”ریاست مدینہ“ کی ”مثالی پولیس“
عمران خان نے ”ریاست مدینہ“ بنانے کا دعویٰ حکومت ملنے کے بعد شروع کیا ہے۔ ریاست مدینہ ایک مثالی ریاست تھی، جس کی بنیاد خوفِ الٰہی اور انصاف پر تھی۔ریاست مدینہ کے دعوی داروں نے یہ حدیث مبارکہ ضرور پڑھی ہو گی، ”حتیٰ کہ تنہا ایک عورت مدینہ اور حیرہ کے درمیان سفر کرے گی اور اس کو اپنی سواری پر چور چکاری کا کوئی خطرہ نہیں ہو گا“۔ مجھے افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ سیاسی مقاصد کے لئے وزیر اعظم عمران خان اور ان کے حواری ”ریاست مدینہ“ جیسے مقدس نام کا استعمال کرتے ہیں۔ نعروں اور دعوؤں میں ایسے مقدس الفاظ کو اپنی سیاست چمکانے کے لئے استعمال سے گریز کرنا چاہئے، لیکن بہرحال ”ریاست مدینہ“ کے نام کا استحصال بدستور جاری ہے۔
جہاں تک سیاست کا تعلق ہے،عمران خان نے ”مثالی“ پولیس کا وعدہ کیا تھا۔ وزیراعظم بن جانے کے بعد انہوں نے اپنا وعدہ پورا کرنا تھا۔ الیکشن میں انہوں نے خیبر پختونخوا کے سابق آئی جی ناصر درانی کو الیکشن سلوگن کے طور پر استعمال کیا۔ ناصر درانی کا شمار پولیس کے انتہائی نیک نام اور قابل افسران میں ہوتا تھا۔ و ہ تقریباً چار سال آئی جی رہے، جس میں ان کی پیشہ وارانہ قابلیت اور ایمانداری کا اعتراف سب نے کیا۔ اسی لئے جب عمران خان نے الیکشن میں اپنے ”پوسٹر بوائے“ کے طور پر ان کو استعمال کیا تو بہت سے لوگوں کو توقع ہو گئی کہ عمران خان حکومت میں آ کر ان کی خداداد صلاحیتوں اور قابلیت کا درست استعمال کر کے پنجاب پولیس کو ”مثالی“ بنائیں گے،لیکن حکومت ملنے کے بعد دوسری تمام چیزوں کی طرح پولیس کے معاملہ میں بھی عمران خان نے اپنے وعدوں کے بالکل الٹ کام کئے۔ پنجاب پولیس کے سربراہ کو انہوں نے فٹ بال بنا دیا اور دو سال سے اس باوقارعہدہ کو صرف ککس (ٹھڈے) مار رہے ہیں۔
دو سال میں چھٹا آئی جی لگایا گیا ہے یعنی اوسط دورانیہ چار ماہ۔ اب چار یا چھ ماہ میں کوئی آئی جی کیسے ڈلیور کر سکتا ہے چاہے وہ کتنا ہی قابل اور پروفیشنل کیوں نہ ہو۔ ناصر درانی نے ڈلیور کیا تھا تو اس کی وجہ ان کو چار سال اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتیں استعمال کرنے کا پورا موقع ملا تھا۔ اگر انہیں بھی چار ماہ بعد تبدیل کر دیا جاتا تو وہ کیسے ڈلیور کرتے۔ پی ٹی آئی حکومت میں جس طرح آئے دن پولیس اور بیوروکریسی کو دو سال سے تاش کے پتوں کی طرح پھینٹا جا رہا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خبر تو تب بنے گی جب کوئی آئی جی، چیف سیکرٹری یا کسی بھی محکمہ کا سیکرٹری ایک سال اپنے عہدہ پر پورا کرے گا۔ پنجاب کی ”مثالی“ پولیس نے غیر مثالی ہونے کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں، جس کی وجہ سے نہ صرف افسران میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے،بلکہ اس کا خمیازہ براہِ راست پنجاب کے 12 کروڑ عوام کو جرائم میں بے پناہ اضافہ کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
