کشمیر پر سفارتی کوششیں
اختلاف رائے کو یہ کہہ کر سراہا جاتا ہے کہ یہ تو جمہوریت کا خاصہ ہے, سب کو حق ہے اختلاف رائے کا ۔ اتفاق رائے کی بجاے اختلاف رائے رکھنازیادہ ہی مقبول ہوچلا ہے۔ سوچئیے تو سہی اگر گھر کے اندر ایک فیملی کے سات سے آٹھ افراد ہوں اور وہ سارے اختلاف رائے پر مائل ہوجائیں تو گھر گھر نہیں رہے گا۔ فیملی فیملی نہیں رہے گی۔ کشمیر پر ڈپلومیسی کے ضمن میں اختلاف رائے کی بجائے نئے آئیڈیاز ڈھونڈنا اختلاف رائے میں تو نہیں آتا ہوگا؟
ہمارے ایک قریبی دوست نے یورپین یونین کو خط لکھا کہ بھارت کشمیر میں ظلم و ستم کررہا ہے اور یورپین یونین کو کشمیر میں فیکٹ فائینڈنگ مشن بھیجنا چاہئیے۔ بس ایک بھول ہوئی شاید ان سے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر اس خط کو شیئر کردیا۔ایک دوسرے صاحب جو ہمارے وطن سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے بھی ایک خط اقوام متحدہ کو لکھ دیا کہ پاکستان بھی آزاد کشمیر میں ظلم اور زیادتی کررہا ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ دونوں خطوط ایک دوسرے کو نیوٹرالائیز کردیں گے۔ظاہر ہے بین الاقوامی ادارے ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے ہیں۔
راقم نے 15اگست 2009ءمیں یورپین پالیمنٹ کو ایک خط لکھا جس میں مقبوضہ کشمیر میں ہونیوالی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی چھان بین کے لیے یورپین پارلیمنٹ سے درخواست کی کہ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی چھان بین کے لیے ایک فیکٹ فائینڈنگ مشن بھیجے۔ یورپین پارلیمنٹ نے نومبر 2009ءمیں بھارت میں موجود پانچ یورپین ممالک کے سفارتی وفد کو مقبوضہ کشمیر بھیجا جس نے حریت کانفرنس اور بھارتی حکوت کے نمائندوں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ ہمیشہ کی طرح بھارتی حکام نے چاپلوسی اور مکاری کے ذریعے کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر نہیں آنے دیا۔ ہاں آپ کے دماغ میں پہلا سوال یہ آیا ہوگا کہ اتنی ساری کشمیری تنظیمیں سمندر پار موجود ہیں۔ اس طرح کی کسی تنظیم کی چھٹی پر یورپین یونین پانچ یورپین ممالک کے سفارت کاروں پر مشتمل وفد مقبوضہ کشمیر کیسے بھیج سکتا ہے؟ یہ اس لیے ممکن ہوا کہ وہ چھٹی سپر پاور کی سپر ملٹی نیشنل کمپنی کے آئی ۔پی ایڈرس سے ایک مختلف نام سے بھیجی گئی تھی ۔
راقم نے5 ستمبر کو مقبوضہ کشمیر میں آنے والے سیلاب کے بعد 16اکتوبر2014 ءکو ولڈ بینک کو ایک خط لکھا جس میںولڈ بینک سے درخواست کی کہ وہ ایک وفد مقبوضہ کشمیر بھیجے تاکہ تاریخ کے بدترین سیلاب کی وجوہات معلوم کی جاسکیں اور سیلاب کے بعد بھارتی حکام کی مجرمانہ غفلت پر سے پردہ چاک کیا جاسکے۔ عالمی بینک نے یکم فروری 2015ءکو ایک کمیشن مقبوضہ کشمیر بھیجا جس نے اپنے چھ دن کے دورے کے دوران سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا تخمینہ مرتب کرکہ بھارتی حکومت کو پیش کیا۔ پھر آپکے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا ہوگا کہ ہماری تنظیم کے خط پر ولڈ بینک نے وفد کیوں کر بھیج دیا؟ ہم نے ولڈ بینک کے مرکزی دفتر میں کام کرنے والے عہدے داران میں سے ان افراد کی الگ لسٹ بنائی جن کا تعلق ان ممالک سے تھا جو ہمارے خیال میں بھارت نواز نہیں ہیں۔