آنگ سان سو چی کی توجہ کے لئے
آنگ سان سو چی کی سر زمین آج روہنگیا کے مظلوم اور بے بس مسلمانوں کے خون نا حق سے رنگین ہے۔ایک خاتون ہونے کے ناطے سمجھ سکتی ہوں کہ آنگ سو چی نے برسہا برس تک قیدو بند کو جھیلا۔ اس نے تمام مصائب کو بہادری سے برداشت کیا۔ دنیا کی جمہوریت پسند قوتیں ان کے حق میں آواز اٹھاتی رہیں ۔ پاکستان کی ایک بیٹی ملالہ یوسف زئی نے بھی سو چی سے مظالم بند کرنے کا مطالبہ کیا ، عالمی سطح پر سوچی کی ابتلا پر تشویش کااظہار کیا جاتا رہا اور اسے امن کے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔
اس پس منظر میں اب وہ اپنے ملک کی حکمران ہیں تو امید کی جا رہی تھی کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی ابتلا کو ختم کرنے میں کردار ادا کریں ۔، رو ہنگیا کے مسلمانوں کو بھی وہی انسانی حقوق حاصل ہیں جن کے لئے آنگ سو چی نے ساری عمر جدو جہد کی۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ قیدو بند سے آزاد ہونے اور حکومت میں آنے کے بعد آنگ سو چی خود انسانی حقوق کی پامالی کا حصہ بن چکی ہیں۔پاکستان کی حکومت، پارلیمنٹ ا ورسول سوسائٹی نے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم بند کرنے کا مطالبہ بہت شد ومد سے کیا ہے۔ پاکستان نے میانمار حکومت سے اجازت بھی طلب کی ہے کہ امدادی جہازوں کو میانمار میں لینڈکرنے دیا جائے تاکہ پاکستان کی طرف سے اشیائے خورو نوش اور طبی سامان متاثرین تک پہنچایا جا سکے۔پاکستان کو میانمار حکومت کے جواب کا شدت سے انتظار ہے۔
روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ پاکستان کاایک خصوصی رشتہ ہے۔قائد اعظمؒ کی درخواست پر اراکان مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی اور اراکان کے مسلمانوں کی اکثریت نے قیام پاکستان کے مطالبے کی تائید کی۔یہی اراکان کے لوگ آج روہنگیا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔پاکستان اپنے ان مسلمان بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف مظالم پر سخت احتجاج کیا ہے اور حکومت میانمار سے مطالبہ کیا ہے کہ و ہ ان مظلوم مسلمانوں کی حفاظت کے لئے اپنا آئینی اور ریاستی کردارا دا کرے۔ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر پر میانمار نے دستخط کر رکھے ہیں ، اگر انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ بند نہ ہوا تو اس کی شکائت عالمی ادارے سے کی جاسکتی ہے جو میانمار کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کر سکتا ہے۔روہنگیا کون ہیں؟۔۔۔ میانمار کا کہنا ہے کہ یہ لوگ بنگلہ دیشی ہیں اور انہیں بنگلہ دیش واپس لے، مگر وزیر اعظم حسینہ واجد نے میانمار سے مطالبہ کیا ہے کہ روہنگیا کی ملک بدری کا سلسلہ بند کیا جائے اور جن لوگوں کو طاقت کے زور پر ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے اور وہ ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں، انہیں واپس گھروں میں جانے کی اجازت دی جائے۔
رونگیا مسلمانوں کی ابتلا کی تصویر کشی الفاظ میں نہیں کی جا سکتی۔یہ اپنے ملک کی اقلیت ہیں اور میانمار کی اکثریت کا تعلق بدھ مذہب سے ہے۔ یہ بھی ایک ستم ظریفی ہے کہ بدھ مت توامن کا پرچار کرتا ہے، مگر اس کے ماننے والوں نے روہنگیا مسلمانوں کو جہنم میں دھکیل دیا ہے۔ان کے گھروں کو بلڈوز کر دیا جاتا ہے، ان کی بستیوں کونذر آتش کیا جاتا ہے ا ور ان کی دکانوں میں لوٹ مار کی جاتی ہے اور جہاں موقع ملے ، ان پر قبضہ بھی جما لیا جاتا ہے۔
وحشت ا ور تشدد کی انتہا یہ ہے کہ مسلمانوں کوان کے گھروں سے نکال کر ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے جاتے ہیں ا ور پھر فائرنگ سکواڈ ان پر گولیوں کی بارش کر دیتا ہے، خونخوار حملہ آور اس وقت قہقہے لگاتے ہیں جب زخمی ہونے والے چیختے چلاتے ہیں اور تڑپ تڑپ کر جان جان آفریں کے سپرد کرتے ہیں۔ بیشتر مقامات پر روہنگیا مسلمانوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر انہیں زمین پر پھینک دیا جاتا ہے ، اور لاشیں خون کے تالاب میں غرق ہو جاتی ہیں۔
یہ امر اطمینان بخش ہے کہ عالمی میڈیا نے باضمیر ہونے کا مظاہرہ کیا ہے ، خاص طور پر بی بی سی نے ان لوگوں پر مظالم کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بی بی سی کی چشم کشاپورٹیں اور تصویریں یا وڈیوز دیکھ کرہر انسانی آنکھ اشک بار ہے۔
سعودی عرب اور ترکی نے بھی مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لئے سرگرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ او آئی سی نے بھی میانمار حکومت سے سخت الفاظ میں احتجاج کیا ہے۔بھارت کا کردار البتہ شرمناک ہے۔ اس کی سرحد بھی میانمار سے ملتی ہے، جو مسلمان جان بچانے کے لے بھارت کی سرحد کا رخ کرتے ہیں بھارتی فوج ان پر سنگینیں تان لیتی ہے، ان پر ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے تاکہ وہ ڈر کر واپس چلے جائیں، پھر بھی لوگ آگے بڑھیں تو انہیں سیدھی فائرنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔یہ ہے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کا انسانیت سوز رویہ۔روہنگیا مسلمانوں کی منظم نسل کشی کا نوٹس اقوام متحدہ نے بھی لے لیا ہے اور اس مسئلے پر غور کے لئے اسے فوری طور پر ایجنڈے میں شامل کر لیا گیا ہے۔ یوں حکومت پاکستان کی کوششیں بالآخر بار�آور ثابت ہوئی ہیں اور توقع رکھنی چاہئے کہ عالمی ادارہ سخت الفاظ میں میانمار کی سرزنش کرے گا، اور اس سنگین مسئلے کے مستقل حل کے لئے مشرقی تیمور کی طرز پر روہنگیا علاقے کو آزاد ریاست کا درجہ دیا جائے گا۔آخر روہنگیا مسلمان کب تک بھارت، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ اور ملائیشیا کے پناہ گزین کیمپوں میں بھٹکتے رہیں گے، ان کی سرزمین ان پر کیوں تنگ کر دی گئی ہے۔ اس مہذب دور میں ان کے انسانی حقوق کیوں پامال کئے جا رہے ہیں۔ کیا جمہوریت پسند آنگ سان سو چی ان سوالوں پر غور کریں گی۔ وہ تاریخ میں ایک خونی بلا کے نام سے کیوں زندہ رہنا چاہتی ہیں۔