دھرنا مذاکرات ”سانپ اور سیڑھیاں“
اسلام آباد میں دھرنے والوں اور حکومت کے درمیان اپنی نوعیت کے ایسے انوکھے مذاکرات ہو رہے ہیں ،جن کے نا کام ہونے کا دونوں فریقوں کو یقین ہے،لیکن ناکامی کے اِس یقین کے باوجود یہ مذاکرات حکومت کی جانب سے تو اِس لئے کئے جارہے ہیں کہ حکومت ہرحال میں اِس مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے ،اور نہیں چاہتی کہ عوامی سیاسی حلقوں کی جانب سے اِس پر یہ اعتراض ہو کہ حکومت سیاسی معاملات کو سیاسی لحاظ سے حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی.... اگرچہ دھرنا پارٹیاںمانیں یا نہ مانیں۔دھرنے والے اِس لئے مذاکرات پر ”آمادئہ پیکار“ ہیں کہ کوئی یہ نہ کہے کہ دھرنے والے لچک کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔اُن کے خیال میں مذاکرات کرتے رہنا لچک کا مظاہرہ ہے اور وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے پر ڈٹے رہنا عزم کا مظاہرہ ہے۔اسی ” لچک “ اور ”عزم“کے درمیان میں سے کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
پارلیمنٹ کی سیاسی جماعتوں کے نمائندگان پر مشتمل مصالحتی مذاکراتی جرگے کے سربراہ سراج الحق اگر صبح کے وقت مذاکرات کو کامیابی کی سیڑھی پر 80فیصد کی بلندی تک پہنچانے کا اعلان کرتے ہیں تو رات کے جلسے میں دھرنے کے سربراہان کا پھنکارتا ہوا جوشِ خطابت اِسے واپس صفر پر لے آتا ہے اور اعلان ہوتا ہے کہ وزیراعظم کا استعفا لئے بغیر ہر گز واپس نہیں جائیں گے، گویا سانپ اور سیڑھی کا کھیل جاری ہے۔وزیراعظم کے مستعفی ہونے کے موقف پر دونوں رہنماﺅں کے ڈٹے رہنے کی وجہ کو اب انفرادی اور نفسیاتی تو کہا جاسکتا ہے، اصولی، انقلابی یااخلاقی ہر گز نہیں ۔دونوں رہنماﺅں کا جن ذرائع پر انحصار تھا ،اُس کے باعث وہ اس قدر پُر یقین تھے کہ انہوں نے اپنے لئے کوئی بر عکس صورت حال پیدا ہو جانے کی گنجائش ہی نہیں رکھی تھی ۔اُن کا خیال تھا کہ وزیراعظم کے مستعفی ہونے پر دونوںکا ڈٹ جانا اور مسلسل ڈٹے ہی رہنا کافی ہوگا۔اس یقین کی وجہ اُن کی حکمت عملی یا کوئی قاعدہ کلیہ وغیرہ نہیں تھا ،بلکہ وہ ”یقین دہانی“تھی جو اُن کے مطابق انہیں کروائی گئی تھی،لہٰذا اُن کا یقین انہیں یہ سوچنے کی مہلت ہی نہیں دے رہا تھا کہ اگر وزیراعظم نے استعفا نہ دیا تو پھر وہ کیا کریں گے؟انہوں نے ”کم از کم“ کا تعیّن تو نہ کیا ،البتہ ” زیادہ سے زیادہ“ کا تعیّن کر لیا۔وہ یہ کہ وہ وزیراعظم کے مستعفی ہونے تک وہیں بیٹھے رہیں گے، خواہ تمام کارکن واپس چلے جائیں....(یہ انہوں نے احتیاطاً اِس لئے کہہ دیا کہ کارکنوں کی واپسی کا امکان بڑھتا جا رہا ہے) ....جاوید ہاشمی کے انکشافات نے پارلیمنٹ کو اس کی تاریخ کے ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کیا، جہاں اب سے پہلے وہ نہیں پہنچ سکی تھی پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں کا تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے غیر آئینی مطالبے اور اقدام کے خلاف یکجا ہو جانا غیر جمہوری طاقتوں کے لئے واقعی نا قابل یقین ہے۔اگرچہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بیانات سے بہت حد تک یہ واضح ہو اکہ فوج کسی قسم کی غیر آئینی مداخلت کا ارادہ نہیں رکھتی ،لیکن اس کے باوجود عوامی سیاسی حلقوں میں یہ رائے مضبوطی کے ساتھ موجود چلی آرہی ہے کہ جنرل راحیل اگر ایسے ارادے نہ بھی رکھتے ہوں تو چند دیگر جرنیل ایسی سرگرمیوں میں ضرور کار فرما رہے ہیں۔جیسا کہ ایک تجزیہ نگار نے 5جرنیلوں کا اِس حوالے سے ذکر کیا ہے۔