چنانچہ ہم نے اپنے خط کی کاپی احتیاطاً ان سب کو بھیجی۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ بھارت اپنی لابی کرتا ہے اور ہماری کوششوں کو نیوٹرالائیز کرتا ہے۔ بین الاقوامی اداروں میں بھارتی لابی ہماری کوششوں کو بلاک کرتی رہتی ہے بلکل اسی طرح جس طرح محکمے میں کسی سائل کی درخواست ردی کی ٹوکری کی نظر ہوجاتی ہے بلکل اسی طرح ہمارے احتجاج اور کاوشیں نظرا نداز کردی جاتی ہیں۔
ہماری تنظیم نے 9 فروری 2014ءکو ناروے کی پارلیمنٹ میں کشمیر ایشیو پر سیمینار کروایا جس میں بڑی تعداد میں انسانی حقوق کی تنظیموں، سفارت کاروں او یورپ بھر سے مختلف تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ یہ سیمینار تحریک آزادی کشمیر کے ضمن میں اپنی نوعیت کا منفرد سیمینار تھا جس کی بازگشت یورپ اور امریکہ کے علاوہ بھارت کے ایوانوں میں سنی گئی۔ اس سیمینار کے فوراً بعد بھارت نے بی۔جے۔ پی کے سنیئر نائب صدر کی صدارت میں ایک وفد ناروے بھیجا جس نے ناروے کی حکوت سے مذکورہ سیمینار پر سخت احتجاج کیا اور ناروے کی موجودہ حکمران جماعت کی قیادت کو بتایا کہ جن لوگوں نے سیمینار کروایا ہے وہ خود بھی دہشت گرد ہیں اور یہ لوگ دہشت گرد عسکری تنظیموں جو کشمیر میں مسلح مزاحمت کررہی ہیں کے نمائندے ہیں۔
ان چند ایک مثالوں سے مراد کریڈٹ لینا نہیں ہے بلکہ یہ بتانا ہے کہ دنیا میں مفادات کی جنگ ہے اور بڑی بے رحم جنگ ہے۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کو سچ بتانے سے سب ٹھیک ہوجاے گا تو ایسا ہونے سے رہا۔ سچ ہے کیا؟ سچ کون بول رہا ہے؟ سچ کہاںسے بولا جا رہا ہے؟ کیا آپ کا سچ باقی دنیا کا بھی سچ ہے؟ کیا تیسری دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی مغربی دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے مختلف تو نہیں ہے؟ اور ہاں پاکستانی پارلیمنٹ کے ممبران کو لابنگ کے لیے بھیجنا اچھی بات ہے لیکن کشمیر پر لابنگ سچ مانئیے کشمیریوں سے کروانی چاہئیے۔ پاکستان اپنا موقف پارلیمنٹ ممبران کے ذریعے دنیا کو بتاے گا لیکن اگرپاکستان یہ کہے گا کہ وہ کشمیریوں کی نمائندگی کررہا ہے تو دنیا کو اس بات کو نظر انداز کرنے میں زیادہ آسانی ہوگی۔ کشمیری اگر کشمیر کے کیس کو پیش کریں تو وہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ پاکستانی ممبر پارلیمنٹ ایسا کریں۔ یہ جو بجٹ آپ ممبر پارلیمنٹ پر خرچ کریں گے، میڈیا کوریج کریں گے، تصاور او ویڈیوز آئیں گی اور حکومتی پارٹی کا پروفائیل درخشاں ہوگا۔ آئیے کچھ اور ٹارگٹ بھی رکھیں مثلاً ان ممبر پارلیمنٹ کے دورے پر اتنے اخراجات آئے اور فلاں فلاں ممالک نے بھارت کے موقف کی بجائے پاکستان کے موقف کی حمایت کردی ۔ کارکردگی کی جانچ پڑتال کا سکیل مرتب کرتے ہیں۔ پچیس لاکھ کے خرچے پرایک ملک کو تو مان لینا چاہئیے۔ آخر ملک کے ممبران پارلیمنٹ ہیں کوئی ایرے غیرے تو نہیں ہیںاور یہ بھی ہوسکتا ہے بھارت بھی اپنے ممبران پارلیمنٹ کو بھیج دے تب وہ ہمارے ممبران پارلیمنٹ کو نیوٹرالائیز کردیں گے۔اگر بھارت ہمارے کشمیری بھائیوں پر اپنا بجٹ خرچ کرسکتا ہے تا کہ وہ ہمیں نیوٹرالائیز کریں تو یقینا باقی جگہوں پر بھی کرے گا۔