وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر66

Sep 14, 2017 | 02:50 PM

شاہد نذیر چودھری

1949ء کا آغاز ہوا تو رستم پاکستان دنگل کی تیاریاں ہونے لگیں۔تقسیم برصغیر کے بعد پاکستان میں کشتی کے سب سے بڑے اعزاز کا مقابلہ معمولی بات نہیں تھی۔ جونہی اس دنگل کے چرچے شروع ہوئے گوجرانوالہ میں ایک ہیجان برپا ہو گیا۔رحیم بخش سلطانی والا نے علی اعلان کہہ دیا تھا۔
’’رستم پاکستان کا دنگل میرا جو ناجیت کر دکھائے گا۔بھولو کو چاہئے کہ وہ خود یونس کو مانگے۔اس کام کے لیے گاماں جی کو گوجرانوالہ خود آنا پڑے گا۔‘‘
گاماں پہلوان نے یہ اعلان سنا تو کار میں سوار ہو کر گوجرانوالہ پہنچ گیا۔ گاماں کی آمد سے گوجرانوالہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ گاماں پہلوان سیدھا کھیالی والے اکھاڑے میں گیا۔رحیم بخش نے اپنے دیرینہ حریف کو دیکھا تو خوشی سے جھوم اٹھا اور بغلگیر ہو کر کہا۔
’’ست بسم اللہ!ست بسم اللہ آج سورج کہاں سے چڑھ آیا۔‘‘

