نظام عدل کی تباہی

نظام عدل کی تباہی
 نظام عدل کی تباہی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چیف جسٹس آف پاکستان جناب جواد ایس خواجہ نے 9ستمبر کو اپنے اعزاز میں دیئے جانے والے الوداعی فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جوچشم کشا ء حقائق ومشاہدات بیان کئے، وہ پاکستان کے موجودہ نظامِ عدل کا دل فگار بیانیہ بھی ہے اور اِس پر ایک پُرمغز تبصرہ بھی۔ اُن کے خطاب کا لُبِ لباب یہ تھا کہ ’’عوام کو فوری اور سستاانصاف نہیں مل رہا۔جج ، وکیل اور حکومت نظامِ عدل کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ ریاست کے اِعضاء کو یہ برملا اعتراف کرناچاہئے کہ جس سستے اور فوری انصاف کاوعدہ ہمارا آئین عوام سے کرتاہے ہم اُس وعدہ کو نبھانے میں فی الحال کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ایسا نظام،جوسستا اور فوری انصاف مہیا نہیں کرتا اُسے بدل دیناحکومت ،ریاستی اداروں، وکلاء، ججوں اور معاشرے کے ہر فرد کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اس لئے ہمیں متبادل نظام ہائے عدل کی جانب بھی دیکھنے کی ضرورت ہے‘‘۔


جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے سے قبل نہایت دردمندی کے ساتھ وہ سچ بولا ہے، جو پاکستان کے درودیوار پر لکھا ہوا ہے اور جس کا سامنا ہر پاکستانی کو کسی نہ کسی صورت میں ہر روز کرنا پڑتا ہے۔ نئی بات اس میں صرف یہ ہے کہ آج یہ سچ پاکستان کی اُس بڑی شخصیت نے بولا ہے،جو خود 40سال تک اس نظامِ عدل کا حصہ رہی ہے اور برملا اپنے شعبے کو اِس نظام کی بربادی کے ذمہ داروں میں سے ایک قرار دیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس نظامِ عدل کو مزید بربادی سے کیسے روکا جائے اور خرابیوں کی اصلاح کیسے کی جائے۔ یوں تو جسٹس صاحب کے بیانیہ میں ہی اس صورت حال کا حل پنہاں ہے، بطور ایک پولیس آفیسر 34سال تک اِس نظام کا حصہ رہنے کے دوران مَیں نے جو کچھ دیکھااور اخذ و ماخوذ کیا وہ جسٹس صاحب کے مشاہدات و تاثرات سے کچھ بھی مختلف نہیں،اور وہ کچھ یوں ہے ۔
پاکستان کے نظام عدل کے چار بنیادی کردار ہیں۔


(1) عوام ، جو انصاف کے حصول کے لئے اس نظام کے دروازے پر دستک دیتے ہیں ۔


( 2)پولیس یاتفتیشی ادارے، جو معاملے کی چھان بین کرکے حقدار اور قصوروار کاتعین کرکے معاملہ عدالتوں کے سپرد کرتے ہیں۔
( 3) پراسیکیوٹرز اور وکلاء، جو عدالتوں میں فریقین کے مؤقف کے حق اور مخالفت پر بحث و مباحثہ کرتے اور دلائل دیتے ہیں اور (4) عدالتیں، جوتفتیشی افسران ، پراسیکیوٹرز اور وکلاء کی طرف سے پیش کئے گئے مواد، حقائق اور دلائل کاجائزہ لے کر کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ دے کر اپنے تئیں انصاف مہیاکرتے ہیں۔


