سندھ کا آثار قدیمہ اور درگاہیں
سندھ کے آثارِ قدیمہ اور اولیاء اللہ کی درگاہوں کو محفوظ بنانے کے حوالے سے سندھ ہائیکورٹ میں دائر ایک درخواست پر سماعت ہوئی جس میں انکشاف ہوا کہ درگاہوں سے جمع ہونے والی رقم ٹرسٹ کے اکاؤنٹ میں جمع نہیں کرائی جاتی، عدالت نے اِسے رقوم دینے والوں کے ساتھ دھوکہ قرار دیا۔ محکمہ اوقاف نے بتایا کہ مستحقین کو ایک ہزار روپیہ ماہانہ زکوٰۃ دی جاتی ہے جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ ہر ضلعے کی زکوٰۃ کمیٹی کے چیئرمین کی مراعات کیوں ہیں؟ مستحق افراد کو کم پیسے کیوں دیئے جاتے ہیں؟ درگاہوں پر آنے والے زائرین سے جوتے رکھنے کی فیس کیوں طلب کی جاتی ہے اور اِس کام کا ٹھیکہ کیوں دیا جاتا ہے؟ عدالت عالیہ نے یہ سوال بھی کیا کہ کارو نجرو پہاڑ کو قومی اثاثے کا درجہ دینے کا نوٹس کیوں نہیں جاری کیا گیا جبکہ عدالتی حکم پر ویب سائٹ تو بنائی گئی لیکن انڈومنٹ فنڈ بنانے سمیت دیگر تمام احکامات نظر انداز کر دیئے گئے، اِن پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوا؟ سندھ ہائیکورٹ میں مذکورہ درخواست کی سماعت کے دوران کیے گئے سوالات نے صوبائی گورننس پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ متعلقہ حکام خود پالیسی بنانے اور اُس پر عملدرآمد کرنے کے بجائے عدالتی احکامات کے انتظار میں رہتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ اور اوقاف نے بنیادی نوعیت کے مسائل بھی حل نہیں کیے۔بہتر ہو گا کہ تمام مزارات کے ٹرسٹ قائم کر دیئے جائیں تاکہ اِن سے حاصل ہونے والی آمدن سے نہ صرف اِن کا انتظام چلایا جا سکے بلکہ بروقت تزئین و آرائش سے اِنہیں محفوظ بھی بنایا جا سکے۔