ایٹمی جنگ کی تیاریاں
شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیان اختلافات کی موجودگی کوئی نئی بات نہیں لیکن پچھلے چند ہفتوں میں جس طرح دونوں ممالک کے بیانات میں تلخی در آئی ہے۔ اِس سے علاقے کے ممالک میں خصوصی طور پر اور دُنیا کے بقیہ ممالک میں عمومی طور پر تشویش پائی جاتی ہے۔ اِس تشویش کی وجہ ایٹمی بم کا استعمال ہے۔ شمالی کوریا نیو کلئیر ٹیکنالوجی حاصل کرنے پر مُصر ہے۔ وُہ اپنے علاقے میں اپنی فوجی بالا دستی قایم رکھنا چاہتا ہے۔ امریکہ نے جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد کوریاکو دو حصوں میں منقسم کر دیا تھا۔ جنوبی کوریا کی حفاظت کے لئے امریکہ نے ستر ہزار فو جی جنوبی کوریا میں تعنیات کر رکھے ہیں۔ علاقے میں امریکی فوج کی موجودگی سے شمالی کوریا اپنی فوجی سر گرمیوں کو جاری نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی وُہ جنوبی کوریا پر حملہ کر سکتا ہے۔ جنوبی کوریا کو شمالی کوریاسے بچانے کے بہانے امریکہ نے ا یشیامیں اپنی فوج تعنیات کر رکھی ہے۔ وُہ اپنی فوج کو علاقے کے کسی بھی حصے میں آسانی کے ساتھ دوسرے مُلکوں کے خلاف ضرورت کے مُطابق استعمال کر سکتا ہے۔ یہ صورتِ حال شمالی کوریا کے لئے قابل قبول نہیں ۔ لہذا مریکہ کا مُقابلہ کرنے کے لئے شمالی کوریا کی قیادت نے نیو کلئیر ٹیکنالوجی میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔
ا طلاعات کے مُطابق، شمالی کوریا کی قیادت نے ایران کی مدد سے ایٹمی ٹیکنالوجی میں خا طر خواہ ترقی حاصل کر لی ہے۔ اب شمالی کوریااپنے میز ائیلوں سے امریکہ کے تمام حصوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ جس سے امریکہ کو بھی پریشانی لا حق ہے۔ امریکہ کی کو شش ہے کہ شمالی کوریا کو اِسکے خطر ناک عز ا ئم سے باز رکھنے کے لئے اقتصادی پابندیاں لگا دی جائیں تاکہ شمالی کوریا اقتصادی طور پر اپنے نیو کلئیر پروگرام کو جاری رکھنے کے قابل نہ ہو سکے۔ جنوبی کوریا اور جا پان جیسے ممالک جو کہ امریکہ کے علاقے میں حلیف ہیں ،وُہ شمالی کوریا کے عزائم سے خائف ہیں۔ خاص کر جاپان ایٹم بم کے نُقصانات کو پُوری طرح جھیل چُکا ہے۔ لہذا اُسکی کوشش ہے کہ خطے کو ایٹمی جنگ سے باز رکھا جائے۔ امریکہ اور اُسکے حلیف ممالک نے شمالی کو ریا کے ارادوں کو مات دینے کے لئے اقتصادی پابندیوں کو ہمشیہ ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کا ہر فیصلہ اتفاق سے متنازعہ بن جاتا ہے۔ امریکی انتظامیہ،پنٹاگان اور امریکی وزارتِ خارجہ اِس کو شش میں مصروف ہیں کہ شمالی کوریا پر سیاسی اور اقتصادی دباﺅ ڈال کر اُسکو مجبور کر دیا جائے کہ وُہ مذ اکرات کرنے پر تیار ہو جائے۔ لیکن امریکی صدر کے حالیہ ٹویٹ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکی صدر شمالی کوریا کی ہٹ دھرمی سے خاصے ناراض ہیں۔ وُہ شمالی کوریا کو اِس کے گُستاخانہ روئے کی سز ا دینا چا ہتے ہیں۔ وُہ شمالی کوریا کو سزا دے کر ایران کو بھی اشارہ دینے چاہتے ہیں کہ وُہ ایران سے نمٹنے کے لئے بھی اپنے ذرائع استعمال کر سکتے ہیں۔ عالمی نیو کلئیر ایجنسی کے ڈائریکٹر نے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ اُنکے ادارے کو شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام پر تشویش ہے۔ شمالی کوریا کے تو سیع پسندانہ روئیے سے علاقے میں ایٹمی جنگ چھڑنے کا خطرہ موجود ہے۔ اِس بیان سے امریکی انتظامیہ کو موقعہ مِل گیا کہ وُہ اقوام ِمتحدہ کی سلامتی کو نسل میں شمالی کوریا کی قیادت پر مزید اقتصادی پابندیاں عائد کر دے۔ تاکہ وُہ نیو کلئیر پروگرام کو ترک کر دیں۔ لہذا ا مریکہ نے سلامتی کو نسل میں مزید پابندیاں لگانے کی قرار داد پیش کی ہے جس کو بغیر کسی اعتراض کے تمام کے تمام اراکین نے قبول کر لیا ہے۔
