ہر بھاری فیسیں،نتائج سے پہلے داخلے، چیف جسٹس نوٹس لیں گے؟
نئی آنے والی حکومت نے بے روزگاری ختم کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم پر خصوصی توجہ دینے، تعلیمی بجٹ بڑھانے، نصاب تعلیم یکساں کرنے کا اعلان ضرور کیا ہے، قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہر آنے والی حکومت میں یہ روایت جاری ہے، سرکاری وسائل کم ہونے کی وجہ سے ہمیشہ پرائیویٹ سکیٹر کو آگے لانے، اس کو اہمیت دینے کی جدوجہد بھی ہوتی آ رہی ہے،جس کے نتیجے میں اب صورتِ حال یکسر تبدیل ہو گئی۔ پرائیویٹ سیکٹر تعلیمی میدان میں نہ صرف طاقتور ہو چکا ہے،بلکہ اس نے اپنی بھی قائم کر لی ہے۔گزشتہ نو سال میں میاں شہباز شریف کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں ٹاسک فورس کے قیام سے ایجوکیشن اتھارٹی بنانے پر زور دیا جاتا رہا۔
یکساں نظام تعلیم کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سیکٹر کو ایک نیٹ میں لانے کی کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں، صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہود بھی سرگرم رہے،عملی طور پر ایجوکیشن مافیا کا پلڑا بھاری رہا،اس نے ایجوکیشن اتھارٹی کے آگے ایسا پُل باندھا کہ کوئی کارروائی کاغذوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔اب نئے پاکستان کا نعرہ لگانے والی تحریک انصاف کی حکومت نے بھی غریب امیر کا فرق مٹانے اور یکساں نصاب تعلیم لانے کا اعلان کیا ہے جو عملی طور پر مشکل نظر آ رہا ہے۔ اس کی مثال کے طور پر اگر چیف جسٹس آف پاکستان کے اقدامات لے لئے جائیں یا سندھ ہائی کورٹ کے فیسوں میں پانچ فیصد سے زائد اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ لے لیا جائے، تو اندازہ ہوتا ہے ایجوکیشن مافیا طاقتور ہے،اس نے ہر جوڑ کا توڑ ڈھونڈ رکھا ہے، ایجوکیشن مافیا کا گٹھ جوڑ اِس حد تک حاوی ہو چکا ہے کہ وہ جو چاہتا ہے کرلیتا ہے۔ پانچ فیصد فیسوں میں اضافے کا فیصلہ ہو، گرمیوں کی چھٹیوں کی فیسیں نہ لینے کا فیصلہ ہو۔ سرکاری میڈیکل کالجوں کی فیسوں میں لوٹ مار ہو، پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں داخلوں کا مسئلہ ہو، ہر مسئلے کی منصوبہ بندی موجود ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے پانچ کی بجائے بیس فیصد تک اضافے کے ساتھ فیسیں وصول کی جا رہی ہیں،گرمیوں کی چھٹیوں کی فیس لینے کا طریقہ کار بدل دیا گیا ہے،مافیا نے فیسوں کی مدیں بدل لی ہیں۔ ٹیوشن فیس کی بجائے ڈویلپمنٹ فنڈ، سیکیورٹی فیس، آئی ٹی فیس، بلڈنگز فنڈ، سپورٹس فنڈ سمیت بہت سی مدات نکال لی ہیں۔
ہائر ایجوکیشن کی کوشش اپنی جگہ، عدلیہ اپنی جگہ سرگرم، افسوس کہ عملی طور پر عوامی مشکلات کم ہونے کی بجائے روز بروز بڑھ رہی ہیں،سرکاری میڈیکل کالجوں میں60ہزار، پاس ہونے والے طلبہ و طالبات میں سے صرف پانچ ہزار طلبہ کو داخلے مل سکے ہیں۔ سرکاری کالجوں میں نشستوں کے اضافے کا اعلان گزشتہ نو سال سے ہوتا آ رہا ہے، عملی طور پر کچھ نہیں ہو سکا، پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی لوٹ مار کے خلاف چیف جسٹس کے اقدام قابلِ تحسین، مگر افسوس عملی طور پر اندر کھاتے سب کچھ ویسے ہی ہو رہا ہے،ماہانہ فیسوں اور سالانہ فیسوں کی وصولی میں بظاہر کمی کر دی گئی ہے وہاں بھی لوٹ مار کا طریقہ کار بدل دیا گیا اس میں سرکاری اہلکاروں کا مافیا بھی شامل ہے۔انٹری ٹیسٹ کے نام پر جاری فراڈ کے حقائق منظر عام پر آنے اور اکیڈمی مافیا سمیت ڈاکٹروں اور دیگر عملے کی شمولیت کے ذریعے عرصے سے جاری ڈرامے کا ڈراپ سین ہونے کے باوجود انٹری ٹیسٹ کا ڈرامہ جاری ہے،کیا ہیلتھ سائنسز کے پرنسپل اور چند اہلکاروں کے خلاف اقدامات سے انٹری ٹیسٹ کا نظام شفاف ہو گیا ہے، ہر گز نہیں، چہرے ضرور بدلے ہیں نظام وہی ہے،90فیصد نمبر لینے والوں کو انٹری ٹیسٹ کے پُل صراط سے گزارنے کا ڈرامہ ڈھٹائی سے جاری ہے۔ گزشتہ روز ایف اے، ایف سی کے نتائج میں92 فیصد نمبر لینے والے بچے بچیوں نے بھی انٹری ٹیسٹ کو ظلم قرار اوراستحصال قرار دیا ہے۔ دن رات ایک کرنے والے بچے بچیاں جائیں تو کہاں جائیں، سب سے بڑی عدالت سب سے بڑے جج چیف جسٹس آف پاکستان کے فیصلوں کے آگے بھی روڑے اٹکائے جا رہے ہیں، عملی طور پر کسی فیصلے پر عملدرآمد کرنے کی بجائے نئی نئی تاویلیں ڈھونڈی جا رہی ہیں، تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں نے مدارس اور تعلیمی اداروں کا نصاب ایک کرنے کا نعرہ لگایا ہے،ان سے درخواست ہے اس سے پہلے ہمارے سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں پڑھائے جانے والے درجنوں تعلیمی نصاب کو چیک کر لیں ان کو یکساں کر لیں، پھر مدارس کی طرف آئیں۔
آج کی نشست میں جس اہم مسئلے کی نشاندہی کرنی تھی، اس کی تمہید ہی طویل ہو گئی ہے۔ پرائیویٹ کالج اور یونیورسٹی نے جو نئی بھیڑ چال اختیار کی ہے وہ انتہائی خوفناک بھی ہے اور قابلِ توجہ بھی، تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پہلے دینی مدارس میں ایسا ہوتا تھا جو آج کل نئے جدید دور میں ہماری اعلیٰ پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں شروع ہو گیا ہے۔ لاہور بالعموم اور ملک بھر میں بالخصوص پرائیویٹ یونیورسٹیوں نے ایف اے، ایف ایس سی کے نتائج سے پہلے اپنے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے داخلے نہ صرف مکمل کر لئے ہیں،بلکہ فیس جمع کرانے کی آخری تاریخ بھی 10ستمبر رکھی گئی تھی، قانونی طور پر یہ کتنا صحیح ہے،قانون دان ہی بتا سکتے ہیں، اخلاقی طور پر بڑی زیادتی ہے، نتائج سے پہلے داخلے اور پھر نتائج سے پہلے فیس جمع کرانے کا مرحلہ مکمل کرنے کا نوٹس کون لے گا۔غریب والدین بچوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہوئے، پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں لاکھوں روپے جمع کراتے ہیں اور پھر سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے کے لئے دوڑ پڑھتیہیں۔ اگر کسی جگہ سرکاری ادارے میں داخلہ ہو جائے تو پہلے سمسٹر کے دو لاکھ پرائیویٹ یونیورسٹی میں جو جمع کرائے گئے ہیں وہ کس کھاتے میں جائیں گے، نئے داخلے کی سیکیورٹی، ٹیوشن فیس اپنی جگہ موجود ہے۔
یہ ظلم زیادتی کی نئی روایت نئے پاکستان میں بھی دھڑلے سے جاری ہے، ہر بچی بچے کا والد اور والدہ چیف جسٹس کی طرف سے سوموٹو لینے کے منتظر ہیں۔سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلوں سے پہلے پرائیویٹ اداروں میں بغیر نتائج کے داخلے کس طرح جائز ہیں، پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی لوٹ مار اور گٹھ جوڑ سے شروع کی گئی نئی روایت کے آگے کون پُل باندھے گا۔کیا وزیراعظم عوامی مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے سرکاری اور پرائیویٹ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے داخلوں کی تاریخ ایک کر سکتے ہیں۔ پرائیویٹ یونیورسٹی بی اے، بی ایس سی اور دیگر شعبوں میں داخلے کا کرائی ٹیریا ایک ہو سکتا ہے، نتائج سے پہلے داخلوں کا نیاطریقہ کس کی خدمت ہے۔ عدلیہ اور حکومت دونوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