نئے ٹیکس صاحبِ ثروت لوگوں پر براہِ راست لگائیں
تحریک انصاف کی حکومت نے مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت کے پیش کردہ مالی سال 2018-19ء کے بجٹ پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت بجٹ کے اس حصے میں ترمیم کی جائے گی جس میں تنخواہ دار ٹیکس گزاروں کو ریلیف دیا گیا تھا اور بارہ لاکھ روپے تک آمدنی کو ٹیکس سے مستثنیٰ کر دیا گیا تھا جب کہ موجودہ حکومت 4لاکھ سے اوپر ایک ہزار اور 8لاکھ سے اوپر آمدنی پر دو ہزار ٹیکس لگانا چاہتی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 400ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے، بجلی مہنگی کی جائے گی اور ترقیاتی اخراجات میں بھی 400ارب کی کٹوتی کی جائے گی۔ درآمدی اشیاء پر ایک فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لگائے جانے کا امکان ہے، اقتصادی شرح نمو کا ہدف بجٹ میں 6.2فیصد رکھا گیا تھا جو اب کم کرکے ساڑھے پانچ فیصد کر دیا جائے گا۔ ساڑھے چار سو غیر منظور شدہ ترقیاتی سکیمیں ختم کر دی جائیں گی۔ بجٹ میں غیر منقولہ اثاثوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ سگریٹ سمیت کئی اشیاء پر ٹیکس بڑھایا جائے گا۔ برآمدات میں اضافے کے لئے برآمدی پیکیج بھی پیش کیا جائے گا۔
نئی حکومت کا موقف ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے جو بجٹ پیش کیا تھا وہ انتخابی مقاصد کو مدنظر رکھ کر کیا گیا تھا، اس طرح عوام کو سہولتیں دینے کا مقصد بظاہر یہ تھا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کو ایک بار پھر برسراقتدار لائیں۔ فرض کریں اگر تحریک انصاف کے خیال میں ایسا ہی تھا تو حکومت نے جو ٹیکس کم کئے تھے کیا عوام یہ چاہتے تھے کہ یہ ٹیکس بڑھائے جائیں؟ اس لئے موجودہ حکومت اپنے مینڈیٹ کی روشنی میں ٹیکسوں میں اضافہ کرنا چاہتی ہے حالانکہ اس وقت تنخواہ دار طبقے پر مہنگائی کا شدید دباؤ ہے، تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ملازمین کی قوتِ خرید میں زبردست کمی کر دی ہے اور سرکاری ملازمین کو بجٹ میں جو دس فیصد اضافہ دیا گیا تھا وہ غیر موثرہو کررہ گیا ہے کیونکہ مہنگائی چھلانگیں مارتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے اور تنخواہوں میں اضافہ محدود ہے ایسی صورت میں ٹیکس ریلیف ملازمین کے لئے ایک نعمت سے کم نہ تھا اب اگر تحریک انصاف کی حکومت یہ ریلیف بھی واپس لے گی تو اسے ملازمین کی نکتہ چینی کا ہدف بننا پڑے گا۔ اس پہلو پر سوچ بچار کرلی جائے تو اچھا ہے تاکہ بعد میں کوئی نیا یوٹرن نہ لینا پڑے۔
ایسی درآمدی اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ جو عوام کی بنیادی ضرورت نہیں ہیں اور تعیشات کے زمرے میں آتی ہیں ان سے اگر بچت ہوتی ہے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔ ہم ان کالموں میں عرض کر چکے ہیں کہ بہت سے شعبے ایسے ہیں جہاں بڑی رقم کی بچت زیادہ اچھے طریقے سے کی جا سکتی ہے اور اس پر عوام الناس کو اعتراض بھی نہیں ہوگا لیکن حکومت کی اپنی ترجیحات ہیں وہ اگر وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں فروخت کرکے اپنے وسائل بڑھانا چاہتی ہے تو اس کی مرضی ہے لیکن ٹیکس نیٹ کو منطقی اصولوں کے تحت وسیع کئے بغیر طویل المدت مقاصد حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ ٹیکس کا بنیادی اصول یہ ہونا چاہیے کہ امرا سے وصول کیا جائے اور غریبوں پر خرچ کیا جائے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو حکومت بھی نکتہ چینی سے بچی رہے گی اور مطلوبہ مقاصد بھی حاصل ہو جائیں گے۔ بالواسطہ ٹیکسوں کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے اور براہ راست ٹیکسوں میں معقول اضافہ کرکے اگر ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان یہ دعویٰ بار بار کرتے رہے ہیں کہ اگر اوپر دیانتدار آدمی بیٹھا ہو تو لوگ خوشی سے ٹیکس دیں گے اب چونکہ یہ شرط پوری ہو گئی ہے اس لئے انہیں اتنے براہِ راست ٹیکس لگا دینے چاہئیں کہ ٹیکسوں کا موجودہ ہدف دو یا تین گنا بڑھ جائے لیکن ترمیم شدہ بجٹ میں رکھی گئی شرح نمو کا ہدف تو کم کر دیا گیا ہے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف فی الحال نہیں بڑھایا گیا حالانکہ اشیائے تعیش پر ٹیکس لگا کر ٹیکسوں کی آمدنی میں اضافہ ممکن ہے لیکن ہدف یہ ہونا چاہیے کہ غریب پر کم از کم ٹیکس لگے ۔
وفاقی حکومت کے ٹیکس جمع کرنے کے لئے ایک بڑا وسیع و عریض نیٹ ورک موجود ہے جو ایف بی آر کہلاتا ہے اس کے ہوتے ہوئے بجلی کے بلوں کے ذریعے ٹیکس جمع کرنے کی منطق سمجھ میں نہیں آتی، لیکن ان بلوں میں بھی کئی اقسام کے ٹیکس شامل کر دیئے گئے ہیں ایک اندازے کے مطابق ایک خاص شرح کے بعد بلوں کی رقم میں 30فیصد سے زیادہ ٹیکس شامل ہوتے ہیں۔ یہ ٹیکس متعلقہ ادارے اس لئے جمع نہیں کرتے کہ ایسی صورت میں شاید کم ٹیکس ملنے کی امید ہوتی ہے لیکن بجلی کا بل تو ہر کس و ناکس نے جمع کرانا ہوتا ہے اس لئے وہ بہرحال بل کے ساتھ جمع کرانا پڑتا ہے، اس طرح حکومت نے بجلی کمپنیوں کو بھی ٹیکس جمع کرنے والے ادارے کا کردار سونپ دیا ہے۔ یہ معاملہ کئی بار اعلیٰ عدالتوں میں بھی جا چکا ہے لیکن اس کا حتمی نتیجہ کچھ نہیں نکلا، حکومت اگر ٹیکس نیٹ وسیع کرنا چاہتی ہے تو ضرور کرے، لیکن جو ادارہ جس کام پر مامور ہے اسے وہی کام کرنا چاہیے۔ بجلی کے بلوں کے ذریعے ٹیکس وصولی کا سلسلہ ختم کرکے اسے متعلقہ محکموں کے ذریعے جمع کرنا چاہیے۔یہ اس لئے ضروری ہے کہ نئی حکومت امانت و دیانت کو فروغ دینا چاہتی اور کرپشن کے خاتمے کی داعی ہے جہاں جہاں کرپشن موجود ہے اس کی نشاندہی کرکے اس کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔ چونکہ ایف بی آر میں یہ چلن موجود ہے کہ لوگوں کو زیادہ ٹیکس کے نوٹس بھیج کر اہل کار ان سے سودے بازی کرتے ہیں اور ٹیکس وصولی میں سے اپنا حصہ وصول کرکے ٹیکس گزار کو بھی فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں یہ سلسلہ اب ختم ہو جانا چاہیے لیکن یہ چونکہ مشکل راستہ ہے اس لئے لگتا ہے فی الحال اس جانب توجہ نہیں دی گئی اور آسان راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔
اگرچہ حکومت کے ماہرین بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ بیل آؤٹ پیکیج کے لئے آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے اس کے باوجود لگتا یہ ہے کہ حکومتی دماغوں میں کسی نہ کسی جگہ یہ سوچ موجود ہے کہ آئی ایم ایف سے پیکیج لے ہی لیا جائے اور اس کا اظہار بالواسطہ طور پر بعض وزراء کے بیانات سے ہوتا ہے۔ اگر حکومت آئی ایم ایف سے پیکیج لینا چاہتی ہے تو سیدھے سبھاؤ فیصلہ کر لیاجائے، خواہ مخواہ بھول بھلیوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نئے ٹیکس لگانے میں اگر غریب طبقے کا خیال نہ رکھا گیا تو یہ حکومت کا ایک غیر مقبول فیصلہ ہوگا جس کے نتائج دور رس ہوں گے۔ پہلے ہی بجٹ میں اس طرح کا تجربہ نہ ہی کیا جائے تو اچھا ہے لیکن ائر کنڈیشنڈ کمروں میں ٹائی سوٹ پہن کر بیٹھے ہوئے معیشت دانوں کو ان لوگوں کے مسائل کا کیا علم ہوسکتا ہے جو چلچلاتی دھوپ میں پسینہ بہا کر بمشکل ایک وقت کی روٹی کما پاتے ہیں، وہ ٹیکس دیں تو بچوں کی فیس نہیں دے سکتے، اور فیسیں دیں تو ٹیکس کہاں سے دیں؟ ان سے بھی کسی نہ کسی انداز میں حکومت بالواسطہ ٹیکس نچوڑ لینا چاہتی ہے۔تو اس کی دادبہرحال نہیں دی جاسکتی۔