بدقسمتی سے فی الوقت یہ چاروں کردار اپنا اپنا کردار دیانت، غیرجانبداری اور سیاسی، سماجی اور خاندانی دباؤ اور مداخلت سے آزاد رہ کر خالصتاً حقائق، سچ اور اپنی ضمیر کی آواز کے مطابق انجام نہیں دیتے یا نہیں دے پاتے۔ سب سے پہلے عوام کو لیتے ہیں ۔اس نظام میں سب سے پہلی ناانصافی یا زیادتی اداروں کی طرف سے عوام کے ساتھ یہ ہوتی ہے کہ جب کوئی شخص کسی ظلم ، زیادتی یابے انصافی کے خلاف پولیس یا کسی اور ادارے سے رجوع کرتا ہے، تو اس کی بات نہیں سُنی جاتی۔ حیلے بہانوں سے اُسے ٹالنے کی کوشش کی جاتی ہے ، بار بار چکر لگوائے جاتے ہیں اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ تھک ہار کر بیٹھ جائے ۔ اگر وہ ہمت نہ ہارے تو آخرِ کار مجبوراً یا کسی سفارش یا متعلقہ اہلکار کی مٹھی گرم کرنے پر اُس سے درخواست لے لی جاتی ہے، لیکن اس درخواست پر کارروائی شروع کرانے کے لئے بھی اُسے ایک بار پھر اِسی طرح کی کئی مزید آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے اور یہ سلسلہ آخر تک چلتا رہتا ہے۔ اس سلسلے کی دوسری زیادتی یا ناانصافی خود عوام کی طرف سے اداروں کے خلاف یہ کی جاتی ہے کہ جو شکایت دائرکی جاتی ہے وہ بالعموم پورا سچ نہیں ہوتا ۔ مَیں نے اپنی پوری سروس کے دوران شاید ہی کوئی ایسادرخواست گذاردیکھاہوجس نے اپنی شکایت واقعہ کے عین مطابق لکھی ہو۔


واقعہ کو بڑھاچڑھاکر لکھنا اور گناہگاروں کے ساتھ ساتھ کچھ بے گناہوں کو نامزد کرنا گویا لازم ہے ، جس سے کوئی چھوٹا بڑا اور کوئی نیک و بد مبرا نہیں، اور پھر اپنے جھوٹے یا نیم جھوٹے موقف کو سچ ثابت کرنے کے لئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرنا گویا درخواست دہندہ کامذہبی فریضہ ہے، جس کام کی ابتدا ہی جھوٹ یا آدھے سچ اور آدھے جھوٹ سے ہو اُس کا انجام کیا ہوگا اور اُس کی زد کہاں کہاں پڑے گی اور اس سے کیا کیا خرابیاں جنم لیں گی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ تیسرے نمبر پر تفتیشی افسران ہیں۔ مَیں نے پوری سروس میں کوئی ایک کیس ایسا نہیں دیکھا، جہاں تفتیشی افسر کو حق اور سچ کے مطابق تفتیش کرنے اور حقائق کے مطابق اس کا نتیجہ اُخذکر کے آگے بھجوانے کے لئے سازگار ماحول مُیسر آیا ہو۔ مقدمے کا کوئی فریق بھی پورا سچ نہیں بولتا۔ کوئی فریق بھی سیاسی، سماجی اور گھریلو دباؤ ڈالے بغیر نہیں رہتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر اُس کا کام نہیں ہو سکتا۔ تفتیشی افسر بھی آخر اِسی معاشرے کا حصہ ہوتا ہے اور وہ کوئی بہت بڑے رینک کا افسر بھی نہیں ہوتا۔ وہ اکثر دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔طمع نفسانی بھی اُس کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔


