طالبات اور جنسی تعلقات کی دھمکیاں

طالبات اور جنسی تعلقات کی دھمکیاں
طالبات اور جنسی تعلقات کی دھمکیاں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

صوبہ سندھ کے بڑے تعلیمی اداروں میں خصوصا طالبات کی جانب سے اپنے اساتذہ پر جنسی تعلقات کی آمادگی کے الزامات اور شکایات عام ہوگئی ہیں اور ان میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ حال ہی میں ضلع بے نظیر آباد میں قائم بے نظیر یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے اپنے ایک استاد کے خلاف یہ الزام عائد کیا جس پر یونی ورسٹی کی سینڈیکیٹ کی رکن اور صوبائی وزیر صحت عذرا پے چو ہو نے تحقیقاتی رپورٹ آنے سے قبل ہی طالبہ کو جھوٹا قرار دے دیا ۔ انگریزی زبان میں ماسٹر زکرنے والی طالبہ نے الزام عائد کیا تھا۔ ان سے فون پر بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی ہمشیرہ عذرا پے چو ہو یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ارشد سلیم کی سرپرستی کرتی ہیں اور وہ ہی انہیں وائس چا نسلر کی حیثیت سے لے آئی تھیں۔ طالبہ کا کہنا ہے کہ ایک روز وہ اپنے شعبہ کے پروفیسر کے پاس یہ معلوم کرنے گئیں کہ یونی ورسٹی کب کھلے گی تو انہوں نے انہیں کہا کہ کیا تمہارے پاس میرا فون نمبر نہیں ہے ۔

انہوں نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا کہ ان کا فون نمبر اپنے فون میں لکھ لوں۔ طالبہ نے اس صورت حال سے اپنے والدین کو آگاہ کیا ۔ والدین وائس چانسلر کے پاس شکایات لے کے گئے تو وائس چانسلر نے ان سے ملاقات ہی نہیں کی۔ والدین دو دن تک یونی ورسٹی جاتے رہے۔ اس کے بعد طالبہ کے چچا اقبال جمالی کے مطابق ان لوگوں نے پولیس کو درخواست دی تاکہ مقدمہ درج کرا سکیں۔ اس درخواست کے فوری بعد یونی ورسٹی حکام سرگرم ہوگئے اور پہلے مرحلے پر وائس چانسلر نے اسٹاف اور شاگردوں کو جمع کر کے اپنے خطاب میں طالبہ کے الزام کو بے بنیاد قرار دیا ۔ اس کے بعد یونی ورسٹی حکام کی مدد کے لئے عذرا پے چوہو میدان میں آگئیں۔ ان خبروں کی اشاعت کے بعد وزیر اعلی سندھ نے ایک کمیٹی تشکیل دی تاکہ تحقیقات کرائی جا سکے۔ ابھی کمیٹی کی رپورٹ ہی نہیں آئی تھی کہ عذرا کا طالبہ کو جھوٹا قرار دینے والا بیان آگیا۔ ارشد سلیم کی وائس چانسلر کی حیثیت سے تقرری کے سلسلے میں ان کی اہلیت اور قابلیت کے بارے میں سب ہی انگلیاں اٹھاتے ہیں لیکن وہ عذرا کے منظور نظر ہونے کی وجہ سے کارروائی سے محفوظ رہتے ہیں۔


بے نظیر یونی ورسٹی سے قبل اسی نوعیت کی ایک شکایت سندھ یونی ورسٹی کی دو طالبات نے بھی اپنے ایک استاد کے خلاف کی تھی۔ اس سلسلے میں بھی ایک کمیٹی بنائی گئی تھی ، کمیٹی اپنی رپورٹ میں طالبہ کو مطؤن نہیں کرسکی تھی۔ اور معاملہ کو دبا دیا گیا تھا۔ اس طالبہ پر تو اس حد تک دباؤ تھا کہ اپنی شکایت واپس لے لے اور پروفیسر کو معاف کردے۔ پروفیسر عرفانہ ملاح سندھ یونی ورسٹی میں استاد ہیں۔ اور خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم سے بھی وابستہ ہیں۔ ان سے معلوم کیا گیا کہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کے وقعات میں اضافہ ہوا ہے یا کمی آئی ہے تو ان کا برجستہ جواب تھا کہ بہت اضافہ ہوا ہے لیکن طالبات کی شکایات پر سنجیدگی اختیار نہیں کی جاتی ہے۔ کوئی نہ کوئی سبب بنا کر شکایت کرنے والی طالبہ کو ہی ذمہ دار قرار دے دیا جاتا ہے۔ بے نظیر یونی ورسٹی کی طالبہ کی شکایت پر کہا گیا ہے کہ ان کی کلاس میں حاضری کی کمی کی وجہ سے انہیں ٹوکا گیا تھا جس پر انہوں نے اپنے استاد پر الزام عائد کردیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی طالبہ کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے کسی استاد پر جنسی تعلقات کے دباؤ کا الزام عائد کر ے اور بدنامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالے۔ عرفانہ ملاح کا کہنا تھا کہ ایسا ممکن نہیں ہوتا ہے اور اس طالبہ کے معاملے میں تو اس کے والدین شکایات لے کر یونیورسٹی وائس چا نسلر کے پاس پہنچے تھے ۔ معاملہ گھمبیر ہی ہوگا جس پر والدین یونی ورسٹی پہنچے۔ اگر کوئی معمولی شکایت ہوتی تو وہ اسے نظر انداز کر سکتے تھے ۔


طالبات تو ایک طرف رہیں، یونی ورسٹیوں میں ملازم خواتین اساتذہ کو بھی اسی قسم کی شکایات رہتی ہیں۔ بے نظیر یونی ورسٹی میں بھی اس قسم کی شکایات پائی جاتی ہیں لیکن اکثر خواتین اساتذہ اورطالبات سماجی وجوہات کی بناء پر در گزر کرتی ہیں۔ طالبات اور خواتین اساتذہ اس وجہ سے خاموشی اختیار کر لیتی ہیں کہ معاشر ے میں ان پر بلاوجہ طنز کئے جائیں گے۔ ان کے رشتہ آنے میں رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گی اور ان کے والدین کو بھی ان کی وجہ سے طنز کو نشانہ بننا پڑے گا۔ کیا اس معاشرتی دباؤ کے خوف کے پیش نظر متاثرہ طالبات اور خواتین خاموش رہیں گی اور یہ وباء کسی روک تھام کے بغیر بڑھتی ہی رہے گی۔ ایک سرکاری ادارے ویمین ڈیولپمنٹ کی ایک افسر نے بھی تصدیق کی کہ اس نوعیت کی شکایات عام ہیں لیکن لڑکیاں خوف اور اسباب کی وجہ سے شکایت کرنے کی ہمت نہیں کرتی ہیں۔ اس قسم کی شکایات نئی نہیں ہیں۔ ایک دور میں ایسی شکایات میڈیکل یونی ورسٹی میں عام تھیں۔ حالیہ برسوں میں وہاں سے ایسی کوئی شکایت نہیں آ ئی ۔ صوبہ سندھ میں مختلف سرکاری ادارے ایسی شکایات کا جائزہ لینے اور ان کا سدباب کرنے اس قسم کی شکایات میں اضافہ کی اطلاعات کے باوجود ، حکومت یا بڑے تعلیمی ادارے ان شکایات کا ذمہ دارانہ انداز میں جائزہ لینے یا تادیبی کارروائیوں سے نامعلوم کیوں گریز کرتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -