سیاستدانوں کو مفید مشورے
پانامہ لیکس کے منظرعام پر آنے کے بعد پاکستانی سیاست میں بھونچال آگیا ہے، غیر معمولی سرگرمیاں پائی جا رہی ہیں، الزامات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ افواہوں کا بازار گرم ہے سیاستدان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں کہ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ جمہوریت سے عوام کا اعتماد ڈانواں ڈول ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پیر کے روز چیئرمین سینیٹ جناب رضا ربانی نے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے خبردار کیا اور کہا سنبھل جاؤ۔ 1973ء کے آئین کو مضبوطی سے پکڑ لو ورنہ خوف ناک نتائج کے لئے تیار رہو۔ منگل کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے گوادر میں پرامن، خوشحال بلوچستان اور پاک چائنہ اقتصادی راہداری کے حوالے سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا، محاذ آرائی چھوڑ کر سب ایک دوسرے کے ساتھ چلیں۔ ان کا تفصیلی خطاب بظاہر بین الاقوامی تناظر میں کیا گیا لیکن میرا ذاتی خیال ہے انہوں نے پاکستانی سیاستدانوں کوبھی مشورہ دیا ہے محاذ آرائی چھوڑ کر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنے کا وقت ہے۔ آرمی چیف نے دو ٹوک اور واضح انداز میں وہ باتیں کہہ دی ہیں جو شاید ہمارے سیاستدان کہنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ آرمی چیف نے دلیرانہ انداز میں کہا ’’را‘‘ پاکستان میں عدم استحکام پھیلانے میں پوری طرح ملوث ہے، بھارت سی پیک منصوبہ چیلنج کر رہا ہے‘ تمام سازشوں سے باخبر ہیں، کسی کو ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے نہیں دیں گے۔ اقتصادی راہداری کی سکیورٹی کی ذمہ داری ہر صورت نبھائیں گے، عالمی دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی بیرونی مدد روکنے کیلئے فاٹا آپریشن آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے ، اس میں کامیابی حاصل کریں گے۔ انہوں نے واضح کیاکہ ضرب عضب ایک آپریشن ہی نہیں ایک نظریئے کا نام ہے۔ ضرب عضب کا مقصد دہشت گردی، انتہا پسندی اور کرپشن کے گٹھ جوڑ کو توڑنا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی سکیورٹی ہماری ذمہ اری ہے، ہر صورت اس پر عملدرآمد کریں گے۔ اس اقتصادی راہداری منصوبے سے نہ صرف پاکستان اور چین بلکہ پورا خطہ مستفید ہوگا۔ آرمی چیف نے کہا ہم پاک چین راہداری منصوبے کے خلاف ہونے والی تمام سازشوں سے آگاہ ہیں۔ سیمینار کے دیگر مقررین اور آرمی چیف کے دو ٹوک مؤقف نے پوری دنیا کو بڑے پیغامات دیئے ہیں، کیا ہمارے سیاستدان یہ مفید مشورہ قبول کریں گے؟ آرمی چیف کے خطاب کے علاوہ چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی کے ریمارکس بھی بہت اہم ہیں، جو انہوں نے میئر اور ڈپٹی میئر، چیئرمین، وائس چیئرمین کے انتخابات شو آف ہینڈ کے ذریعے کرانے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران دیئے۔ جناب چیف جسٹس نے کہا جو بھی لولا لنگڑا نظام ہے اسے چلتا رہنا چاہئے۔ بعض حالات میں عدلیہ کو بھی مصلحت سے کام لینا پڑتا ہے۔ 21 ویں ترمیم پر سنجیدہ تحفظات تھے، عدالت قانون کے دائرے میں کام کرنے کی پابند ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے کہا ہماری کوتاہیوں کا ایک فرد یا ایک ادارہ ذمہ دار نہیں ہے، میں پورے نظام کو ہی مورد الزام ٹھہراتا ہوں، پورے ملک میں ریفارم کی ضرورت ہے۔ چیئرمین سینیٹ بھی ایک دن پہلے خطرے کا الارم بجا چکے ہیں اور چاروں اطراف سے منڈلاتے خطرات سے آگاہ کر تے ہوئے انہوں نے بھی آرمی چیف کی طرح دوٹوک انداز میں انتباہ کیا کہ پھر سوچنے اور رونے کا موقع نہیں ملے گا، آنسوؤں کے سیلاب میں سب کچھ بہہ جائے گا۔ جناب چیئرمین سینیٹ رضا ربانی ایک تجربہ کار سیاستدان اور مدبر انسان ہیں، ان کی باتیں، آرمی چیف کا سیمینار سے خطاب، چیف جسٹس کے ریمارکس بہت کچھ کہہ رہے ہیں، پھر بھی ہم کچھ نہیں سمجھ رہے۔ ایک دوسرے پر الزامات لگا ناجمہوریت کو ڈی ریل کرنے کا باعث ہوسکتا ہے، اس سے آگے کچھ نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کا ایک دوسرے کے خلاف دست و گریباں ہونا، صبح عمران خان کا خطاب، شام کو پرویز رشید کا جواب فائدہ کس کو ہو رہا ہے؟ سینئر سیاستدان اور وکیل اعتزاز احسن بھی جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو زندہ کرنے کی اور کوئی ترغیب سوچیں یا کم از کم اپنے پارٹی سربراہ سے مشورہ کرلیں وہ کیا چاہتے ہیں؟
بھارتی ایجنسی کی طرف سے ہماری سرحدوں اور شہروں میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری ہماری زندگی موت کا مسئلہ ہے، ہمارے مستقبل ہماری معیشت کا سو فیصد انحصار اس پر ہے۔ چائنہ بڑے دعوے سے بھارتی سازشوں کے آگے ڈٹ گیا ہے، گوادر کو آباد کرنے کیلئے ہمارے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کا عزم کرچکا ہے۔ ترکی ہمارے ساتھ اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، بڑے بڑے منصوبے زیر تعمیر ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف ہمارے پاک فوج کے جوان قربانیاں دے رہے ہیں، ان حالات میں ہماری پوری قوم اپنے سیاستدانوں کی حر کات اورایک دوسرے کے خلاف بولی جانے والی گھٹیا زبان سے پریشان ہے، اس کا فائدہ کس کو ہوگا یقیناًجمہوریت کو خطرہ ہوگا۔ اللہ کا شکر ہے ہماری پاک فوج اور اس کا سپہ سالار جو خود خطروں سے کھیل رہے ہیں اور ہمیں پیغام دے رہے ہیں سنبھل جاؤ، وطن عزیز کو چاروں اطراف سے خطرات ہیں۔ اگر ہم اندرونی سطح پہ بھی انتشار کا شکار ہوگئے تھے تو وہ قوتیں جو ہمارے وطن عزیز کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں، ان کے مذموم مقاصد کو تقویت ملے گی۔ آخر میں اتنا ہی کہوں گا اسلام آباد کی طرف چڑھائی کریں یا رائیونڈ کی طرف کارواں چلائیں، ملک لوٹنے کا الزام ایک پہ لگائیں یا دوسرے پہ لگائیں، الزامات کی سیاست کو کچھ دیر کیلئے موخر کردیں کیونکہ اس وقت ہمارے وطن کو ہمارے اتحاد کی زیادہ ضرورت ہے۔ جہاں تک کرپشن اور پانامہ لیکس کے ڈرامے کا تعلق ہے، کون کتنا گندا ہے؟ کون کتنا کرپٹ ہے؟ ہر پارٹی اس سے باخبر ہے۔ ہر انسان اپنے بارے میں زیادہ بہتر جانتا ہے البتہ اگر سب جمہوری نظام کو جاری رکھتے، احتساب کے نظام کو دل سے قبول کرتے ہوئے سسٹم کو چلنے دیں تو بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ آخر میں میرا ایک سوال ہے ان احباب سے جن کو میرا کالم اچھا نہیں لگے گا کیا ووٹ دینے والوں کو نہیں پتہ ہوتا کہ جس کو ووٹ دے رہا ہوں وہ کیسا آدمی ہے؟ اس کی صفات سے وہ آگاہ نہیں ہوتا؟ تمام خوبیوں غلطیوں سے آگاہ ہونے کے باوجود اس کو ووٹ دیتا ہے تو پھر ہمیں تسلیم کرنا ہوگا جمہوری نظام میں خرابیاں ہیں، ان کو دور کرنے کیلئے سر جوڑنے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو قبول کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ محاذ آرائی، الزامات، کیچڑ اچھالنے کی سیاست کا حصہ بننے کی۔ وطن عزیز کو اس وقت صرف آپ کی ضرورت ہے، آپ پرامن ہو جائیں، بیدار ہو جائیں، ایک دوسرے سے ہاتھ ملائیں۔ پرامن معاشرہ قائم ہوگا تو انشاء اللہ! وطن عزیز بھی امن کا گہوارہ بنتا چلا جائے گا، پانامہ لیکس کے حوالے سے سیاست کرنے کی بجائے کسی ایک فرد یا ادارے سے تحقیقات کے لئے یکسو ہونے کی ضرورت ہے وزیر اعظم زرداری صاحب سے ملیں یا نہ ملیں یہ عوام کا مسئلہ نہیں ہے سیاستدانوں کی آپس کی لڑائی کی وجہ سے عوام نظر اندز ہو رہے ہیں خدا را! سیاستدان مفید مشوروں پر عمل کریں اور عوام کے مسائل کی طرف توجہ دیں۔