ان سب عوامل سے مغلوب، اکثر وہ مکمل سچ نہیں لکھ پاتا۔ تیسرے نمبر پر پراسیکیوٹرز اور وکلاء آتے ہیں۔یہاں بھی خرابیاں ہی خرابیاں ہیں۔ یہ لو گ اچھی طرح جانتے ہوئے بھی کہ اُن کا موکل غلط ہے اُس کو سچا ثابت کرنے کے لئے تاویلوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں اور بات کو کھینچ کر کہیں کا کہیں لے جاتے ہیں ۔ ان ساری قانونی موشگافیوں کا واحد مقصد اپنے موکل کو جتانا ہوتا ہے، چاہے انصاف کا خون ہو جائے۔ سماعت مرضی کے مطابق نہ چل رہی ہو تو طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ تاریخوں پر تاریخیں لی جاتی ہیں ۔ گواہوں ،بلکہ ججوں تک کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ اپنی مرضی کے مطابق نظامِ عدل کے کرداروں کو چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہڑتالیں کی جاتی ہیں۔ عدالتوں کوتالے لگا دیئے جاتے ہیں۔ وکلاء کے اِن رویوں کے خلاف کوئی شنوائی بھی نہیں ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا یہ انکشاف کہ ’’گزشتہ چند سال میں عوام الناس وکلاء کے خلاف بار کونسلوں میں 7500سے زائد شکایات کر چکے ہیں، لیکن بار کونسلوں نے اِن میں سے کسی ایک کی بھی نہ کماحقہ تحقیق کی اور نہ کسی کو قصور وار ٹھہرایا‘‘ خرابی کی انتہاء کی نشاندہی کرتا ہے۔ چوتھے نمبر پر جج صاحبان آتے ہیں جو فی زمانہ کئی دوسرے کرداروں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ عدلیہ کے بارے میں جسٹس جواد ایس خواجہ کے اِس بیان کہ ’’عدل کے ایوانوں میں دھونس، دباؤ، اور اثرو رسوخ کے کئی روپ دیکھے‘‘ سے زیادہ جامع تبصرہ اور ذاتی شہادت کیا ہو سکتی ہے؟ اعلیٰ عدلیہ کے سوا دیگر ججوں کو عزت اور جان و مال کا تحفظ حاصل نہیں۔ عوام اور وکلاء میں ضرورت سے زیادہ گھلنے ملنے کی وجہ سے عوام و خواص کی نظروں میں اُن کاوہ تقدس بھی برقرارنہیں رہا جو کبھی انہیں حاصل تھا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کے بقول ’’نظام عدل میں ’دیدومروت‘ بہت خطرناک چیزیں ہیں، کیونکہ یہ ہمیں بے باک اور دلیرانہ فیصلے کرنے سے روک سکتی ہیں‘‘ دنیاوی آسائشات اور مراعات کی کشش و طلب سے جج صاحبان بھی مبرأ نہیں رہے۔ غرض نظام عدل کے تمام بنیادی کردار زوال وانحطاط کا شکار ہیں۔ اِن سب پر طُرہ یہ کہ پاکستان کے فوجداری اور سول قوانین فرسودہ، ازکارِ رفتہ اور ناقص ہیں۔یہ زمانے کی موجودہ حالت، ضرورت، رفتار اور چیلنجوں کا ساتھ نہیں دے رہے۔ عوام کو روزمرہ زندگی میں پیش آنے والی بے شمار قباحتوں اور اذیتوں کا موجودہ قوانین میں کوئی مداوا ہی نہیں۔ ان کی قسمت میں صرف کڑھنا، دِل برداشتہ ہونا، ڈپریشن کا شکار ہو کر بیٹھ رہنا یا پھر غضب ناک ہو کر اپنایا دوسروں کا کوئی بڑا نقصان کر بیٹھنا ہی لکھا ہے۔


نظام عدل کی اِس بربادی کا کوئی ایک حل بتانا ممکن نہیں۔ہر ہر کردار کے معاملات کی اصلاح کے لئے سفارشات کے بنڈلوں کے بنڈل متعلقہ دفتروں میں موجود ہیں۔ انہیں کھولنے اور اُن میں سے قابلِ عمل سفارشات پر عمل درآمد کرنا اصل کام ہے جو نہیں ہو رہا۔ تاہم اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر اس نظام کے چاروں شعبوں کے کام و کردار میں کسی قدر مثبت تبدیلی لانے کے لئے میری چند سادہ سی معروضات ہیں، جن پر عمل درآمد کے لئے صرف قانون اور انتظامی ضابطوں میں کچھ تبدیلیاں کرنا ہوں گی اور تھوڑا ساخرچہ۔


