’’محمد شریف یہ سب کیا ہے؟ یہ نوجوان۔۔۔‘‘
’’خان صاحب! بھائی عبدالودود حضرت صاحب کے بہت ہونہار شاگرد اور مرید ہیں۔ اس عمر میں اللہ کی رحمت اور ریاضت و عبادت کے باعث انہوں نے وہ مقام حاصل کر لیا ہے جو کسی کسی خوش نصیب کوملتا ہے۔ زبردست روحانی قوتوں کے مالک ہیں یہ صاحب۔ انشاء اللہ تعالیٰ بہت جلد ہماری مشکلات کا خاتمہ ہو جائے گا‘‘ اسنے بڑے خلیق لہجے میں کہا۔
’’کیا صائمہ کی شکل دوبارہ اپنی اصلی حالت میں آجائے گی‘‘ جو فکر مجھے کل سے کھائے جا رہی تھی میں نے اس کا ذکر محمد شریف سے کیا۔
’’جناب! معذرت چاہتا ہوں میں آپ کی بات کا مطلب نہیں سمجھ سکا۔‘‘
’’میں نے کل تمہیں بتایا تھا نا ، جب میں گھر پہنچا تو وہ بدبخت صائمہ کے جسم پر قابض تھا۔ اور صائمہ کی شکل بہت خوفناک ہو چکی تھی‘‘ میں نے اسے یاد دلایا۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر88 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ہاں جی بتایا تھا۔ لیکن خان بھائی آپ اس بارے میں بالکل فکر مند نہ ہوں یہ سب بصری دھوکہ ہوتا تھا۔ جنات کی یہ مجال نہیں کہ وہ انسان کی شکل و شباہت میں تبدیلی پیدا کرنے کی قدرت رکھتے ہوں۔ وہ محض ہم انسانوں کو خوفزدہ کرنے کی خاطر ہماری نظر کو دھوکہ دیتے ہیں۔ جو کچھ ہمیں نظر آرہا ہوتا ہے ایسا قطعاً نہیں ہوتا جنات کو کچھ معاملات میں انسان پر فوقیت حاصل ہے وہ اس سے کام لے کر خوفزدہ کرتے ہیں۔‘‘
میرے سر پر سے جیسے پہاڑ ہٹ گیا۔ شکر ہے اللہ تعالیٰ کا کہ یہ سب نظری دھوکہ ہوتا ہے اوراللہ پاک نے ان کو اس ظلم کی طاقت نہیں دی ورنہ تو انسان بہت نقصان میں رہتا۔ میں نے ایک طویل سانس لی۔
’’توکیا وہ سب دھوکہ تھا؟‘‘
’’ہاں جناب وہ محض نظر بندی ہوتی ہے وہ جو کچھ چاہتے ہیں ہمیں وہی نظر آتا ہے۔ جیسا کہ بعض شعبدہ باز ہماری نظر بندی کرکے ہمیں وہ کچھ دکھاتے ہیں جس پر عقل اعتبار نہیں کرتی۔ مثلاً وہ کاغذ کو نوٹ کی شکل میں لے آتے ہیں۔ خشک ٹہنیوں کی ایک جھڑی بنا کر اس میں سے آم پید اکرکے ہمیں دکھا دیتے ہیں۔‘‘اسنے تفصیل سے بتایا۔
ہم کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ اس معاملے میں محمد شریف کی معلومات کافی زیادہ تھیں۔ حالانکہ میرا واسطہ ایک عرصے سے جنات سے تھا لیکن میں ان کے بارے میں کچھ نہ جانتا تھا۔ سچ کہتے ہیں اللہ والے وسیع علم کے مالک ہوتے ہیں جو انہیں ان کی نیکی اور پاکبازی کے باعث اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔ میں نے محمد شریف کو ملنگ کے بارے میں بتایا جسے سن کر اس نے اطمینان کا اظہار کیا کہ بچوں کی حفاظت کی خاطر ملنگ نے یہ سب کچھ کیا تھا۔
’’بھائی محمد شریف! اگر زحمت نہ ہو تو اندر تشریف لے آئیے لیکن بصد معذرت آپ اکیلے ہی آئیے گا‘‘ اندر سے عبدالودودکی آواز آئی۔ محمد شریف نے معذرت خواہانہ انداز سے میری طرف دیکھا۔