عمر شیخ کو لاہور کا سی سی پی او لگانے کے وقت سے ہی ایسا کٹا کھلا ہے کہ باندھے نہیں بندھ رہا۔ان کی تقرری پہلے منٹ سے ہی عہدہ کے لئے درکار سینیارٹی نہ ہونے اور ان کے غیر تسلی بخش کیرئیر ریکارڈ کی وجہ سے متنازعہ تھی۔یہی وجہ تھی کہ پروموشن بورڈ ان کی بیسویں سے اکیسویں گریڈ میں ترقی نہیں کر رہا تھا۔ کیرئیر کے دوران آئی بی اور انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے ان کے بارے میں رپورٹس اچھی نہیں رہیں۔ پنجاب کے دارالحکومت، پونے دو کروڑ آبادی کے شہر اور پاکستان کے دل لاہور میں پولیس کا سربراہ ایک انتہائی نیک نام، اعلیٰ پروفیشنل، قابل، محنتی اور سینئر افسر ہونا چاہئے جسے نہ صرف اپنے سینئرز کا اعتماد ہونا چاہئے،بلکہ وہ اپنے ماتحت افسران کا بھی مان ہو اور وہ اس کا نام عزت و احترام سے لیں۔
بد قسمتی سے عمر شیخ کے معاملہ میں ایسا نہیں تھا، اسی لئے جب انہیں لگایا گیا تو مَیں نے خود دیکھا کہ سینئر افسران میں شدید اضطراب اور جونیئرافسران میں اشتعال پایا جا رہا تھا۔ عمر شیخ کو سی سی پی او لاہور لگاتے وقت آئی جی پنجاب سے مشورہ نہ کرنا غلط طریقہ کار تھا۔ پنجاب 12 کروڑ آبادی کا صوبہ ہے اور اگر آئی جی کو صوبہ کی سب سے اہم تعیناتی کے وقت بائی پاس کیا جائے تو ایسے انتظامی فیصلے نہ صرف پوری پولیس فورس کا مورال زمین بوس کر دیتے ہیں، بلکہ امن و امان کی صورتِ حال کو شدید خطرہ میں ڈال دیتے ہیں۔ پولیس کا نظام مورال پر چلتا ہے، اوپر سے آئے ہوئے انتظامی فیصلوں پر نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کتنے ”با اختیار“ ہیں، اس لئے ظاہر ہے یہ حکم نامہ بھی اوپر کہیں سے آیا تھا۔ اس کے بعد بائیسویں گریڈ کے آئی جی کو ایک ماتحت بیسویں گریڈ کے افسر کے سامنے ایسے رنگ میں کھڑا کر دیا گیا جیسے سومو ریسلنگ کا مقابلہ کروانا ہو۔
یہ سب کچھ نا قابل یقین اور شرمناک تھا، لیکن پی ٹی آئی حکومت کی گورننس دو سال سے ایسے ہی چلائی جا رہی ہے۔ ان دو سالوں میں ثابت ہو گیا ہے کہ ناتجربہ کار لوگ حکومت نہیں چلا سکتے۔ خارجہ پالیسی سے لے کر امورِ داخلہ، وزارتیں، معیشت، گورننس، غرض یہ کہ ہر چیز تباہی کے دہانہ پر پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کو تقریر کرنے والے وزیراعظم کی نہیں بلکہ تجربہ کار وزیر اعظم کی ضرورت ہے،جو ملک کو گرداب سے باہر نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ صرف چند ماہ پہلے پنجاب میں چیف سیکرٹری اور آئی جی کو وزیراعظم عمران خان جس چاؤ سے لے کر آئے تھے، انہیں عضوِ معطل بنا کر نکال باہر کرنے سے پی ٹی آئی حکومت کے گورننس ماڈل کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹ چکی ہے۔ پاکستان کوئی کھلونا نہیں ہے کہ اسے ناتجربہ کار لوگوں کے کھیلنے کے لئے دے دیا جائے۔ یہ 22 کروڑ جیتے جاگتے لوگوں کا ملک ہے، جنہیں روٹی اور روزگار چاہئے، جان و مال اور اپنی بہنوں بیٹیوں کی آبرووں کی حفاظت چاہئے، دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ سے نجات چاہئے، عزت نفس اور وقار کی بحالی چاہئے۔ کیا پی ٹی آئی حکومت اور عمران خان یہ سب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کا جواب ان کی حکومت کی دو سالہ کارکردگی دیکھنے سے مل جاتا ہے۔