(1) عوام کی طرف سے دی گئی درخواست کووصول نہ کرنا،یاوصول کرکے اُس کا باضابطہ اندراج نہ کرنا، یااندراج کرکے فوراً کارروائی کا آغاز نہ کرنا، قابلِ دست اندازی پولیس جرم قرار دیاجائے اور اِس کی اتنی سخت محکمانہ اور قانونی سزا رکھی جائے کہ کوئی اہلکار اس جرم کے ارتکاب کاتصور بھی نہ کرے۔


2) جھوٹا مقدمہ درج کرانا قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دیاجائے۔جھوٹا مقدمہ درج کرانے والے کو وہی سزا دی جائے، جو اگر مقدمہ درست ثابت ہوتا تو مجرم کودی جاتی۔


(3) تفتیش کے دوران اگرکوئی غیر متعلقہ شخص خواہ وہ کسی حیثیت ومرتبے کاحامل ہو مداخلت کرے یا رکاوٹ ڈالے یا ملزم کے حق میں سفارش کرے یادباؤ ڈالے تواُسے اعانتِ جرم کامجرم تصور کیاجائے اور ملزم کے ساتھ ہی قانون کی گرفت میں لایاجائے۔


(4) سینئر افسران تفتیش کی کڑی نگرانی کریں۔ اگر کوئی تفتیشی افسر کسی سفارش،دباؤ یا مالی مفاد کے پیش نظر تفتیش کو خراب کرتا ہے ، مدعی کی حق رسی میں رُکاوٹ بنتاہے یا ملزم کو ناجائز فائدہ پہنچاتا ہے، تو اُسے ملازمت سے برخاست کرکے اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور اس مقصد کے لئے تعزیراتِ پاکستان میں ایک نئی دفعہ کا اضافہ کیا جائے۔


(5) بار کونسلیں اپنے ارکان کو تفتیش کرنے والے اداروں کے ارکان اور جج صاحبان سے مخاصمت کا رویہ اختیار کرنے سے روکیں اور اُس ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد یقینی بنائیں جو انہوں نے اس مقصد کے لئے بنا رکھے ہیں۔


(6) سپریم کورٹ کی طرح ہرچھوٹی بڑی عدالت میں ہر کوئی سادہ کاغذ پر اپنی شکایت دائر کر سکتا ہو اور اسے بغیر وکیل خود پیش ہو کر اپنی بات کہنے اور سمجھانے کی اجازت ہونی چاہئے اور ایسی ہر درخواست پر ایک ماہ کے اندر فیصلہ سُنا دیا جائے۔


(7) ہر قسم کے دیوانی اور فوجداری مقدمات کی سماعت اور فیصلے کے لئے ایک مُدت مقررکر دی جائے، جس کی ہر صورت پابندی کی جائے۔ مقررہ مدت میں مقدمات کا فیصلہ نہ کرنے پر اعلیٰ عدالتیں متعلقہ جج صاحبان سے باز پُرس کریں اور یہ باز پُرس نتیجہ خیز ہو، محض لفظی مشق نہیں۔


(8) عدالتیں ماضی کی طرح صرف اپنے قلم کے ذریعے بولیں۔ دورانِ تفتیش یا دورانِ سماعت عدالت کے ریمارکس مقدمے کی تفتیش یا نتیجے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔عدالت کا ذہن پڑھ کر مقدمے کے متعلقین تفتیشی افسران اور ججوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔


(9) عدالتیں ملزم کوقانون کا ’چہیتا بچہ‘ نہ سمجھیں اور صرف کیس کی کمزوریاں ہی نہ ڈھونڈتی رہیں کہ ملزم کو شک کا فائدہ دیا جا سکے ۔ فیصلے صرف ’قانون کے مطابق‘ ہی نہیں ’انصاف کے مطابق‘ بھی ہونے چاہئیں۔


(10) حکومتِ وقت قانون نافذ کرنے اور تفتیش کرنے والے اداروں اور عدلیہ کو اپنے فرائض کی آزادانہ بجاآوری کے لئے ہر ضروری سہولت مہیاکرے تاکہ عوام کو سستا اور فوری انصاف مہیاہوسکے۔

مزید :

کالم -