فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر519

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر519
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر519

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جی ایم درانی کی اس گمنامی کی موت سے ایک پاکستانی گلوکار کی یادیں بھی تازہ ہوگئیں جو کسی زمانے میں پاکستان کی فلمی صنعت کا مایہ ناز گلوکار تھا اور جس کی خوب صورت میٹھی اور ریشمی آواز اپنے زمانے کے دوسرے بہت اچھے گلوکاروں سے بالکل مختلف تھی۔ یہ سلیم رضا تھے۔ سلیم رضا ان گلوکاروں میں سے ہیں جو اپنی آواز کی انفرادیت کے باعث محض گیت سن کر ہی پہچانے جا سکتے ہیں۔ مہدی حسن، احمد رشدی اور مسعود رانا کی آوازوں میں بھی یہی خصوصیت تھی۔
سلیم رضا کے بارے میں اس سے پہلے بھی بتایا جا چکا ہے لیکن جی ایم درانی کے ذکر کے ساتھ ان کا تذکرہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں میں کئی باتیں مشترک تھیں۔ مثلاً سلیم رضا نے بھی ۱۹۵۳ء میں ریڈیو کے ذریعے اپنی گلوکاری کا آغاز کیا تھا۔ انہوں نے پہلا گانا ریڈیو پاکستان لاہور سے پیش کیاتھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جی ایم درانی بھارتی فلمی صنعت میں روبہ زوال ہو چکے تھے۔ سلیم رضا کافی عرصے تک ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر ہونے والے موسیقی کے پروگراموں میں اپنی آواز کا جادو جگاتے رہے یہاں تک کہ بابا جی اے چشتی کے کانوں تک ان کی سریلی آواز کی رسائی ہوگئی اور وہ ان کے توسط سے فلمی دنیا میں داخل ہوئے اور پھر لگ بھگ بیس سال تک ان کے نغمے پاکستانی فلموں کی مقبولیت میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر518پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