عمر شیخ کی تعیناتی کے بعد موٹروے پر افسوس ناک واقعہ پیش آیا تو لوگوں کا دھیان ان کی غلط تعیناتی سے ہٹ کر واقعہ کی طرف چلا گیا۔ اس اثنا عمر شیخ کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کا بہت چرچا رہا۔ اس کا بھی انہیں فائدہ ہی ہوا کہ لوگوں کا فوکس یہ”بیانات“ بن گئے اور وہ بھول گئے کہ پونے دو کروڑ لوگوں کی حفاظت کے ذمہ دار کا ”میرٹ“کیا ہے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے چار دن بعد ایک شو کاز نوٹس بھیجا ہے، جس میں عمر شیخ سے سات دن کے اندر ان کے بیانات کی وضاحت مانگی گئی ہے، گویا پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔گونگلووں سے مٹی جھاڑنے سے حکومت کی کارکردگی بہتر نہیں ہو سکتی۔ شو کاز نوٹس بھیجنے کی بجائے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو گولڈ میڈل عمر شیخ کو دینا چاہئے تھا،کیونکہ ان کی ”شاندارکارکردگی“ کی وجہ سے لوگوں کا دھیان حکومت کی نااہلی کی بجائے پولیس کی طرف چلا گیا ہے، سانحہ موٹر وے ناکام ترین گورننس کی عظیم الشان مثال ہے، اس سانحہ کی اصل ذمہ دار وفاقی حکومت ہے۔لاہور سیالکوٹ موٹروے کو کریڈٹ لینے کے لئے ضروری انتظامات کئے بغیر عجلت میں شروع کر دیا گیا۔ یہ وزارتِ مواصلات اور اس کے ماتحت اداروں کی مجرمانہ غفلت تھی، جس کی براہِ راست ذمہ داری وزیراعظم عمران خان کے سب سے چہیتے وزیر مواصلات مراد سعید اور اس وقت کے سیکرٹری مواصلات جواد رفیق ملک پر عائد ہوتی ہے۔
غیر ذمہ داری اور ناتجربہ کاری کا یہ عالم ہے چھ ماہ گذر جانے کے بعد بھی وہاں موٹروے پولیس، سیکورٹی اور پٹرولنگ کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا، حتی کہ ایسا سانحہ رونما ہوا کہ پورا ملک سراپا احتجاج ہے۔ لاہوررنگ روڈ کسی بھی پولیس کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے، کیوں؟کیا یہ کمشنر لاہور کو رپورٹ کرتی ہے؟پنجاب پولیس کی پی ایچ پی موٹرویز کو کنٹرول کرتی ہے، لیکن رنگ روڈ لاوارث ہے، کیوں؟ سوالات پوچھنے ہیں تو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سے پوچھیں، وفاقی وزیر مواصلات اور وفاقی سیکرٹری مواصلات سے پوچھیں، آئی جی موٹروے پولیس، سربراہ لاہور پولیس اور کمشنر لاہور سے پوچھیں۔ عمران خان کا پاکستان‘ گورننس کی ناکامی کا پاکستان ہے، جس میں تمام سسٹم کریش کر چکے ہیں۔ ”مثالی پولیس“ کو بھول جائیں کیونکہ یہ ایک سیاسی اور انتخابی نعرہ تھا۔ جتنا پولیس کا بیڑہ غرق ان دو سال میں ہو چکا ہے ویسا پچھلے 70 سال میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ پولیس کا مورال ڈاؤن ہی نہیں، بلکہ زندہ درگور ہو چکا ہے۔ وصی شاہ کہتے ہیں ……
یہ دنیا جنت نہیں مگر ایسی دوزخ بھی نہیں
جیسی ہم نے اس خطہ ارضی پہ بنا رکھی ہے