وکٹری کی اولین رات ، ہم سوئمنگ پول کے گرد چہل قدمی کر رہے تھے
مترجم:علی عباس
قسط: 76
طائفہ کنساس سٹی پہنچ گیا تھا۔ یہ وکٹری کی اولین رات تھی۔ ہم شام کے وقت ہوٹل کے سوئمنگ پول کے گرد چہل قدمی کر رہے تھے۔ فرانک ڈیلیو کا توازن بگڑ گیا اور وہ پول میں گِر گیا۔ لوگوں نے اسے دیکھا اور وہ پُرجوش ہو رہے تھے۔ ہم میں سے کچھ پریشان ہو گئے لیکن میں ہنس رہا تھا۔ وہ زخمی نہیں ہوا تھا اور حیران دکھائی دے رہا تھا۔ ہم نے چھوٹی دیوار سے چھلانگ لگائی اور خود کو سکیورٹی کے بغیر ایک گلی میں کھڑے پایا۔ لوگ یہ یقین کرنے پر تیار نہیں تھے کہ ہم اُن کے اردگرد گلی میں یوں چہل قدمی کر سکتے تھے۔ انہوں نے ہمیں نظر انداز کیا تھا۔
بعدازاں جب ہم ہوٹل واپس آئے، ہم نے بل برے کو یہ کہانی سنائی۔ اُس نے سرہلایا اور قہقہہ لگایا۔وہ میری سکیورٹی ٹیم کا اُس وقت سے سربراہ تھا جب میں ابھی بچہ تھا۔
بل بہت زیادہ محتاط اور اپنے پیشہ ورانہ امور پر بہت زیادہ توجہ دیتا ہے لیکن وہ واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے بعد پریشان نہیں ہوتا۔ وہ میرے ساتھ ہر جگہ جاتا ہے اور اکثر مختصر دوروں کے دوران میرا واحد ساتھی ہوتا ہے۔ میں بل کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کر سکتا: وہ پُرجوش اور مزاح سے بھرپور شخصیت کا مالک ہے اور زندگی سے بہت زیادہ محبت کیا کرتا ہے۔ وہ ایک شاندار آدمی ہے۔
جب ہمارا طائفہ واشنگٹن ڈی سی میں تھا، میں باہر ہوٹل کی بالکونی میں فرانک کے ساتھ کھڑا تھا۔ اُس کی حسِ مزاح بہترین تھی اور وہ اٹھکیلیاں کرکے لطف اندوز ہوتا تھا۔ ہم ایک دوسرے کو تنگ کر رہے تھے۔میں نے اُس کی جیب سے سو سو ڈالر کے نوٹ نکالنا شروع کر دیئے اور انہیں نیچے لوگوں پر پھینکنا شروع کر دیا۔ یہ ہنگامے کی وجہ بننے لگا تھا۔ وہ مجھے روکنے کی کوشش کر رہا تھا اور ہم دونوں قہقہے لگا رہے تھے۔ اِس نے مجھے اُن اٹھکیلیوں کی یاد دلا دی جو ہم بھائی دورے کے دوران کرنے کے عادی تھے۔ فرانک نے سکیورٹی کے لوگوں کو نیچے جھاڑیوں میں پوشیدہ رہ جانے والی رقم ڈھونڈنے کےلئے بھیجا۔
جیکسن وِلے میں سٹیڈیم سے ہوٹل تک، چند فرلانگ کے فاصلے کے دوران مقامی پولیس نے ہمیں ایک ٹریفک حادثے میں تقریباً مار ہی دیا تھا۔ بعدازاں فلوریڈا کے ایک دوسرے مقام پر جب پرانے دورے سے مشابہہ یاسیت چھانے لگی جس کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے، میں نے فرانک کے ساتھ ایک چھوٹا سا مذاق کیا۔ میں نے اُس سے اپنے کمرے میں آنے کو کہا اور جب وہ آگیا تو میں نے اُسے خربوزوں کی پیشکش کی جو کمرے کے دوسرے سِرے پر ایستادہ میز پر پڑے تھے۔ فرانک خربوزہ پکڑنے کےلئے گیا اور اُس کا پاﺅں میرے سانپ Muscles کے ساتھ اُلجھ گیا تھا جو اس سفر میں میرا ہمراہی تھا۔ Muscles ضرر رساں نہ تھا لیکن فرانک کو سانپوں سے نفرت تھی اور وہ چیخا اور چلایا تھا، میں نے کمرے میں اُس کا سانپ کے ساتھ تعاقب شروع کر دیا، فرانک طاقتور تھا تاہم وہ دہشت زدہ ہو گیا تھا۔ وہ کمرے سے بھاگ گیا اور سکیورٹی گارڈ کی بندوق پکڑ لی۔ وہ Muscles کو مارنے جا رہا تھا لیکن گارڈ نے اُسے پُرسکون کیا۔ بعد ازاں اُس نے بتایا کہ وہ صرف اس بارے میں ہی سوچ سکتا تھا: ”مجھے اس سانپ کو مارنا ہے۔“ مجھے ادراک ہوا کہ اس قدر سخت جان آدمی سانپوں سے خوفزدہ ہے۔
ہم بیتے دنوں کی طرح سارے امریکہ کے ہوٹلوں میں محصور رہے تھے۔ جرمین اور میں یا رینڈی اپنے پرانے مذاق کیا کرتے، پانی کی بالٹیاں پکڑتے اور انہیں ہوٹل کی بالکونیوں سے بہت نیچے کھانا کھانے میں مصروف لوگوں پر انڈیل دیتے۔ ہم بہت زیادہ اوپر تھے، اس لئے پانی اپنی منزل پر پہنچنے تک پھواَر کا روپ دھار لیتا تھا۔ یہ بالکل گزرے ہوئے دنوں کی طرح تھا، ہم ہوٹلوں میںیاس زدہ ہوتے اور اپنی خود کی حفاظت کے لئے شائقین سے دور تھے، بہت زیادہ سکیورٹی کے بغیر کہیں پر بھی نہیں جا سکتے تھے۔( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