مادرِ جمہوریت کا مقدمہ (3)
محترمہ کلثوم نواز اوردیگر عوامی قائدین نے جس جمہوریت کو آمریت کے چنگل سے آزاد کرانے کی جدوجہد کی…… وہ بابائے قوم حضرت قائداعظمؒ کی پسند ہے…… بابائے قوم نے اسے اپنی قوم کے لئے پسند فرمایا تھا…… اور پاکستانی عوام اپنی جمہوریت سے کیوں انس نہ رکھیں کہ جمہوریت ہی کے دم سے تو یہ وطن ملا…… اور اس وطن کے باسیوں کو ایک قوم کی شکل! میاں نواز شریف ہوں،کلثوم نواز ہوں یا مریم نواز…… یا جمہوریت کے لئے جد و جہد کرنے والا کوئی اور لیڈر یا کارکن…… سب ”تحریک ِ پاکستان،، کا ہی حصہ شمار ہوں گے…… کہ 1947ء میں قطعہئ ارضی حاصل ہوا تھا، قائد ؒ اور اقبالؒ کے خوابوں کا پاکستان تعمیر ہونے تک ”تحریک ِ پاکستان،، جاری رہے گی…… کیایہ محض اتفاق ہو سکتا کہ میاں نواز شریف کایومِ پیدائش، مسیحاؤں کی پیدائش کا روز…… 25دسمبر ہے اور…… ان کی شریک ِ حیات اور شریکِ جستجو، محترمہ کلثوم نوازکی جہانِ فانی سے رخصت کا دن11ستمبر ہے…… کہ جس روز قوم کے مسیحا واپس بلائے گئے۔ دِل اور قرائن کہتے کہ نواز شریف اور کلثوم کی کہانی مریم نواز کے جاندار کردار کی وساطت سے ایک نئے اور دلکش انداز میں آگے بڑھے گی…… کہ قدرت نے خود ہی اس کہانی کے تین بنیادی کردار تحریر کر دیئے …… باؤجی، کلثوم اور گڑیا!
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی
حسن ِ اتفاق ہی کہئے یا تاریخ کے دھارے کا کسی ایسی جگہ واپس مڑ آناکہ جہاں سے پہلے بھی گزر ہو چکا ہو…… ”روک سکو تو روک لو،، کی مریم نواز کی للکار نئی نہیں تھی…… یہ بھی دلیر مادرِ جمہوریت کے الفاظ کی گونج تھی…… وہ الفاظ جو انہوں نے 12 اکتوبر 1999ء کے غدر کے بعد ماڈل ٹاؤن کے گھر میں محبوس رہنے کے بعد محاصرہ توڑ کر میاں شریف مرحوم و مغفور کے پا س جاتی امرا جانے سے روکنے کی ناکام کوشش کرنے والے ”ڈیوٹی“ پر کھڑے افسر کو کہے تھے…… ”روک سکو تو روک لو!“۔ محترمہ کلثوم نواز کی وفات کے بعد ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا گیا۔ کلثوم صاحبہ کا ان کے ہم عصروں کی نظر میں کیا مقام تھا……ان کے بارے میں جو کچھ کہا گیا، جتنا کچھ لکھا گیاہے، اگرچہ کہ اس کا پیمانہ غیر معمولی وسیع ہے، پر یہ امر شایدپھر بھی ثانوی ہے،مقابلتاً اس کے کہ عصبیتوں بھرے ہمارے معاشرے کے اخلاقی کھوکھلے پن اور ہمارے حسدبھرے عمومی رویوں کے تناظر میں یہ باعثِ خوش کن حیرت اور طمانیت ہے کہ بیگم کلثوم کے ہم عصر اہلِ سیاست، اہلِ صحافت، اہلِ قلم و فکر و نظر…… سیاسی اور نظریاتی وابستگیوں سے قطعِ نظر، ان کے یکساں معترف، عقیدت مند، ہمدرد، غمخوار اور مداح دکھائی دئیے۔ سب نے ہی ان کو اچھا کہا…… اور جس اسلوب میں کہا، بخوبی عیاں اور واضح احساس کے ساتھ کہ جو کچھ کہا گیا، بِنا کسی بناوٹ اور تکلف کے……
