جبر اور جمہوریت
میاں نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز غیر سیاسی خاتون ہونے کے باوجود سیاست میں کردار اکرنے پر مجبور ہوگئی تھیں ۔خاتون اوّل کے طور پر اپنے معمولات منصبی ادا کرنے کے باوجود وہ خالصتاًگھریلوخاتون تھیں لیکن12 اکتوبر1999کے فوجی انقلاب میں جنرل پرویز مشرف کے حکم پر جب میاں نواز شریف کووزارت عظمیٰ سے ہٹا کرانہیں انکے بھائی شہباز شریف سمیت طیارہ کیس میں جیل پہنچا دیا گیا تو چند ہی دنوں میں بیگم کلثوم نواز شریف نے گھر سے نکل کر سیاسی جدوجہد شروع کردی ۔انہوں نے کن حالات میں حکومت کے خلاف میدان سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا ،وہ کیا گھڑیاں تھیں۔ان کے اہل خانہ اور جماعت پر کیا گزری ؟بیگم کلثوم نواز شریف نے بعد ازاں ان حالات کو انتہائی باریکی اور دردمندی سے ’’جبر اور جمہوریت‘‘ کے نام سے کتاب میں قلم بند کیا تھا ۔بیگم کلثوم نوازکی یہ سیاسی جدوجہد انکے غیر معمولی کردار،دلیری اور جذبے کی داستان ہے کہ انہوں نے سنگین ترین حالات میں آمریت کو چیلنج کیا اور جمہوریت کی شمع روشن کئے رکھی ۔روزنامہ پاکستان میں اس کتاب کو قسط وار شائع کیا جارہا ہے ۔
(قسط نمبر 1)ایک عجیب سی بے کلی، انجانے اضطراب اور سمجھ میں نہ آنے والی بے سکونی کے باعث پریشان کن اندیشوں اور خدشات نے دل و دماغ کو گھیر رکھا تھا اور شاید آنے والے عجیب لمحات نے اپنے سیاہ پردوں کو پھیلانا شروع کردیا تھا۔ 11 اکتوبر کی صبح 8 بجے میاں نواز شریف اسلام آباد جانے کے لئے گھر سے نکلے تو جانے کیوں میں انہیں خالی خالی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ یوں گھر سے جانا تو ان کا معمول تھا۔ میں بظاہر ان کو رخصت کرنے کے لئے دروازے پر کھڑی تھی لیکن میرے دل و دماغ پر وسوسوں کا قبضہ تھا، میں دیکھ رہی تھی کہ میاں نواز شریف قرآن پاک کے نسخے کے نیچے سے گزرکرجارہے ہیں جو میں نے دروازے کے اوپر اس لئے رکھا ہوا تھا کہ گھر سے نکلنے والا ہر فرد کلام اللہ کے سائے میں سے گزرکرجائے اور آج یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ اس اچانک خیال نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔
ہاں یہ کیسا عجیب خیال تھا کہ جب کوئی انسان اپنے گھر سے نکلتا ہے تو اسے پتہ نہیں ہوتا کہ وہ پھر دوبارہ کب اور کتنی مدت کے بعد ملے گا؟ اس خیال نے میری روح تک کولرزاکے رکھ دیا۔ میں نے زور سے سرجھٹک کر اس پریشان کن خیال سے دامن چھڑایا، اسی اثناء میں میاں نواز شریف خدا حافظ کہہ کر روانہ ہوچکے تھے۔ مجھے یہ خیال کیوں آیا؟ اس وقت اس کی کوئی توجیہہ نہ کرسکی تھی اور اب سوچتی ہوں شاید میرے رب نے آنے والے جانگسل لمحات سے مجھے خبردار کردیا تھا اور اگلے ہی روز یہ تمام وسوسے، اندیشے اور خدشات ایک بھیانک حقیقت بن کر سامنے آگئے۔
12 اکتوبر 1999ء کی شام تک وقت کے بے کیف لمحات ایک ایک کرکے گزرتے رہے، ٹیلی ویژن پر شام کے وقت خبریں سن رہی تھی کہ اچانک نیوز ریڈر کی تصویر غائب ہوگئی اور مجھے احساس ہوا کہ شاید کوئی گڑبڑ ہے۔ میں نے فوراً اسلام آباد وزیراعظم ہاؤس فون کیا، آپریٹر نے میری آواز پہچان کرکہا اچھا ابھی ملاتا ہوں لیکن کچھ دیر بعد نواز شریف صاحب نے خود مجھے فون کیا اور کہا ’’گھبرانے کی کوئی بات نہیں، تاہم اصل صورتحال یہ ہے کہ یہاں (وزیراعظم ہاؤس میں) آرمی آگئی ہے اور اس نے Take Over(قبضہ) کرلیا ہے‘‘
میں نے بے تاب ہوکر پوچھا’’ آپ اس وقت کہاں اور کس حال میں ہیں؟‘‘
انہوں نے جواب دیا’’ ابھی تو میں یہیں (وزیراعظم ہاؤس میں) ہوں اور وہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں استعفیٰ دے دوں لیکن میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا‘‘
میرا ان سے دوسرا سوال یہ تھا ’’ شہباز بھائی اور بیٹا حسین کہاں ہیں؟ ‘‘میاں صاحب نے جواب دیا کہ وہ دونوں میرے پاس ہی ہیں۔
پھر حسین نے مجھ سے بات کی۔ میرا بیٹا حسین مجھے سنگینوں کے سائے تلے بیٹھ کر حوصلہ دے رہا تھا’’امی! کوئی بات نہیں ایسا وقت بھی آجاتا ہے۔ الحمداللہ! ہم لوگوں نے کوئی ایسا غلط کام نہیں کیا جس پر آپ کو یا ہمیں کو ئی پشیمانی یا ندامت ہو لہٰذا آپ حوصلہ بلند رکھیں۔‘‘
حسین نے مزید بتایا کہ یہاں پرائم منسٹر ہاؤس میں آرمی آفیسرز بیٹھے ہوئے ہیں اور ابو سے کچھ بات کررہے ہیں۔ ان کے علاوہ بیس پچیس SSG کے کمانڈو جو چراٹ سے لائے گئے ہیں، اپنے ہاتھوں میں جدید قسم کی گنیں اٹھائے ہوئے ہیں اور یہ گنیں مجھے کلاشنکوف سے ملتی جلتی لگتی ہیں اور یہ لوگ گنز کو کاک کرکے اور سیفٹی کیچ کو فائرنگ پوزیشن میں لگا کر کسی سینئر بندے کے حکم کے منتظر، ہمیں ٹارگٹ بنا کر کھڑے ہیں ۔ اس دوران ابو نے ان فوجیوں سے پوچھا’’ کیا تم ہمیں مارنا چاہتے ہو؟‘‘ لیکن وہ خاموشی سے فائرنگ کی پوزیشن میں کھڑے رہے۔ پھر ابو نے فوجی افسروں سے کہا کہ ان اسلحہ برداروں کو باہر بھیجو تو میں تم سے بات کروں گا جس پر ان فوجیوں کو کمرے کے دروازے کے باہر کھڑا کردیا گیا، لیکن جنرل محمود اندر ہی بیٹھے رہے اور مسلسل بضد رہے کہ آپ(نواز شریف) استعفیٰ دیں۔ پھر حسین نے اچانک پوچھا کہ وہاں (ماڈل ٹاؤن رہائش گاہ) تو آرمی نہیں آئی، جس پر میں نے کہا ’’ابھی تک تو کوئی نظر نہیں آیا‘‘ اور پھر حسین سے ٹیلی فون چھین لیا گیا۔
حسین سے ہونے والی اس گفتگو کے بعد مانسہرہ سے کیپٹن صفدر کا فون آیا کہ میں تقریباً عصر کی نماز کے بعد سے مسلسل پرائم منسٹر ہاؤس بات کرنے کی کوشش کررہا ہوں مگر وہاں سے کوئی ٹیلی فون نہیں اٹھارہا۔ صفدر نے مجھے بتایا کہ اس وقت میرے پاس کینسر کا ایک مریض لوگ چار پائی پر اٹھا کر لائے ہوئے ہیں اور یہ راولپنڈی میں پرائم منسٹر کے خصوصی فنڈ سے اس کا علاج کروانا چاہتے ہیں مگر میرا رابطہ وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد سے نہیں ہورہا۔ جب میں نے صفدر کو پوری صورتحال سے آگاہ کیا کہ وزیراعظم نواز شریف نے چیف آف آرمی سٹاف کو ریٹائرڈ کردیا ہے جس کے ری ایکشن میں فوج نے وزیراعظم ہاؤس کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے تو صفدر نے بتایا کہ ٹیلی فون کا رابطہ تو تقریباً چار بجے سے کٹا ہوا ہے۔ ابھی ہماری بات ہوہی رہی تھی کہ ماڈل ٹاؤن کے ٹیلی فون بھی کٹ گئے۔ ہماری رہائش گاہ پر ایک ہنگامہ برپاہوگیا۔ یوں لگا کہ جیسے مسلح افراد نے طے شدہ پروگرام کے مطابق ہمارے اوپر حملہ کردیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد معلوم ہوا کہ رہائش گاہ کے پہلے حصے میں سکیورٹی فورسز کے لوگ داخل ہو گئے ہیں۔
جو لوگ ہمارے گھر میں داخل ہوئے وہ اس قدر بھوک سے نڈھال ہورہے تھے کہ انہوں نے سب سے پہلے گھر کے تمام فریج کھولے، جو کچھ ملا کھالیا، بچوں کا دودھ تک پی لیا اور بعض لوگوں نے کچھ انڈے بھی توڑ کر پی لئے۔ جب ہم نے کہا کہ یہ کیا تماشا ہے تو ایک سادہ دل اہلکار نے کہا’’ ہمیں اس چیز کا افسوس ہے کہ ہم آپ کے گھر کی چیزیں کھاگئے ہیں‘‘ مگر اس نے کہا ’’باجی! ہم صبح ناشتے کے بعد پریڈ گراؤنڈ میں سٹینڈ ٹو تھے اور وہیں سے ہم یہاں تک آگئے۔ ایمرجنسی کی صورت میں ہم دوپہر کا کھانا نہیں کھاسکے‘‘ جو ملازم بچے رہائش گاہ کے پچھلے حصے میں ہمارے ساتھ موجود تھے، انہیں میں نے اپنے ساتھ ہی روک لیا اور دروازوں کو کنڈیاں لگوادیں جس پر اہلکاروں نے رہائش گاہ کے اس حصے کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور ان میں سے ایک آفیسر نے بلند آواز میں حکم جاری کیا:
’’کوئی شخص اندر سے باہر نہیں نکلے گا۔‘‘
ہم اپنے ہی گھر میں قید ہوکر رہ گئے تھے۔ اپنا گھر جہاں سکون اور عافیت کا احساس ملتا ہے، ہمارے لئے زندان میں تبدیل ہوچکا تھا۔ ایک ایسی قید جس کی کوئی مدت مقرر نہیں تھی، مجھے اپنے سے زیادہ اپنی والدہ کی فکر لاحق تھی جو سخت علیل تھیں۔ میرے والد کی وفات کو ایک ماہ کا عرصہ نہیں ہوا تھا۔ ان کی وفات اور بیماری نے میری والدہ کو پہلے ہی نڈھال کر رکھا تھا۔ اوپر سے اس قیامت صغریٰ سے دوچار ہونا پڑگیا اور اس صدمے سے ان کی طبیعت اور زیادہ بگڑگئی۔
میری علیل والدہ اور چھوٹی بیٹی اسماء کے علاوہ میری بڑی بہن بھی میرے ساتھ محبوس ہوکررہ گئیں۔
ہم مختلف ٹی وی سٹیشن لگا کر باہر کا حال معلوم کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا اور میری والدہ کی طبیعت تیزی سے بگڑرہی تھی۔ ان کی تشویشناک حالت کے پیش نظر میں نے فیصلہ کیا کہ والدہ کو صبح ہوتے ہی بڑی بہن کے گھر شفٹ کردوں گی جو ڈاکٹر ہیں اور ان کے شوہر بھی ڈاکٹر ہیں۔
چنانچہ 13 اکتوبر 1999ء کی صبح میں عقبی رہائش گاہ کے حصے سے باہر آئی اور سپاہیوں سے کہا کہ اپنے آفیسر کو بلاؤ جس پر وہ ایک میجر کو بلا کر لائے، میں نے اسے اپنے گھر کے تمام حالات سے آگاہ کیا اور کہا کہ اس وقت ہمارے پاس کوئی مرد نہیں ہے اور میری والدہ سخت علیل ہیں اس لئے میری والدہ اور میری ہمشیرہ کو آپ ان کے اپنے گھر جانے دیں لیکن اس نے کردیا۔
اس کے رویہ سے ظاہر ہوگیا تھا کہ اس سے مزید کوئی بات کرنا بے کار ہے۔ چنانچہ اس لمحے میں نے ایک فیصلہ کیا، جسے شاید ماں کی محبت سے مغلوب ہوکر جذباتی فیصلے کا نام دیا جاسکتا ہے لیکن میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ میں نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی نکالو اور پھر میجر سے کہا:
’’نہ صرف یہ (امی اور بڑی بہن) جائیں گی، بلکہ میں بھی جاؤں گی۔ میں اپنی بیٹی کے ساتھ اکیلی نہیں رہ سکتی، میں اپنے ساس اور سسر (میاں محمد شریف صاحب) کے پاس رائیونڈ جاؤں گی کیونکہ وہ وہاں اکیلے ہیں۔‘‘
میجر نے کہا’’ آپ کو یہاں سے جانے کی اجازت نہیں ہے؟‘‘
میں نے کہا’’ تم روک سکتے ہو تو روک لو، گولیاں چلانا چاہتے ہو تو شوق پورا کرلو‘‘ مجھے یقین تھا کہ ایک طرف تو میجر حکم کا پابند ہے ،وہ بھی کسی ماں کا بیٹا ہے، اس کے گھر میں بھی بہنیں ہیں اور اس کی بھی تربیت کسی اچھی گود نے کی ہوگی۔ حالات جیسے ہی کیوں نہ ہوں، یہ میجر آخر مسلمان ہے اور اس کے دل میں ہمارے لئے کچھ رحم ضرور ہوگا ۔
میں نے اپنے اور بیٹی کے کپڑے اور چند ضروری چیزیں گاڑی میں رکھوائیں اور دو ملازموں کے ساتھ ہم سب گاڑی میں بیٹھ گئے۔ جبکہ میری بڑی بہن والدہ کے ساتھ پیچھے اپنی گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ پھر میں نے میجر سے کہا ’’میں جارہی ہوں‘‘ گاڑی چل پڑی اور میجر خاموشی سے دیکھتا رہا۔ اسے گیٹ بند کرانے کی جرأت نہ ہوئی۔ پھر ہم ماڈل ٹاؤن کی رہائش گاہ سے نکل آئے اور بڑی بہن والدہ کو لے کر اپنے گھر چلی گئیں اور میں رائیونڈ فارم پہنچ گئی۔(جاری ہے )