’’کوئی بات نہیں محمد شریف تم چلے جاؤ‘‘ میں نے مسکرا کر اجازت دی۔ شکر یہ کہہ کر وہ اندر چلا گیا۔ میں ٹہلتا ہوا گیٹ کے پاس آگیا۔
’’پریم!‘‘ اچانک میرے کان میں رادھا کی سرگوشی ابھری۔ میں نے چونک کر دیکھا۔
’’پریم ! میں کالی داس کے استھان پر جارہی ہوں تم اپنے متروں کو لے کر ترنت وہاں پہنچو۔ سارے پجاری کسی جاپ میں مگن ہیں اور وشنو داس کہیں جا چکا ہے۔‘‘ رادھا نے جلدی سے کہا۔
’’لیکن رادھا! مجھے تو اس جگہ کے بارے میں معلوم ہی نہیں میں کیسے آؤں گا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’تمرے متر جانتے ہیں‘‘ آواز آئی۔
’’میں جا رہی ہوں ترنت وہاں پہنچو‘‘ اس کے ساتھ ہی آواز آنا بند ہوگئی۔ اتنے میں محمد شریف باہر آیا۔
’’خان بھائی! جلدی سے چلیے ہمیں ایک جگہ جانا ہے‘‘ وہ گیٹ کی طرف جاتے ہوئے بولا۔ لیکن وہ بھائی جو اندر۔۔۔‘‘
’’وہ جا چکے ہیں اور ہمارے لئے کہا ہے کہ ہم بھی وہاں پہنچ جائیں‘‘ محمد شریف میری بات کاٹ کر بولا۔ میں نے گیٹ کو تالا لگایا اور ہم گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔
’’کس طرف جانا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ محمد شریف آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔
’’دائیں طرف موڑ لیجئے اور اب آپ نے انہیں پوچھنا میں خود ہی بتاتا چلوں گا‘‘ وہ بغیر آنکھیں کھولے بولا۔ میں اس کے کہنے کے مطابق چلتا رہا۔ وہ گاہے بگاہے مجھے بتا دیتا کہ گاڑی کس طرف موڑنا ہے۔ تھوڑی دیر بعد شہر پیچھے رہ گیا اور ہم بڑی سڑک پر آگئے۔تقریباً ایک گھنٹے کی ڈرائیور کے بعد ہم ایک گاؤں پہنچ گئے۔ گاؤں کیا تھا چند کچے گھر بنے ہوئے تھے رات کی تاریکی میں گاڑی میں ہیڈ لائٹ میں جو کچھ نظر آتا میں اس کی روشنی میں دیکھتا جا رہا تھا۔ اس کے بعد اچانک کھنڈرات شروع ہوگئے۔ شاید کبھی یہاں شہر آباد ہوگا کیونکہ کھنڈرات کافی وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے تھے۔ ہم کھنڈرات کے درمیان کچے راستوں پر چلتے رہے۔ محمد شریف مجھے باقاعدہ راستہ سمجھا رہا تھا۔ اسکی آنکھیں مسلسل بندتھیں۔
’’بس یہاں گاڑی روک دیجئے‘‘ ایک بڑی عمارت کے کھنڈر کے پاس پہنچ کر اس نے آنکھیں کھول دیں۔ میں نے بریک پر پاؤں رکھ دیا۔ گاڑی ایک بلند و بالا عمارت کے کھنڈر کے پاس رک گئی۔ کبھی یہ عمارت واقعی شاندارہوگی لیکن رات کے اندھیرے میں اس کے مہیب کھنڈر بے حد ڈرؤانے لگ رہے تھے۔ عمارت کا بیرونی گیٹ سالخوردہ لکڑی کا تھا جو امتداد زمانہ کے ہاتھوں بری طرح ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔ میں نے گاڑی کی لائٹ جلتی رہنے دی۔ محمد شریف نے اپنے تھیلے سے وہ چھوٹی الائچی کے دانے نکال کرایک مجھے دیا اور دوسرا اپنے منہ میں رکھ لیا۔
