سیلاب کی آفت میں راحت آگیں کاوشیں!
مملکت خدا داد پاکستان، اس وقت تاریخ کے ہولناک اور تباہ کن سیلاب کی زد میں ہے پانی جو کہ حیات بخشش و حیات آفرین ہے اس وقت پاکستان اور اہل پاکستان کے لئے وجہ تباہی و آزمائش بنا ہوا ہے، جہاں جہاں سے آب سیل گزر رہا ہے وہاں وہاں تباہی و بربادی کے نقوش و حکایات چھوڑتا چلا جا رہا ہے۔ ہر طرف شکست و ریخت اور آہ و بکاہی کے آثار ہیں۔ جدھر دیکھیں ایک واویلا ہے کہ جس میں کوئی مبالغہ آمیزی نہ ہونے کے باوجود، دل گرفتگی اور جگر پاشی کی سرخیاں نمایاں ہیں اور صداؤں میں ہچکیوں کی بازگشت ہی بلند ترین ہے۔ بستیوں کی بستیاں تباہ ہو گئی ہیں۔ معاشرتی طور پر ہر طرف تہہ و بالا ہوتی زندگیاں دکھائی دے رہی ہیں، حالات کی اس گھمبیرتا پر اپنے نڈھال ہیں اور غیر غمگین۔ بلکتے انسانوں کو دیکھ کر، دل درد سے پھٹنے لگتے ہیں ماتم زدگی میں زبانوں کے الفاظ ختم بھی ہو جائیں تو بھی آنکھوں سے آنسو تھمنے ہی پر نہیں آپاتے۔
ذرائع ابلاغ، صبح و شام، دکھ درد کی ان بکھری کہانیوں سے آگاہ کرنے اور دھائی دیتی انسانیت کی عکاسی کرتے رہتے ہیں بہت کچھ وہ لوگ بھی بتاتے اور رلاتے ہیں، جو ان متاثرہ علاقوں اور بے کسوں کا خود مشاہدہ کر کے آتے ہیں، ان غمناک کہانیوں اور المناک داستانوں کو سن اور جان کر ہر درد دل رکھنے والا پاکستانی، اپنی اپنی سکت اور حیثیت کے مطابق، اعانت و امداد کو آگے بڑھ آیا ہے جس سے جو ہو سکا ہے، وہ کرنے کو مستعد دکھائی دے رہا ہے۔ اپنے متاثرہ بھائیوں کے لئے لوگوں نے اپنے دل کھول کے رکھ دیئے ہیں، جگہ جگہ لگے ریلیف کیمپ محبتوں اور ایثار کے مظاہر پیش کر رہے ہیں۔ سرمایہ داروں سے لے کر مزدوروں تک اور بوڑھوں سے لے کر بچوں تک ہر کوئی اپنی حیثیت کے مطابق حصہ ڈال رہا ہے۔
ایثار کی ایسی ایسی مثالیں سامنے آ رہی ہیں کہ قرونِ اولیٰ کی یادیں تازہ ہو جائیں۔ غزوہ تبوک کہ جسے قرآنی اصطلاح میں ”ساعت عسرہ“ یعنی مشکل ترین گھڑی، کہا جاتا ہے جب رسالت مآبؐ نے تعاون کی ہدایت فرمائی تو ہر ایک سبقت لیجانے میں لگ گیا، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے اپنے سرمایہ کا ڈھیر، اپنے آقا کے قدموں میں لا لگایا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے کل اثاثہ دو حصوں میں تقسیم کیا، ایک گھر والوں کی ضروریات کے لئے چھوڑا اور باقی سب لا کر خدمتِ رسالت پناہی میں پیش کر دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس جو کچھ تھا، سبھی لا کر اپنے آقا و مولاؐ کے حضور رکھ دیا اور پوچھنے پر کہا ”گھر میں صرف اللہ و رسول کی محبت کے سوا کچھ نہیں چھوڑا“ تبھی تو اقبال عشق آگیں نے کہا تھا کہ
پروانے کے لئے چراغ ہے، بلبل کے لئے پھول بس
اور صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس
انہی مدنی فداکاروں میں ایک جناب ابو عقیل انصاریؓ بھی تھے کہ جن کے پاس دینے کو کچھ بھی نہ تھا انہوں نے منت کر کے ایک یہودی کے ہاں رات بھر مزدوری کی، اس کی زمینوں کو پانی لگاتے رہے، صبح دم، صرف ایک صاع (اڑھائی کلو) کھجوریں اُجرت میں ملیں تھوڑی سے گھر والوں کی بھوک مٹانے کو چھوڑیں باقی لا کر پیارے رسولؐ کے سامنے رکھ دیں۔ سوہنے نبی اکرمؐ کو ان کا اخلاص اتنا پسند آیا کہ حکم دیا،”ابو عقیلؓ کی کھجوریں جمع شدہ سامان و مال کے اوپر بکھیر دو، تاکہ یہ سب کی اعانت کے اوپر اور نمایاں رہیں“ عرش والے نے بھی اس غریبانہ اخلاص کو اتنا پسند کیا کہ سورہ توبہ کی آیت نمبر79، انہی ابو عقیلؓ کی شان میں نازل فرما دی کہ اس کے ہاں خزانوں کی نہیں اخلاص و ایثار کی قدر ہے، وہاں گوشت اور خون نہیں تقویٰ پہنچتا ہے۔
ہم چند دوستوں نے مل کر پروگرام بنایا کہ ہم بھی سیلاب کے متاثرہ علاقوں میں خود جائیں اور متاثرین سے مل کر ان کے حالات و حوصلہ کو دیکھیں اور جو ہو سکے حصہ ڈالنے کی کوششیں کریں۔ پچھلے اتوار، پیر کو ہم ڈی جی خان، راجن پور کے علاقوں میں چلے گئے، وہاں ہر طرف سیلاب زدگی کا دور دورہ تھا۔
فصلوں کی تباہی، راستوں کی پامالی، بستیوں اور گھروں کی بربادی، لوگوں کی ویرانی اور بے کسی دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے لگا، پاکستان کے مختلف طبقات بالخصوص دینی جماعتیں اپنے اپنے طور پر ریلیف میں مصروف ہیں سب ہی بڑھ چڑھ کر کام کر رہی ہیں، لیکن ہم نے جو مشاہدہ کیا، اس میں سینئر ڈاکٹر عبدالکریم (جو مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ناظم اعلیٰ اور وزیراعظم کے معاون خصوصی بھی ہیں) اپنے ”زم زم ویلفیئر ٹرسٹ“ اور جماعتی شعبہ خدمت خلق کے تحت پہلے روز سے، بذات خود بھی، متحرک و مصروف کار ہیں، ان کے کارکنان نہ صرف ڈی جی خان، راجن پور، تونسہ، بلکہ سندھ، بلوچستان اور کے پی کے، کے اندرونی و دور دراز علاقوں تک امداد و اعانت کا سامان پہنچا رہے ہیں، ہمارے سامنے روزانہ پانچ سے چھ سو گھرانوں میں خیموں کے ساتھ نقد رقوم اور گھریلو سامان دیا جا رہا تھا، گھروں سے بے گھر ہونے والے افراد کے لئے سینکڑوں دیگیں پکوا کر، کھانا فراہم کیا جا رہا ہے (جبکہ پانچ ہزار مکان بنا کر دینے کا اعلان بھی کر چکے ہیں) متاثرہ جگہوں پر200سے زائد میڈیکل کیمپ،150کے قریب دستر خوان قائم کئے جا چکے ہیں۔
ان کی ٹیم کے پاس وسیع اعداد و شمار ہیں جو بعینہٖ نقل کرنے کی بجائے ان کے کام کی تحسین کرتے ہوئے دوسروں کو رغبت دلانا مقصود ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم میں سے ہر ایک شخص آگے بڑھے اور بغیر کسی تمیز و سیاست کے اپنے پیارے وطن اور اپنے لوگوں کی مدد کرے۔ یہ صرف کہنے کی بات نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ معاشی طور پر کمزور ملک کے لئے یہ سیلاب ایک بہت بڑا دھچکا اور آزمائش ہے، اس موقع پر ”سیاست بازی“ یا ریلیف کے ملکی و غیر ملکی منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا، نہ صرف ملک دشمنی ہو گا بلکہ خلافِ انسانیت بھی ہو گا۔
ہر ایک آگے آئے، جو ہو سکے کرے، جہاں دل ٹھہرے یا جس پر اعتماد ہو، اس کے ساتھ مل کر ریلیف میں مصروف و متحرک ہو جائے اور ساتھ ساتھ اپنے رب، قادرِ مطلق کے حضور اپنے دل کو، دست بدعا، بنالے کہ وہ اس ملک اور یہاں کے باشندوں پر اپنی رحمت و برکات کے دروازے کھول دے۔ آمین ثم آمین