”یہ شاہراہیں اسی لئے بنی تھیں کیا کہ ان پر دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے“
آج انسانی جان اتنی سستی ہوچکی ہے کہ گھر سے باہر پاؤں رکھنے والے کے سلامت لوٹ آنے کی امید قائم کرنا بھی ممکن نہیں رہا، انسانی ہلاکتوں کے تواتر سے رونما ہونے والے واقعات انسانی جان کی بے قدری کا پتہ دے رہے ہیں،ایک طرف آئے روز لوگ دیرینہ دشمنیوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں تو دوسری طرف لوٹ مار کی وارداتوں میں مزاحمت پر لٹیروں اور راہزنوں کے ہاتھوں انسانی جانیں لقمہ اجل بن رہی ہے جبکہ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہے اور رہی سہی کسر روڈ حادثات نے نکال دی ہے ان تمام عوامل میں انسانی جانوں کا ضیاع بلاشبہ قدر مشترک ہے مگر روڈ حادثات اس لئے نہایت باعث تشویش ہیں کہ انکی روک تھام کی خاطر باقاعدہ محکمہ موجود ہے جس کے افسران و ملازمین بھاری تنخواہیں اور مراعات حاصل کررہے ہیں، پٹرولنگ کیلئے گاڑیاں اور فیلڈ ڈیوٹی کیلئے ٹریفک پولیس ملازمین کو قیمتی موٹر سائیکلیں میسر ہیں مگر ٹریفک پولیس کی گاڑیاں اکثر افسران کے اہلخانہ کی تفریح اور سفری سہولت یا گھریلو مال برداری کے کام میں لائی جاتی نظر آتی ہیں اور سرکاری موٹر سائیکلوں کے استعمال کا حال اس سے بھی ابتر ہے جنہیں ٹریفک پولیس ملازمین کے بچے یا دیگر اقرباء دوڑائے پھرتے ہیں تاہم فیلڈ ڈیوٹی کیلئے استعمال کی جانیوالی اکثر گاڑیاں پوری طرح چل پانے کے بھی قابل نہیں ہوتیں۔ سب سے بڑھ کر تشویشناک و باعث افسوس عمل ٹریفک پولیس ملازمین کی مبینہ رشوت ستانی و بھتہ خوری ہے جس کے کسی سے ڈھکی چھپی نہ ہونے کے باوجود روک تھام کیلئے کبھی کوئی ٹھوس اقدا مات نہیں اٹھائے گئے۔ شہری آبادیوں میں تو گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے چالان کاٹنے کی آڑ میں بھی نہ صرف مبینہ بھتہ خوری کی جاتی ہے بلکہ رکشاؤں و چھوٹی بڑی مسافر گاڑیوں کو روک کر انکے مالکان یا عملہ سے سیدھا وردی کے نام پر وصولی کی جاتی ہے، ان حالات میں کیسے ممکن ہے کہ روڈ سیفٹی کی خاطر اقدامات اٹھائے جاسکیں یا حادثات کی روک تھام پر توجہ دی جاسکے لہذاٰ گاڑیاں سڑکوں پر سرپٹ دوڑتی نظر آتی ہے اور بے ہنگم ٹریفک کے باعث حادثات معمول بن چکے ہیں جن کے نتیجہ میں قیمتی انسانی جانیں لقمہ اجل بن رہی ہیں شیخوپورہ میں فقط گزشتہ چند روز کے دوران درجنوں مرد و خواتین اور بچے اگلے جہان سدھار چکے ہیں، ہفتہ بھر قبل سرگودھاروڈ دھنت پورہ پارکوآئل ڈپو کے قریب تیزرفتار ٹیوٹا ویگن اور آئل ٹینکر میں تصادم کے نتیجہ میں مردوخواتین سمیت11مسافر زخمی ہوئے جن میں سے ایک شدید زخمی مسافر ہسپتال پہنچ کر دم توڑ گیا، اگلے روز فیصل آباد روڈ پرچوکی جیونپورہ کے قریب موٹرسائیکل سوار گدھا ریڑھی سے ٹکراگئی جس کے نتیجہ میں ایک موٹر سائیکل سوار نوجوان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر جان بحق ہوگیا اسی طرح اگلے روز دو حادثات میں دو افراد کی جان چلی گئی،کالا خطائی روڈ پر شیری پورہ کے قریب تیزرفتار ڈمپر نے موٹرسائیکل سوارعبدالقدیر سکنہ نارنگ منڈی کوکچل ڈالا، مقامی آبادی ٹیوب ویل نمبر 4 کا رہائشی نوجوان وقاص احمدان مینڈ پھاٹک پر سے گزرتے ہوئے ٹرین کی زد میں آکر جان کی بازی ہار گیا، اس سے اگلے روز حافظ آبادروڈ موٹروئے انٹر چینج ہرن مینار کے قریب تیزرفتار موٹرسائیکل سوار ثناء اللہ نامی پولیس اہلکار اوور ٹیک کرتے ہوئے فٹ پاتھ سے ٹکرا کر حادثہ کا شکار ہونے کے باعث جان بحق ہوگیاجبکہ بدھ کے روز ماچھیکے سرگودھاروڈ پر کارسے ٹکر انے کے بعد آئیل ٹینکر کی زد میں آکر کچلے جانے والے کے باعث موٹرسائیکل سوار میاں بیوں موقعہ پر ہی جان بحق ہوگئے جن کی شناخت 52سالہ قدیر اوراسکی50سالہ اہلیہ طیبہ بانو کے نام سے ہوئی جو اپنی رہائشگاہ واقع چادر چک نذد مریم آباد سے لاہور روڈکی آبادی کوٹ پنڈی داس میں وفات پانے والے قریبی عزیز کے اظہار تعزیت کیلئے جارہے تھے کہ بے ہنگم ٹریفک کی نذر ہوگئے۔
واضح رہے کہ یہ وہ چند واقعات ہیں جنہیں تذکرہ کی غرض سے بیان کیا گیا جبکہ حالیہ دنوں ہونے والے ٹریفک حادثات کی تعداد اس سے کہیں بڑھ کر ہے جن میں بعض انسانی جانیں لقمہ اجل نہیں اور درجن بھر کے جسم کے مختلف اعضاء کٹ جانے کے باعث عمر بھر کی معذوری ان کا مقدر بنیں۔ روڈ حاد ثہ کی وجہ کچھ بھی ہو یا غلطی کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہو حادثہ میں ہونے والی اموات کو مقدر کا لکھا تصور کیا جاتا ہے جس میں کلیدی کردار ٹریفک پولیس کا ہے جس نے یہ سوچ عوام میں پیدا کی ہے، بے ڈھنگی گاڑیاں چلانے اور روڈ پر گاڑیوں تلے لوگوں کو کھلے عام کچل دینے والوں کو کوئی پوچھنے والا ہیں نہ غلط اوور ٹیک کرتے ہوئے کسی کوٹکر مار کر ہلاک کردینے والوں کا کوئی موثر ٹرائل کیا جاتا ہے اور چونکہ ٹریفک پولیس کو اپنی مٹھی گرم کرنے سے فرصت نہیں ہوتی تو ٹریفک حادثات کی روک تھام پر توجہ کون دے؟
٭٭٭
بے گناہ انسانی جانیں کیسے بچائی جا سکتی ہیں؟
سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی بڑی وجہ ٹریفک پولیس کی نااہلی ہے