یہ خبریں اگر غیر حقیقی بھی ہوں تو اب اس قدر خفیہ نہیں رہیں کہ انہیں عوامی حلقوں میں زیر بحث نہ لایا جا رہا ہو۔اخباروں کی سرخیوں سے لے کر اداریوں تک اور صبح سے رات گئے تک تمام ٹی وی چنیلوں اور ٹاک شوز میں یہ خبریں موضوع بحث رہی ہیں۔ مثلاً انگریزی اخبار ڈان کے اداریے ہی کو لے لیجیے، اِس کا عنوان ہی ”فوج کے قابل اعتراض فیصلے“تھا۔ اداریے میں کہا گیا کہ فوج نے غیر جانبداری کا جو خول اُوڑھ رکھا تھا، وہ اب تارتار ہو چکا ہے۔فوج نے سرکاری عمارتوں پر حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے حکومت ہی کو ڈانٹ پلا دی۔اداریے میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ ”حکومت فوج کو احکامات دیا کرتی ہے، لیکن یہاں تو فوج حکومت کو احکامات دے رہی ہے۔“ اداریے کا لب لباب یہ تھا کہ فوج بمشکل ہی غیر جانبدار ہے اور یہ کہ فوج کسی ایسے مایوس کن فیصلے پر پہنچ رہی ہے جو آئینی اور جمہوری نہیں۔
ڈان کے اداریہ نویس نے لکھا: ”جاوید ہاشمی کی جانب سے کچھ نقاب چاک کئے جانے کے بعد کچھ گھنٹوں تک آئی ایس پی آر پر سکوت طاری رہا اور بالآخر محض ایک ناکافی سی تردید سامنے آئی۔اداریے میں کہا گیا کہ فوج نے عمران خان اور طاہرالقادری کے ایسے غیر آئینی اقدامات کی مذمت نہیں کی ،جن کے نتیجے میں ریاست مفلوج ہو کر رہ گئی۔سوال اُٹھایا گیا کہ اِس ضمن میں فوج کا مذمتّی بیان کہاں ہے؟کیا فوج جی ایچ کیو کے سامنے محض چند گھنٹوں کے لئے ہی سہی،مٹھی بھر پُرامن مظاہرین کو مظاہرہ کرنے کی اجازت دے سکتی ہے؟اگرچہ کچھ ریٹائر جرنیلوں کو بھی سیاسی معاملات میں مداخلت کے حوالے سے سرگرم بتایا جا رہا ہے، لیکن ریٹائرڈ جرنیلوں میں سے بھی کچھ اس کے برعکس موقف رکھتے ہیں ۔عمران خان اور طاہرالقادری کے معاملے میں اُن کا موقف عوامی حلقوں کے موقف کے زیادہ قریب ہے۔ جنرل (ر)اسلم بیگ کے حالیہ بیان کو اس کی ایک واضح مثال کہا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا: ”عمران خان کو کسی امپائر ہی سے اُمید ہے کہ وہ حکومت کو چلتا کر کے انتخابات کرائے گی اور عنان حِکومت ان کے حوالے کر دے گی ،لیکن بد قسمتی سے ایسا ممکن نہیں ۔جس امپائر نے اِن سے حکومت کی تبدیلی کا وعدہ کیا تھا ،اِس نے صرف عمران خان اور طاہرالقادری ہی کو دھوکہ نہیں دیا ،بلکہ قومی اداروں کی ساکھ کو بھی مجروح کیا ہے۔
اِس تمام تر ہنگامہ آرائی کی حیثیت محض ایک تماشے کی ہے، جس کی شاید اِس ستائی ہوئی قوم کو ضرورت تھی،مگر اب قوم بھی اِس تماشے سے اکتا چکی ہے۔“اِس بیان میں ”امپائر“کی موجودگی اور ”تبدیلی کا وعدہ“ ایسے اشارے ہیں، جن کا رخ فوج کے سوا کسی اور جانب متعیّن کیا ہی نہیں جا سکتا۔اِسی عرصے میں پارلیمنٹ میں فوج کا معنی خیز کردار پورے زور و شور کے ساتھ زیر بحث رہا ،جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ مولانا فضل الرحمٰن نے تو یہاں تک کہنے سے بھی دریغ نہیں کیا کہ ”فوج خود تو شمالی وزیرستان میں طاقت کا استعمال کر رہی ہے اور ہمیں ریاستی اداروں اور عمارتوں پر حملے کے جواب میں طاقت کا استعمال نہ کرنے کا مشورہ دے رہی ہے“....یہ اندازہ کرنا خاصا مشکل ہے کہ جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں چند جرنیل اُن کے موقف کے برعکس اور اُن کی اجازت کے بغیر کچھ ایسے کام کر رہے ہیں جو اُن کے باس کو نا پسند ہو سکتے ہیں۔اب یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ فوج اپنے دفاع میں کس قدر مضبوط موقف رکھتی ہے، بلکہ ضرورت یہ دیکھنے کی ہے کہ عوامی اور سیاسی حلقے اب فوج کو کن حوالوں اور کس انداز سے زیر بحث لا رہے ہیں....اور یہ کہ اِس صورت میں فوج کو اپنے آئینی کردار کے حوالے سے کیا کرنا چاہیے؟