دِل سے، اخلاص سے کہا گیا۔ نانا جان، پروفیسر مرزا منور مرحوم و مغفور اپنے مرشد حضرت علامہ اقبال ؒ کے حوالے سے ”خودی،، اور نتیجتاً انسانی شخصیت میں پیدا ہونے والی ”وحدتِ کردار،، کی تفسیر کرتے ہوئے بتاتے اور سمجھاتے تھے کہ اگر انسان کی شخصیت ایک ہے تو شخصیت میں وحدت کے سبب اس کے قول اور عمل میں بھی وحدت ہو گی۔ لہٰذا وہ تمام لوگ کہ جن سے آپ کا واسطہ ہو یا رہا ہو، آپ کے بارے میں واضح ہوں گے…… وہ جانتے ہوں گے کہ اگر کوئی معاملہ درپیش ہوا تو آپ کا فیصلہ اور عمل کیا ہو گا…… وہ سمجھایا کرتے کہ خدائے واحد پر ایمان، انسانی شخصیت میں بھی یکسانی پیدا کرتا ہے۔ خدائے قادرِ مطلق پر ایمان اور اس ایمان کی بنیاد پر قائم رشتہ کسی خود تراشیدہ بت، کسی ناخدا کو خدا ماننا گوارہ نہیں کرتا…… براہیمی نظر پیدا کرتا اور ہوس کو چھپ چھپ کرانسان کے سینے میں کوئی بت تراشنے نہیں دیتا…… ایمان توکّل پیدا کرتا، استقامت پیدا کرتا۔ بیدار خودی کے سبب انسانی عظمت کا احساس حریت کا جذبہ پیدا کرتا اور ایمان ہزار خوف دور کر کے زبان اور دل رفیق بنا دیتا، قلندرانہ جرأت پیدا کر دیتا…… انسان وہ ہمت اور حوصلہ پاتا کہ حق کی خاطر، نا انصافی کے مقابل انصاف کا پرچم بلند کر کے، اصول پر پختگی سے کھڑا ہو کر، حق کی راہ میں جد و جہد کرتا ہے۔
یہ محترمہ کلثوم نواز کی شخصیت اور کردار کی مضبوطی، انصاف کے لئے ڈٹ جانے کی جرأت اور حق کی خاطر جد وجہد کی اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہمت ہی تھی کہ جس نے مشرف آمریت کے خلاف میدانِ عمل میں کود پڑنے کا حوصلہ اور استقامت پیدا کئے۔میاں نواز شریف سے وفا داری…… اس پر مستزاد! کہ وفا داری بشر طِ ستواری اصلِ ایمان ہے!!!یہ محترمہ کلثوم نواز کی ”وحدتِ کردار،، اور ان کی شخصیت اور کردار کی مضبوطی اور عظمت کا ثبوت ہے کہ کوئی تحریر، کوئی بیان دیکھا جائے…… تو ان کے متعلق رائے کا اظہار کرنے والی ہر ہر شخصیت، بشمول مسلم لیگ ن کے سیاسی مخالفین کے تمام کی رائے ان کے بارے میں ایک ہی نظر آتی ہے…… سیاستدان، اہلِ صحافت اور اہلِ دانش، کیا سیاسی تجزیہ کار، کیا اقربا…… غرض کہ ہر کسی نے ان کی تعریف میں ایک لفظ لازمی استعمال کیا ہے…… لفظ ”بہادر!،،۔ ہر کوئی ان کو ”بہادر خاتون،، کہتاہے۔ یہ معمولی بات نہیں۔ ایک اور امر قابلِ ذکر ہے گو کہ محترمہ کلثوم نواز خود کو سیاست سے الگ رکھ کر، ایک گھریلو خاتون ہی بن کر رہی تھیں …… عہدوں اور شہرت کے شوق سے ما ورا، میڈیا کی چکاچوند سے بھی دور……
اس کے با وجود ہم عصروں نے، مشرف آمریت کے خلاف جد وجہد اور بوقت ِ ضرورت پارٹی کی دلیرانہ قیادت کے تناظر میں آپ کا شمار محترمہ فاطمہ جناح ، محترمہ نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی صف میں کیا۔ کرین سے محترمہ کلثوم نواز کی گاڑی اٹھائے جانے اور گاڑی میں کئی گھنٹے تک محبوس رہنے کے باوجود، گاڑی سے باہر نکلنے سے انکار کا جرأت آموز واقعہ ذہنوں میں تادیر زندہ رہے گا اور آئین شکنی کی سوچ کے لئےanti virus کا سا اثر رکھے گا۔ محترمہ کی جسارت آفریں جدو جہد کے سبب ہی میاں نواز شریف کو دشمن نمبر 1 کہنے والے مشرف کو اپنے قاتل عزائم ترک کر کے انہیں کال کوٹھٹریوں سے نکال کر، باہر بھجو ا کر، اپنی گلو خلاصی کرانا پڑی۔ مجیب الرحمان شامی صاحب نے لکھا بھی ہے اور متعدد مرتبہ دہرایا بھی کہ اخباری مدیروں کے ساتھ ایک نشست میں ڈکٹیٹر مشرف نے میاں نواز شریف کی جلا وطنی کے فیصلے کی بنیادی وجہ بیگم کلثوم نواز کی مزاحمت بتائی تھی۔ (جاری ہے)