’’خان بھائی! اسے منہ میں رکھ لیجئے چبائے گا نہیں‘‘ اس نے مجھے ہدایت کی اور نیچے اترنے کے لیے کہا اور تھیلے سے ایک طاقتور اور بہت بڑی ٹارچ نکال کر جلالی۔
’’اسے مضبوطی سے تھام لیجئے کسی صورت یہ آپ کے ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔‘‘ اس نے ٹارچ میری طرف بڑھائی۔ میں نے اسے پکڑلیا۔ ہم گاڑی سے نکل آئے۔ میں نے اسے لاک کر دیا۔ محمد شریف نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر اندر کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔
’’خان بھائی! کیا آپ کو سورۃ الناس زبانی یاد ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ہاں مجھے آخری سپارے کی کافی سارے صورتیں یاد ہیں‘‘ میں نے بتایا۔
’’الحمد اللہ۔ اس کا ورد شروع کر دیئے اور بولیئے گا نہیں‘‘ اس نے دوسری ہدایت دی۔ میں نے اس کی ہدایت کے مطابق عمل کیا۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ میں دل ہی دل میں اپنے معبود برحق سے صائمہ کی خیریت اور اپنی کامیابی کی دعا مانگ رہا تھا ۔ جیسے ہی ہم ٹوٹا ہوا پھاٹک پار کرکے اندر پہنچے۔ تیز آندھی چلنا شروع ہوگئی مٹی اور گردوغبار سے کچھ نظر آنا مشکل ہوگیا۔ ہماری آنکھوں میں مٹی گھس گئی تھی۔ میں نے جلدی سے آنکھیں بند کر لیں۔ ہوا کے تیز جھکڑ ہمیں ساتھ اڑانے کی کوشش میں تھے۔ آندھی اس قدر تیز تھی کہ قدم اکھڑتے محسوس ہو رہے تھے۔ محمد شریف نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔
ہمارے کپڑے ہوا میں اڑنے لگے۔ جیسے ہی پڑھنے کے لیے منہ کھولتا اس میں مٹی بھر جاتی۔ آخرمیں نے ہونٹ سختی سے بھینچ کر دل ہی دل میں پڑھنا شروع کر دیا۔ہوا کی شور سے کان پڑی آواز نہ سنائی دے رہی تھی۔ پھر یکدم جیسے آندھی شروع ہوئی تھی ختم ہوگئی۔ گردوغبار بیٹھ گیا اور فضا صاف ہوگئی۔ میں نے تھوک کر منہ میں آئی مٹی کو نکالا اور قمیص کے دامن سے منہ کو اچھی طرح صاف کرلیا۔ محمد شریف نے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھاما ہو اتھا۔ اچانک سارا کھنڈر تیز سرخ روشنی میں نہا گیا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے قریب ہی کہیں آگ لگی ہو۔ہم ایک وسیع دلان میں کھڑے تھے۔ سامنے کی طرف ملبے کے بڑے بڑے ڈھیر تھے۔ آدھی آدھی دیواریں نظر آرہی تھیں۔ کبھی یہ کمرے رہے ہوں گے اب کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے تھے۔ میں ابھی گردوپیش کا منظر دیکھ ہی رہا تھاکہ محمد شریف نے میرا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف دوڑ لگا دی۔ میں اپنے خیال میں تھا جھٹکاکھا کر اسکے پیچھے گھسٹتا چلا گیا۔ اچانک میری نظر مٹی کے ان تو دوں پر پڑی جو سامنے کسی ٹیلے کی طرح نظر آرہے تھے۔ تودے تیزی سے ہماری طرف لڑھک رہے تھے۔ اگر ایک لمحے کی تاخیر ہو جاتی تو ہم دونوں ان تودوں کے نیچے کچلے جاتے۔ خوفناک آوازیں نکالتے تو دے ہم سے چند گز کے فاصلے پر گزر گئے۔ محمد شریف مسلسل کچھ پڑھ رہا تھا۔ میں نے بھی سورۃ الناس کا وردجاری رکھا۔
’’بھاگ جاؤ۔۔۔اسی وقت یہاں سے بھاگ جاؤ ورنہ تمہاری جان کی خیر نہیں‘‘ اچانک ایک گرجدار آواز گونجی۔اس کی گرج سے کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہوئے۔ آواز اتنی بلندا ور خوفناک تھی کہ دل دہل رہا تھا۔ محمد شریف کسی بات کی پرواہ کیے بغیر میرا ہاتھ پکڑے مجھے اپنے پیچھے گھسیٹ رہا تھا۔ اگر وہ میرے ساتھ نہ ہوتا تو میرے لئے آگے بڑھنا ممکن نہ تھا۔ وسیع دالان پار کرکے ہم ایک ٹوٹے ہوئے کمرے میں داخل ہوگئے۔ اس کمرے کی چھت سلامت تھی۔ اندر ملگجا اندھیرا تھا۔ اچانک بہت سے چمگاڈریں ہم پر حملہ آور ہوئیں۔اندھیرے میں ان کی آنکھیں ننھے ننھے جگنوؤں کی طرح چمک رہی تھیں۔ ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ اتنی زور دار تھی کہ میں لرز گیا۔
محمد شریف نے کچھ پڑھ کر انکی طرف پھونک دیا۔ وہ ہمارے سروں پر منڈلانے لگیں۔ بلا شبہ ان کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ کمرے کا فرش ان کی بیٹوں سے بھرا ہوا تھا۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ فرش ہی بیٹوں کا بنا ہوا تھا تو بے جا نہ ہوگا۔ کمرے میں ایسی بو پھیلی ہوئی تھی جو پرانی عمارتوں میں ہوتی ہے۔ ہر طرف دھول جمی ہوئی تھی۔
محمد شریف نے کچھ پڑھ کر پھونکا کمرے میں دودھیا روشنی پھیل گئی۔ سامنے والی دیوار میں ایک دروازہ بنا ہوا تھا جس کاایک پٹ بند تھا جبکہ دوسرا ٹوٹ کر جھول رہا تھا۔ محمد شریف میرا ہاتھ تھامے اس کے نزدیک پہنچ گیا۔کمرے کے دروازے پر مکڑی نے اتنے جالے بن رکھے تھے کہ گمان ہوتا جیسے دروازے پر مہین ململ کا پردہ پڑا ہو اہے۔
شریف ایک ہاتھ سے جالے ہٹاتا میرا ہاتھ تھامے اندر داخل ہوگیا۔ دوسری جانب ایک طویل راہداری تھی۔ یہاں بھی جا بجا چھت سے جالے لٹک رہے تھے جو چلنے سے ہمارے چہرے پر لگتے ہم ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے دوسرے ہاتھ سے جالے ہٹاتے اندر بڑھتے گئے۔ شیطان کی آنت کی طرح طویل راہداری ختم ہو نے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔
یہاں سکوت مرگ طاری تھا۔ اس گرجدار آواز کے بعد ہر طرف خاموشی چھا گئی تھی۔ بلکہ اب تو ایسی خاموشی طاری تھی جیسے دنیا ختم ہوگئی ہو۔ آگے جا کر اندھیرا گہرا ہوگیا۔ محمد شریف نے دوبارہ وہی عمل دہرایا جس سے ایک بار پھر دودھیا روشنی پھیل گئی۔ وہ میرا تھامے آگے بڑھتا رہا۔ زمین پرگرد کی تہیں اور پرندوں کی بیٹیں جمی ہوئی تھیں۔ہمارے چلنے سے مٹی اڑ کر منہ میں آرہی تھی۔ راہداری گرد سے بھر گئی۔ اچانک مجھے کھانسی محسوس ہوئی کھانسنے کی وجہ سے میرا دم ٹوٹ گیا۔(جاری ہے )
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر90 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں