بانی پاکستان اور ان کے ساتھیوں کو سلام
ستمبر کی 11 تاریخ کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ دنیا سے رخصت ہوئے تھے، اسی تاریخ کو امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ساتھ مبینہ طور پر طیارے ٹکرائے تھے جس میں ہزاروں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ، ہر سال امریکہ میں اس دن سوگ منایا جاتا ہے, مرنے والوں کی یاد میں یاد تقریبات منعقد کی جاتی ہے لیکن مقام افسوس ہے کہ جس رہنما نے برصغیر میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے اپنی بیماری تک کو نظر انداز کیا، اس بار ان کے لیے کوئی قابل ذکر تقریبات نہیں ہوئیں، افغانستان میں ہونے والے بدلاؤ کو الیکٹرانک میڈیا بھی نہیں بھولا،لیکن بانی پاکستان کی وفات کا ذکر نہ ہونے کے برابردیکھنے کو ملا۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے حصول پاکستان کے لیے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بھرپور جدوجہد کی دن رات ایک کرکے ان کی آواز بن کر انگریزوں اور ہندوﺅں کے ساتھ مقابلہ کیا۔ 1857کی جنگ آزادی کے بعد جب انگریز پورے برصغیر پر قابض ہوگئے تو ایک الگ سیاسی جماعت سامنے آئی جس کا نام کانگریس تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے 1913ءسے لے کر 1947ءتک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے۔
بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنماءکے طورپر ابھرے، اپنی سیاست کے ابتدائی ادوارمیں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا ، 1916ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ اورآل انڈیا کانگریس کے درمیان میثاق لکھنو کو مرتب کرنے میں بھی اہم کردار اداکیا۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماﺅں سے تھے۔ 1940ءتک قائداعظم کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو الگ وطن کے قیام کا عمل ضروری ہے۔1940ءمیں قرارداد پاکستان منظور ہوئی جس کا مقصد نئی مملکت کے قیام کا مطالبہ تھا۔ کانگریس میں قائد اعظم محمد علی جناح جیسے سوچ رکھنے والے ارکان کی کمی تبھی ہوئی جب گوپال کرشنا گھوکھلے 1915ءمیں انتقال کرگئے۔ اس کے بعد جواہر لال نہرو کانگریس کے لیڈر بن گئے۔
علامہ اقبال کے نظریات کا قائد اعظم کی زندگی پر بہت گہرا اثرا ہوا، اسی اثر کے نتیجے میں پاکستان کے قائم ہونے کی راہ ہموار کی ۔ ابتداءمیں علامہ اقبال اور قائداعظم کے نظریات مختلف تھے۔ آرچینیالڈویول نے 1943ءمیں سبکدوش ہونے والے وائسرائے کی جگہ لی ۔
اس وائسرائے نے جون 1945ءمیں تمام جماعتوں کے معروف رہنماﺅں کو شملہ میں مدعو کرکے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا۔ شملہ کانفرنس میں تمام رہنماءاس بات پر رضامند نہیں تھے کہ مسلمانوں کے لیے مخصوص نشستوں پر مسلم امیدوار کھڑے کیے جائیں۔ خیر بات کہاں سے کہاں تک آگئی، قائداعظم 1930سے ٹی بی کے مہلک مرض میں مبتلاءتھے لیکن انہوں نے یہ بات عوام کے سامنے نہ آنے دی تاکہ ان کے حامی مسلمان کسی مایوسی کا شکار نہ ہوجائیں۔
دن رات کی محنت، سیاسی جنگ لڑتے لڑتے قائد اعظم جسمانی طورپر کافی کمزور ہوچکے تھے لیکن انہوں نے اس بات کا اعلان عوام میں نہیں کیا کیونکہ ان کے نزدیک یہ انہیں سیاسی طورپر نقصان دے سکتا تھا۔ اس بات کا اعتراف کئی سال بعد لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے کیا کہ اگر انہیں قائداعظم محمد علی جناح کی بیماری کا علم ہوتا تو وہ یقینا ان کی موت کا انتظار کرتے۔
آزادی پاکستان کے بعد جب قائداعظم پہلے گورنر جنرل مقررہوئے تو مصروفیات میں مزید اضافہ ہوگیا، وہ جنون کی حد تک پاکستان کو سہارا دینے کے لیے کام کرتے رہے اور اپنی صحت کو مکمل نظرانداز کردیا۔جون 1948ءمیں قائداعظم کوئٹہ روانہ ہوئے، وہاں پر کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کے افسروں سے خطاب کیا ۔یکم جولائی کو کراچی میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جلسے سے خطاب کیا ، جوکہ ان کی زندگی کا آخری خطاب تھا۔
جولائی 1948 ءمیں قائداعظم زیارت منتقل ہوگئے ، ان کی صحت روز بروز گرتی جارہی تھی ۔ 9ستمبر کو قائدا عظم کو نمونیا ہوگیا اور انہیں کراچی واپس منتقل کیاگیا تب تک قائداعظم کا وزن محض 36کلوگرام رہ گیا تھا، 11ستمبر صبح کے وقت کراچی کے لیے روانہ ہوئے اور کراچی پہنچ کر پاکستان بننے کے ایک سال بعد وفات پا گئے۔ ان کے جنازے میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے ، مقام افسوس یہ ہے کہ جس شخص نے ایک آزاد وطن کے لیے اتنی محنت کی ، تمام آسائشیں موجود ہونے کے باوجود اپنے درد کو اپنے اندر چھپا کر انگریزوں اور ہندوؤں کے سامنے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن کر دن رات کھڑے رہے لیکن ان کی تمام محنت اور قربانیوں کے صلے میں ان کو تا قیامت یاد رکھنے کے بجائے ان کی برسی کو نظر انداز کر کے دوسرے کاموں کو یاد رکھا گیا لیکن بانی پاکستان کو یاد نہیں رکھا گیا کل ان کے لیے باقاعدہ طورپر سرکاری سطح پر بھی کوئی تقریب نہیں ہوئی ۔اس معاملے پر غور کرنا بہت ضروری ہے ورنہ ہماری نسلیں اس دن کی اہمیت سے ناواقف رہتے رہتے بھول جائیں گی ، آخر میں بانی پاکستان اور ان کے مخلص ساتھیوں کو سلام
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.