دوسری بہت سی کہانیاں تیار تھیں اور لوگ بڑی دلچسپی سے ان کہانیوں کو پڑھتے اور سنتے تھے۔ میڈیا1988ءکے زمانے میں اس قدر طاقت ور نہیں تھا، بلکہ ٹی وی چینل تو پرائیویٹ سیکٹر میں سرے سے تھے ہی نہیں، لہٰذا لوگ زیادہ تر سی این این، وائس آف امریکہ، وائس آف جرمنی، تہران ریڈیو اور بی بی سی کا ہی سہارا لیتے تھے۔ یوں اس زمانے میں معلومات کا ایک ایسا ملغوبہ سامنے آیا کہ خدا کی پناہ، کسی کے پاس تصدیق کے لئے نہ وقت تھا اور نہ ہی مشینری، لہٰذا جو سینہ گزٹ بھی چلائے گئے، وہ چلتے ہی چلے گئے۔
غلام اسحاق خان نے1990ءمیں بے نظیر بھٹو حکومت برطرف کر دی۔ 1990ءمیں اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے9جماعتوں کا اتحاد بنا اور الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ اتحاد کے سربراہ میاں نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بنے۔ ساتھی جماعتوں کو بھی وزارتیں دی گئیں، جن میں ایم کیو ایم، جمعیت العلمائے اسلام، جماعت اسلامی اور اے این پی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ غلام اسحاق خان کو میاں نواز شریف کے ساتھ خدا واسطے کا ایسا بیر اور ایسی دشمنی ہوئی کہ یہ اَن بن آئے روز بڑھتی چلی گئی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں نے، اس اَن بن میں اپنا حصہ بھی ڈالا، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور غلام اسحاق خان نے آئین کے جن اختیارات کے تحت محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ہٹایا تھا، ٹھیک انہی خطوط پر میاں محمد نواز شریف کی حکومت بھی ہٹا دی گئی۔
گو اُن کی حکومت کو سپریم کورٹ واپس لے آئی، لیکن پھر آرمی کی مداخلت پر وزیراعظم اور صدر غلام اسحاق خان دونوں ہی استعفا دے کر چلے گئے اور ملک میں1993ءکے الیکشنوں کا اعلان کر دیا گیا، جو اکتوبر میں منعقد ہوئے۔ ان الیکشنوں کی روشنی میں اقتدار ایک بار پھر پیپلزپارٹی کو ملا اور محترمہ بے نظیر بھٹو دوسری بار وزیراعظم بن گئیں۔ آصف علی زرداری نے اب نئے سرے سے اپنے سیاسی پتے کھیلے، وہ میاں محمد نواز شریف کے1988ءکے میڈیا منیجر حسین حقانی کو اپنے ساتھ لے گئے اور مرکزی حکومت میں انہیں کنٹریکٹ پر اطلاعات کا سیکرٹری لگا دیا گیا۔ محترمہ کے اس دور میں آصف علی زرداری حکومتی امور میں کھل کر سامنے آئے۔ صدر فاروق لغاری کو کسی قسم کی اہمیت دینے سے انکار کر دیا۔ یوں محترمہ کی حکومت اُن کی اپنی ہی پارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل فاروق لغاری کے ہاتھوں ختم کر دی گئی۔ ٹھیک اسی زمانے میں آصف علی زرداری پر باہر جانے پر پابندی لگی ، نیب والوں نے چن چن کر اُن کے خلاف مقدمات بنانا شروع کر دیئے۔ کچھ مقدمات کا ریکارڈ تو اُن کی اپنی پارٹی کے کچھ باغی لوگوں کو وعدہ معاف گواہ بنا کر حاصل کیا گیا، لیکن1997ءکے الیکشنوں میں چونکہ میاں نواز شریف ایک بار پھر اقتدار میں آ گئے تھے، لہٰذا مقدمات تواتر سے بنتے چلے گئے۔ ایک میں ضمانت ہوتی، تو دوسرا سامنے آ جاتا۔ یوں یہ سلسلہ ساڑھے گیارہ سال تک محیط رہا۔
جیل سے آصف علی زرداری نے جو خطوط اپنے بچوں اور بیگم کو بھیجے انہیں اب ایک جگہ یکجا کر لیا گیا ہے اور آکسفورڈ پریس لندن سے ان خطوط پر مبنی اُن کی دو کتابیں شائع کرنے کا پروگرام بنا ہے۔ ایک کتاب یہاں لاہور سے شائع ہو گی، جس کا مسودہ اب تیار کیا جا رہا ہے، جو آصف علی زرداری کی جیل کی یادداشتوں اور دوستیوں پر مبنی ہو گا۔ وہ اب پنجاب میں آئے ہیں اور پنجاب نے انہیں کھلے دل سے جی آیاں نوں کہا ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ پنجاب کے ریڑھی والوں، کسانوں، مکئی کے سٹے فروخت کرنے والوں، رکشہ والوں، ڈرائیوروں اور صنعتی مزدوروں کو فیصل آباد، ملتان، سرگودھا، گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور دوسرے شہروں میں کب جا کر ملتے ہیں یہ تو اب وقت ہی بتائے گا۔ ووٹر تو آج خاکسار جماعت کے بھی موجود ہیں، لیکن اسمبلی تک اپنے لوگوں کو نہیں پہنچاتے۔ ووٹر تو آج جماعت اسلامی کے بھی لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں، لیکن اسمبلیوں میں وہ اپنے لوگوں کو کم ہی پہنچاتے ہیں، حالانکہ ایک زمانہ وہ بھی تھا، جب کراچی کی اسمبلی نشستوں پر زیادہ تر جماعت اسلامی ہی کامیاب ہوا کرتی تھی۔ یہ تو اب آصف علی زرداری پر منحصر ہے کہ وہ اپنی جماعت کو کسی عجائب گھر میں قرینے سے سجاتے ہیں یا اسے فعال بناتے ہیں؟ ٭