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر65  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’بھئی رحیم بخش یاد کرے اور ہم نہ آئیں یہ کیسے ہو سکتا ہے۔‘‘گاماں پہلوان نے کہا۔’’لابھئی اپنے جونے کو۔۔۔تیری خواہش تو ہم رد نہیں کر سکتے رحیم بخشا۔‘‘
’’گاماں جی!آپ جیسا حریف تو نصیب والوں کو ملتا ہے۔ ویسے میں نے بھی اپنے اعلان کو سنا ہے۔ باتیں کرنے والوں کا کوئی علاج بھی تو نہیں۔ میں نے کچھ کہا اور سنانے والوں نے مرچ مصالحہ لگا کر کچھ اور کہہ دیاہے۔‘‘
گاماں جی نے رحیم بخش کی اس وضاحت پر قہقہہ لگایا اور خوشدلی سے کہا۔’’یار رحیم بخش!کہنے والوں نے جو بھی کہا اس کا نتیجہ تو اچھا ہی نکلا ہے۔ میں جو تمہارے دیدار کو آگیا ہوں۔ اب تو قبر میں پاؤں ہیں۔دل تجھ سے ملنے کی حسرت کرتا رہتا ہے۔چلو آخری ملاقاتوں کی کوئی نہ کوئی راہ تو نکلی۔‘‘
رحیم بخش نے جواباً کہا۔’’گاماں جی!دل تو اپنا بھی ملاقاتوں کے لیے مچلتا ہے مگر یہ شہراب کہیں نکلنے ہی نہیں دے رہا۔‘‘
گاماں رحیم بخش کے ساتھ اکھاڑے میں آیا تو یونس پہلوان دوڑتا ہوا گاماں جی کے پاس پہنچا اور ان کے گھٹنوں کو چھو کر کہا۔
’’بابا جی!آپ کا آنا نیک ثابت ہو گا۔ ایک آشیرباد آپ نے گونگا کو دی تھی اور ایک اب مجھے دیجئے۔‘‘
گاماں جی یونس پہلوان کی بات کی گہرائی میں پہنچ گئے اور مسکرا کر جواب دیا۔
’’بھئی جونے یار!سچی بات تو یہ ہے کہ اب ہماری دعاؤں میں اثر نہیں رہا۔‘‘
رحیم بخش گاماں کی رمز سے خوب واقف تھا۔ اس نے کہا۔
’’گاماں جی!آپ کچھ زیادہ ہی سیاسی ہو گئے ہیں۔ کیا خوب پہلو بچایا ہے۔‘‘
’’بھئی سچی بات تو یہ ہے۔‘‘گاماں جی نے اپنا تکیہ کلام دہرایا۔’’گونگے کو دعا دی تو اپنا بھائی مروا لیا۔ اب وہ غلطی کرنے سے تو رہا۔‘‘
گاماں جی کے طرز سخن نے تمام پہلوانوں کو شاد کر دیا۔ وہ شام تک وہاں ٹھہرے اور یونس پہلوان سے گروپ فوٹو بنوائی۔جاتے ہوئے وہ یونس پہلوان کو اپنی دعاؤں کا اثر دے کر چلے گئے۔
****
رستم پاکستان کا دنگل کراچی میں طے پایا۔یہ گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کا عہد حکومت تھا۔1949ء میں کراچی کو خوب سجایا گیا اور دنگل کے شایان شان کراچی پولو گراؤنڈ میں ایک عارضی اسٹیڈیم تیار کیا گیا۔ دنگل کے مہمان خصوصی گورنر جنرل تھے۔ منصف کے فرائض میجر جنرل اکبر خاں نے سرانجام دیئے۔ گاماں پہلوان،امام بخش، حمیدا پہلوان دنگل میں اپنے حمایتیوں سمیت موجود تھے۔ کشتی شروع ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا جب گاماں جی کے کان میں کسی نے کھسر پھسر کی۔ گاماں جی نے تعجب سے اجنبی کو دیکھا اور پھر اشتیاق بھری نظروں سے سامنے سے آنے والے ایک نوجوان کو دیکھا۔گاماں جی جھٹ سے اٹھے اور تیزی سے اس نوجوان کی طرف بڑھے۔
پھر یہ منظر ساری خلق نے دیکھا۔ گاماں جی اس نوجوان کو اپنے سے لپٹا کر ہچکیاں بھر کر رونے لگے۔اس کا منہ چومنے لگے ۔وہ بار بار اسے گلے سے لگا رہے تھے۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر امام بخش اور حمیدا پہلوان کے پاس لائے۔ بھولو اور دوسرے برادران بھی تجسس سے اس نوجوان کو دیکھنے لگے۔ وہ حیران تھے کہ یہ خوش نصیب کون ہے جس سے گاماں جی یوں وار فتگی سے مل رہے تھے۔
’’امام بخش دیکھ تو یہ کون ہے۔‘‘گاماں جی نے نوجوان کی طرف اشارہ کیا۔’’یہ اپنے پرنس اسلم ہیں۔عالی جناب نواب محی الدین کے صاحبزادے۔‘‘
امام بخش نے جونہی یہ سنا جھٹ سے نوجوان کو گلے لگا لیا اور کہا۔’’ہم شرمندہ ہیں کہ ان حالات میں آپ سے ملاقات ہو رہی ہے۔ ہمیں جب سے نواب صاحب کے پابند سلاسل ہونے کی خبر ملی ہے دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔‘‘
پرنس اسلم اس خانوادے کے لیے کوئی نیا تعارف نہ تھا۔ وہ ریاست جوناگڑھ کے قریب واقع ریاست مانا ورد کے نواب محی الدین کا صاحبزادہ تھا۔ اس کی خاندان گاماں سے بڑی عقیدت تھی۔1927ء میں جب نواب صاحب کے ہاں فرزند ہوا تو انہوں نے امام بخش اور گاماں جی کو تبرکات بھجوائے تھے۔ پھر جب نواب صاحب کو معلوم ہوا کہ انہی دنوں امام بخش کے ہاں بھی بیٹا ہوا ہے تو انہوں نے اشتیاق سے پوچھا۔
’’بچے کا نام کیا رکھا ہے؟‘‘
گاماں جی نے کہا۔’’حضور بچے کا نام اسلم رکھا ہے۔‘‘
’’تو پھر طے ہوا۔ہم بھی اپنے ولی عہد کا نام اسلم رکھیں گے۔‘‘
نواب صاحب کی اس شاہ زور خانوادے سے عقیدت و محبت ایک سمندر تھی۔ 1947ء کے بعد جب ہندوغاصبوں نے نواب صاحب کو قیدخانے میں ڈال کر ریاست مانا ورد کو جبری طور پر اپنے ساتھ ملا لیا تو پرنس اسلم اپنے اہل عیال کے ساتھ بڑی مشکل سے جان بچا کر کراچی آگیا۔ اس لٹے پٹے نواب کو کراچی چھاؤنی ریلوے اسٹیشن کے قریب ٹرام پٹے کے علاقے میں سرچھپانے کی جگہ ملی تھی۔ وہ عشرت تیاگ کر عسرت زدہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ آج پرنس اسلم کو جونہی معلوم ہوا کہ گاماں اور امام بخش کراچی آئے ہیں تو دل گرفتہ کو جیسے گونا سکون سا مل گیا۔وہ ان سے ملنے آگیا تو اپنے غم بھول سا گیا۔ بھولو اور اسلم اس سے بڑے رسان اور چاہت سے ملے۔
کشتی پانچ بجے شروع ہوئی۔ بھولو اور یونس حسب دستور مہمان خصوصی گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو سلامی دے کر واپس اکھاڑے میں پہنچ گئے۔ کشتی شروع ہوئی، دونوں شاہ زور ایک دوسرے کے اندر باہر سے مکمل طور پر واقف ہو چکے تھے۔بھولو نے یونس کو کمر سے جکڑ لیا تھا اور پھر دونوں ہاتھ اس کے جانگئے میں ڈال کر پٹھی کرائی۔ یونس نیچے گرا مگر بھولو نے جانگیہ نہ چھوڑا۔ یونس نے فصیل جاں کا زور لگا کر نیچے سے نکلنا چاہا تو جانگئے کا ازار بند ٹوٹ گیا۔ عجیب واہیات صورت حال پیدا ہو گئی۔ منصف نے مداخلت کی اور یونس کو نیا جانگیہ پہننے کی اجازت دی۔ پانچ منٹ کے وقفے کے بعد وہ دوبارہ اکھاڑے میں آیا اور دستور کے مطابق اسے بھولو کے نیچے رکھا گیا۔ دونوں میں داؤ پیچ کا تبادلہ ہوا اور بالآخر بھولو نے یونس کو قید میں ڈال کر چت کر دیا۔
بھولو رستم پاکستان کا ٹائٹل جیت گیا۔جیتنے والے کے لیے چاندی کا گرز انعام رکھا گیا تھا۔ بھولو کو جب معلوم ہوا تو اس نے گرز لینے سے انکار کر دیا۔ بھولو کے انکار سے انتظامیہ میں کھلبلی مچ گئی۔ خواجہ ناظم الدین حیران تھے کہ آخر بھولو نے گرز لینے سے انکار کیوں کیا ہے۔ انہوں نے بھولو کو بلایا اور کہا۔
’’پہلوان جی کیا ہوا۔سنا ہے آپ رستم پاکستان کا گرز نہیں لینا چاہتے۔‘‘
بھولو نے بے باکی سے کہا۔’’سرکار بہادر!مجھے رستم پاکستان کا اعزاز لینے سے انکار تو نہیں مگر میں چاندی اور پیتل کا بنا ہوا گرز نہیں لوں گا۔‘‘
’’اس کی وجہ!‘‘خواجہ ناظم الدین نے دریافت کیا۔
’’یہ اعزاز کے منافی ہے سرکار!‘‘بھولو نے کہا۔’’دستور کے مطابق گرز سونے کا ہونا چاہئے۔حالانکہ ہمیں پہلے یہی بتایا گیا تھا کہ گرز سونے کا ہو گا۔‘‘
بھولو کی حقائق کشائی سے انتظامیہ کی بدنیتی عیاں ہو گئی۔ خواجہ ناظم الدین نے فہم و فراست کا ثبوت دیا اور کہا۔
’’اس دھاندلی کا تو مجھے معلوم نہیں۔میں ان سے پوچھتا ہوں کہ ایسا کیوں ہوا۔آپ ایسا کریں یہ گرز تو رکھ لیں ،میں انشاء اللہ چند روز بعد اس کی تلافی کا حکم جاری کر دوں گا۔‘‘
بھولو نے اس یقین دہانی کے بعد گرز لے لیا۔ اس کا سب سے بڑا قلق اور شرمندگی گاماں پہلوان کو تھی۔ ان کے پہلو میں ایک نواب بیٹھا تھا جس کے آباؤ اجداد شاہ زوروں کی قدروقیمت کے مطابق انعامات سے نوازتے تھے۔ انہیں افسوس تھا کہ پرنس اسلم اس وقت کیا سوچ رہا ہو گا۔
بھولو کی اس فتح کے بعد انہیں حکومت کی طرف سے کراچی میں نمک کے ٹھیکے ملے اور ٹرانسپورٹ کمپنی چلانے کا اجازت نامہ مل گیا مگر سونے کا گرز نہ ملنا تھا سو نہ ملا۔( جاری ہے )

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر67 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں