مقتول کے موبائل اور سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے توہین آمیز مواد برآمد نہ ہوا: رپورٹ
پشاور‘مردان ‘ صوابی(مانیٹرنگ ڈیسک / آن لائن‘اے این این) وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویزخٹک نے کہاہے کہ مشال خان کے موبائل اورسوشل میڈیاسے توہین آمیزموادبرآمدنہیں ہوا، واقعہ کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل انکوائری کے احکامات جاری کردیئے ہیں۔نجی ٹی وی کے مطابق خیبر پختونخوا اسمبلی میں گفتگو کرتے ہوئے پرویز خٹک نے مردان میں مبینہ طور پر توہین رسالت کے الزام میں طالب علم مشال خان کے قتل کے واقعہ پر دلی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی خیبر پختونخوا ہ کی سربراہی میں واقعہ کی تحقیقات کی جا رہی ہے ،قانون موجود ہے، لہذا کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔اس سے قبل خیبرپختونخوا ہ اسمبلی میں عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے مشال کی جانب ایوان کی توجہ دلائی اور کہا کہ تعلیمی اداروں میں ایسے اقدام ظلم ہے ، جس انداز میں مشال کو قتل کیا گیا اور اس کی لاش کی بے حرمتی کی گئی اس اقدام سے ہم دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟صوبے میں مذہبی جنونیت یہاں تک پہنچ گئی ہے اگرمشال نے توہین رسالت کی ہے تو وہ یقیناًقابل معافی نہیں لیکن ان کو سزا عدالت دے گی اس موقع پر نگہت اورکزئی کاکہنا تھا کہ مردان کا واقعہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، پولیس کی موجودگی میں مشال کی لاش کی بے حرمتی کی گئی، ان پر پتھر او رلاٹھیاں برسائی گئی ، یہ معاملہ پانچ دنوں سے جاری تھا اور عبدالولی خان یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے معاملے کو سنجید ہ نہیں لیاد ن دیہاڑے قتل کئے جانیوالے طالبعلم مشال خان کے بارے میں اہم انکشاف ہوا ہے ۔ قتل کرنے سے پہلے مشتعل طلباء کے ایک گروپ نے مقتول کے ہوسٹل سے اس کا پیچھا کیا جہاں مشال خان کو تشدد کرکے قتل کیا گیا وہاں پر اس کی طلباء کے ساتھ بحث ہوئی جس کے بعد طلباء نے اس پر تشدد کرنا شروع کردیا اور اسے قتل کردیا۔ مشتعل طلباء نے مشال خان کو عمارت کی دوسری منزل سے نیچے پھینکا اور پھر اس کے بعد اس پر تشدد کرناشروع کردیا۔ وہاں موجود اساتذہ نے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے مداخلت کی اور مشال خان کی جان بچانے کیلئے اسے ایک کمرے میں بند کردیا تاہم مشتعل طلبانے دروازہ تو ڑ کر اسے تشدد کرکے مار دیا۔ مشال خان کے والد نے کہا ہے کہ میرا بیٹا خود صحافی تھا،سسٹم اور انصاف کی بات کرتاتھا،وہ بہت فرمانبردار تھاکبھی دکھ نہیں دیا۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مشال خان کے والد نے کہاکہ میرا بیٹا بہت ہی حلیم الطبع اوربرداشت و صبر والا آدمی تھا، بھائی اور بہنوں کو والد کا خیال رکھنے کی تلقین کرتا تھا، میرے بیٹے کا رجحان تصوف کی طرف تھا اور زیادہ تر اکیلا رہتا تھا۔انہوں نے کہا کہ بیٹا کہتاتھاسائنسی دور ہے اس سے آنکھیں چرائی نہیں جاسکتی اور وہ دورجدید کے نظام کا حامی تھا۔ مشال خان زیادہ تر اکیلا رہتاتھا اورزیادہ دوستی کتاب سے تھیروہ ظلم کیخلاف آواز اٹھاتا تھا اسکی زندگی کا موضوع علم تھا۔دریں اثناء مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں قتل کئے گئے نوجوان مشعال خان کو صوابی میں ان کے آبائی گاؤں زیدہ میں سپرد خاک کردیا گیا اس کی نماز جنازہ میں 400سے 500افراد نے شرکت کی ہے ۔واقعے کے دو الگ الگ مقدمات درج کئے گئے ہیں جبکہ 20نامزد افراد میں سے 8کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق ایک مقدمے میں قتل اور دہشت گردی سمیت 6دفعات شامل کی گئی ہیں جبکہ ایس ایچ اوشیخ ملتون محمد سلیم کی مدعیت میں درج مقدمے میں سڑک بلاک اور کار سرکار میں مداخلت کی دفعات ڈالی گئی ہیں۔پولیس کے مطابق مزید ملزمان کی گرفتاری کے لئے 3 ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں،جن میں طلبا کے ساتھ ایک کونسلر اور چار یونیورسٹی ملازمین بھی شامل ہیں۔چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے اور کہا کہ جنگل کا قانون کسی طور رائج نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ سب سے آئی جی خیبر پختونخوا سے رابطے میں ہوں،ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی انتہائی ضروری ہے۔
مشعال خان
مردان/صوابی (مانیٹرنگ ڈیسک)عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین مذہب اور توہین رسالت کے الزام میں د ن دیہاڑے قتل کئے جانیوالے طالبعلم مشعال خان کے بارے میں اہم انکشاف ہوا ہے ۔تفصیلات کے مطابق مشعل خان کو قتل کرنے سے پہلے مشتعل طلباء کے ایک گروپ نے مقتول کے ہوسٹل سے اس کا پیچھا کیا اور جہاں مشعل خان کو تشدد کرکے قتل کیا گیا وہاں پر اس کی طلباء کے ساتھ بحث ہوئی جس کے بعد طلباء نے اس پر تشدد کرنا شروع کردیا اور اسے قتل کردیا۔خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق مشتعل طلباء نے مشعال خان کو عمارت کی دوسری منزل سے نیچے پھینکا اور پھر اس کے بعد اس پر تشدد کرناشروع کردیا۔ایجنسی کی مزید رپورٹ کے مطابق وہاں پر موجود اساتذہ نے اس سارے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے مداخلت کی اور مشعال خان کی جان بچانے کیلئے اس کو ایک کمرے میں بند کردیا تاہم مشتعل طلباء کے گروپ نے کمرے کو توڑ کر مقتول کو تشدد کرکے مار دیا۔دریں اثناء میڈیا سے گفتگو سے کرتے ہوئے مشعال خان کے والد نے کہا ہے کہ میرا بیٹا خود صحافی تھا،سسٹم اور انصاف کی بات کرتاتھا،وہ بہت فرمانبردار تھاکبھی دکھ نہیں دیا۔انہوں نے کہا کہ میرا بیٹا بہت ہی حلیم الطبع اوربرداشت و صبر والا آدمی تھا، بھائی اور بہنوں کو والد کا خیال رکھنے کی تلقین کرتا تھا، میرے بیٹے کا رجحان تصوف کی طرف تھا اور مشعال خان زیادہ تر اکیلا رہتا تھا۔انہوں نے کہا کہ بیٹا کہتاتھاسائنسی دور ہے اس سے آنکھیں چرائی نہیں جاسکتی اور وہ دورجدید کے نظام کا حامی تھا۔قتل ہونے والے طالب علم کے والد نے مزید کہا کہ مشعال خان زیادہ تر اکیلا رہتاتھا اورزیادہ دوستی کتاب سے تھی، کتاب مشعال کی دوست تھی اوروہ ظلم کیخلاف آواز اٹھاتا تھا اورمشعال خان کی زندگی کا موضوع علم تھا۔
مثعال خان