قرارداد کی تفصیل کے مُطابق مذکورہ قرار داد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ شمالی کوریا کی واضح خلاف ورزی کے خلاف کارروائی کے طور پر اِسکی تیل کی درآمدات پر پابندی لگائی جائے۔ مزید براں، اِسکی ٹیکسٹائل کی برآمدات پر پابندی عائد کی جائے۔ امریکہ نے بنیادی طور پر اپنی قرارداد میں شمالی کوریا کے صدر کے اثاثہ جات پر بھی مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ امریکہ کی خوا ہش تھی کہ تیل کی درآمد پر بھی کُلی طور پر پابندی عائد کر دی جائے لیکن سلامتی کونسل کے تمام اراکین میںاتفاق رائے حاصل کرنے کے لئے امریکہ نے اپنے مطالبات میں نرمی پیدا کر دی ہے۔ جس سے سلامتی کونسل کے اراکین نے اتفاق کرتے ہوئے مشترکہ طور پر قبول کر لیا ہے۔
اقوامِ متحدہ میں شمالی کوریا کے سفیر نے اِس معاملے میں اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اور اُسکے حلیفوں کو اِس قرار داد کے پاس ہو جانے پر خوش نہیں ہوناچاہئے۔ کیونکہ شمالی کوریا امریکہ کو ایسا درد دے گا جو امر یکہ نے آج تک نہیں سہا ۔رُوس اور چین نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کو اقتصادی پابندیوں کو اور سلامتی کونسل کی حالیہ قرار داد کو آسانی سے نہیں لینا چاہئے۔ جب ہم نے اِس قرار داد کی حمایت کی ہے تو ہم چا ہیں گے کہ اِس قرارداد پر عمل بھی کیا جائے۔
موجودہ صورتِ حال سے امریکہ اور جاپان خاص طور پر تشویش کا شکار ہیں۔ دونوں ممالک علاقے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں لیکن شمالی کوریا اپنے عزایم کو ہر حال میں پُورا کرنا چاہتا ہے۔ اُسکا غیر سنجیدہ اور باغیانہ طرزِ عمل تمام ارا کینِ اقوامِ متحدہ کے لئے تشویش کا با عث ہے۔ خاص طور پر جاپان اِس صورت حال سے خاصہ پریشان دکھائی دیتاہے، کیونکہ جاپان دوسری جنگ ِ عظیم میں ا یٹم بم کی تباہ کاری دیکھ چُکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جاپان نے آج تک ایٹم بم بنانے میں کبھی دلچسپی ظاہر نہیں کی اور اَب بھی وُہ علاقے کو ایٹم بم کے مُضر اثرات سے پاک دیکھنے کا خواہاں ہے۔لیکن اگر صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے صدُور کے بیانات پر نظر ڈالی جائے تولگتا ہے کہ جنگ کبھی بھی چھڑسکتی ہے۔ جس سے جنوبی کوریاکے لا تعداد شہری لقمہءاجل بن سکتے ہیں۔ اتفاق سے صدر ٹرمپ جنوبی کوریا کی قیادت سے بھی اِن دِنوں زیادہ خُوش نظر نہیں آتے اور وُہ آنے والے دنوں میں جنوبی کوریا اور امریکہ کے درمیاں موجود فری ٹرید اگریمنٹ کو بھی ختم کر سکتے ہیں۔ جنوبی کوریا کے عوام بھی صدر ٹرمپ کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے کیونکہ اُنکے نزدیک صدر ٹرمپ مزاج کے اعتبار سے سنجیدہ نہیں ہیں۔ صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے صدر کِم کے غیر سنجیدہ مزاجوں کی بدولت کُچھ بھی ہوسکتا ہے۔تاہم اقتصادی پابندیوں کے لگنے سے شمالی کوریاکی قیادت با لکُل خائف نہیں ہے جو کہ دُنیا کے تمام ممالک کے لئے با عثِ تشویش ہے۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