سلیم رضا اور جی ایم درانی میں دوسری مشترک بات یہ تھی کہ ان دونوں نے عروج کے بعد زوال دیکھا۔ جی ایم درانی نے تو اداکاری کے ذریعے خود کو فلمی صنعت سے وابستہ رکھا لیکن سلیم رضا ادکاری کے کوچے سے قطعی ناواقف تھے۔ اس لیے جب فلم سازوں اور موسیقاروں نے ان کی طرف سے نگاہیں پھیر لیں تو انہوں نے بے قدری اور بے روزگاری سے تنگ آکر ترک وطن کا فیصلہ کر لیا اور کینیڈا چلے گئے جہاں وہ چھوٹے موٹے پروگراموں اور اپنی قائم کردی۔ موزیک اکیڈمی کے ذریعے روزی کماتے تھے۔ پاکستان میں رہ کر انہوں نے اپنی آواز کے ذریعے زندہ رہنے کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ انہوں نے کمرشل فلموں کے لیے ’’جنگل‘‘ گائے۔ کمرشل فلموں کی موسیقی مرتب کی۔ ٹیلی ویژن کے لیے بھی کمرشل فلمیں بنائیں جن کی موسیقی بہت اچھی تھی لیکن یہ سب کچھ سلیم رضا کے لیے کافی نہ تھا ۔ اپنے عہد کے نامور گلوکار کو یہ زیب بھی نہیں دیتا تھا مگر وہی بات ہے کہ روٹی تو کسی طور کما کر کھائے مچھندر۔
سلیم رضا اور جی ایم درانی میں ایک اور مشترک بات یہ تھی کہ دونوں نے اپنی جائے پیدائش سے دور وفات پائی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ سلیم رضا جی ایم درانی سے پہلے قدرے کم عمری میں فوت ہوئے لیکن جی ایم درانی کی طرح ان کے انتقال کی خبر بھی خاموشی سے گزر گئی ۔بعض اخبارات میں چند سطور ان کے انتقال کے بارے میں شائع کی گئیں اور بس۔ یہ اس فنکار کا انجام تھا جس نے پاکستانی فلمی موسیقی میں بہت ممتازمقام حاصل کیا تھا اور لگ بھگ بیس سال تک فلموں میں گلوکاری کرتے رہے تھے۔ ان کے بے شمار نغمات بے انتہا مقبول ہوئے اور آج بھی مقبول ہیں۔ بیس سالہ فلمی زندگی میں انہوں نے تین سو سے زائد فلموں کے لیے چھ سات سو کے قریب نغمات ریکارڈ کرائے جن میں سے بیشتر بہت مقبول نغمے تھے۔ وہ جی ایم درانی کے بہت عرصے بعد فلمی موسیقی میں آئے تھے مگران سے کافی عرصہ قبل دنیا سے رخصت ہوگئے۔
سلیم رضا1932ء میں ایک عیسائی گھرانے میں امرتسرمیں پیداہوئے تھے۔ ان کی تاریخ پیدائش ۷ جولائی تھی۔ ان کا نام نوئیل ڈیاس رکھا گیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد ان کاخاندان پاکستان آگیا تھا جہاں انہوں نے لاہورمیں رہائش اختیار کی۔ قیام پاکستان کے وقت ان کی عمر پندرہ سال تھی۔ اکیس سال کی عمرمیں انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور سے سلیم رضاکے نام سے گلوکاری آغاز کیا۔ 1953ء میں وہ ریڈیو سنگربنے تھے۔ 1955ء میں موسیقار جی اے چشتی نے فلم ’’حقیقت‘‘ میں انہیں پلے بیک سنگر کے طور پرفلموں میں متعارف کرایا اور بہت جلد اپنی خوب صورت آواز اورگائیکی کے باعث وہ ایک مقبول فلمی گلوکار بن گئے۔ انہوں نے بے شمار فلمون میں گلوکاری کی اور سپرہٹ گانے گائے۔ ان کے چند مشہور نغمات یہ ہیں۔
۱۔ جان بہاراں رشک چمن(فلم عذرا)
۲۔ اے دل کسی کی یاد میں، ہوتا ہے بے قرارکیوں(تیرا سہارا)
۳۔ چاند تکے چھپ چھپ کے (عشق لیلیٰ)
۴۔ زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نا (ہم سفر)
۵ ۔اے نازنیں، تجھ سا حسیں کوئی نہیں (شمع)
۶۔آجاپاس میرے (چنگاری)
۷۔ تیری تصویر بناتا ہوں (موسیقار)
۸۔ یارو مجھے معاف کرو میں نشے میں ہوں(سات لاکھ)
اس گیت کے ایک لاکھ سے زائد ریکارڈ فروخت ہوئے تھے جس پر گراموفون کمپنی ای ایم آئی نے انہیں چاندی کا بناہوا خصوصی ریکارڈ پیش کیاتھا۔
سلیم رضا نے اپنے عہد کے مقبولک ترین اداکاروں کے لیے پلے بیک نغمے گائے تھے جن میں سنتوش کمار، درپن، یوسف خاں، اعجاز، کمال ، حبیب علاؤ الدینِ، طلاش ، سدھیر، اکمل شامل ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے قریب قریب سبھی موسیقاروں کے لیے گانے ریکارڈ کرائے جن میں خواجہ خورشید انور، ماسٹر عنایت حسین، رشید عطرے، جی اے چشتی، مصلح الدین، فیروز نظامی، سلم اقبال اور ماسٹر عبداللہ جیسے نامور اور ہنر مند موسیقار بھی شامل ہیں۔
اپنے طویل دور گلوکاری کے دوران میں انہوں نے بے شمار ایوارڈز بھی حاصل کیے تھے۔ اس زمانے کے سبھی فلمی ایوارڈ ان کے حصے میں آئے تھے۔ سلیم رضا نے 1965ء کی جنگ کے زمانے میں کئی مقبول ترانے گائے تھے۔ انہوں نے پاکستانی موسیقی اور ثقافت کے لیے خدمات سر انجام دی تھیں۔ ان کے اعتراف کے طور پر پاکستان آرٹس کونسل نے 1966ء میں انہیں ایک طلائی تمغہ بھی دیا تھا۔گویا یہ وہ گلوکار تھا جسے سونے چاندی میں تولا جاتا رہا مگر شومئی قسمت کہ سونا چاندی اسکے کسی کام نہ آیا۔
بعض فنکار فلم بینوں اور تماشائیوں کے دلوں میں اپنی مقبولیت کھو بیٹھتے ہیں پھر ان کا فن روبہ زوال ہو جاتا ہے تو انہیں رفتہ رفتہ فراموش کر دیا جاتا ہے اور وہ پس منظرمیں چلے جاتے ہیں لیکن سلیم رضا کے سلسلے میں یہ کہنا درست نہیں ہے۔ ان کی آواز کی خواب صورتی اور سریلے پن میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ انہیں فلم بینوں اور تماشائیوں نے نہیں فلم سازوں اور موسیقاروں نے جان بوجھ کر نظر انداز کرناشروع کر دیا تھا۔ وہ کمرشل پروگراموں اور ٹی وی کے ذریعے اپنی آواز کا جادو جگاتے رہے مگر فلم سازوں کے کانوں پر جون تک نہیں رینگی۔ چھوٹے چھوٹے معمولی اور بے مقصد کام کرکے جب وہ اکتا گئے اور انہیں یہ احساس ہوگیا کہ پاکستانی فلم سازوں کو ان کی ضرورت نہیں ہے تو انہوں نے اپنے پیارے وطن کو خیر باد کہہ کر کینیڈا میں سکونت اختیار کرلی۔ بات یہ تھی کہ سلیم رضا کو صرف ایک ہی ہنر آتا تھا اور وہ صرف موسیقی اور گلوکاری کا ہنر تھا۔ اسکے سوا وہ کسی اور ذریعے سے روزی نہیں کما سکتے تھے۔ جب انسان روزگار سے محروم ہو جائے تو وہ مایوسی کے عالم میں کئی ایسے فیصلے کر لیتا ہے عام حالات میں جن کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ترک وطن کا فیصلہ کرلیا تھا مگرکینیڈا جا کر بھی وہ خوش نہیں تھے اور پاکستان کی یاد ان کے دل سے محو نہیں ہو سکی تھی۔
سلیم رضا فلم سازوں اور موسیقاروں کی بے اعتنائی کا واحد شکار نہیں تھے۔ احمدرشدی اورمسعود راناکے ساتھ ایساہی سلوک روا رکھا گیا۔ ان دونوں کی گلوکاری اور آوازوں کی خوبی میں ذرا سابھی فرق پیدا نہیں ہوا تھا مگر فلم سازوں نے انہیں نظر اندازکرنا شروع کردیا۔ اسکا ایک سبب اردو فلموں کی تعدادمیں کمی بھی تھالیکن جتنی بھی اردو فلمیں بنائی جاتی تھیں ان کے لیے ان دنوں مایہ ناز گلوکاروں کی خدمات حاصل کی جا سکتی تھیں مگر فلم سازوں کی بھیڑ چال نے انہیں دوسرے گلوکاروں کی طرف متوجہ کر دیا۔ دراصل ان معاملات میں موسیقاروں کی ذاتی پسند و ناپسند، رشتے دارریوں اور دوسری مصلحتوں کا بھی ہمیشہ دخل رہا ہے جو پاکستان کی فلمی صنعت کی بدقسمتی رہی ہے۔(جاری ہے)

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر520 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں