اکادمی ادبیات کے زیر اہتمام گل خان نصیر کی یاد میں مشاعرہ کا انعقاد

اکادمی ادبیات کے زیر اہتمام گل خان نصیر کی یاد میں مشاعرہ کا انعقاد

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی (اسٹاف رپورٹر) اکادمی ادبیا ت پاکستان سندھ کے زیراہتمام بلوچی/بروہی زبان کے نامور شاعر میر گل خان نصیرکی یاد میں’’ مشاعرے اکادمی ادبیات کے کراچی دفتر میں انعقادکیا گیا۔ جس کی صدارت اردو کے نامور شاعر کوثر نقوی نے کی اور مہمان خاص رونق حیات تھیں اس موقع پرخصوصی لیکچردیتے ہوئے بلوچستان سے آئے ہوئے نامور شاعر عرفان الحق صائم نے کہا کہ میر گل خان نصیر بلوچی براہوی کے علاوہ اردو فارسی اور انگریزی زبانوں پر مکمل عبور تھا وہ ان تمام زبانوں میں شاعری کرتے تھے ۔ ان کی شاعری عوامی اور انقلابی ہے میر گل خان نصیر نہ صرف آج کے بلکہ ہر دور کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری ہر وفن پر ست ۔قوم دوست ۔ انسانیت دوست اور ہر بھادر شجاح کو خراج تحسین کے ذریعے دوام بخشا بلکہ انہوں نے عقل شعور نیکی حب الوطنی ملت پرستی اور احترام آدمیت کی اقدار کو بھی اجاگر کیا۔ اس لئے تاریخ ان کو اتنا عظیم اور ارفع مقام عطا کیا کہ آج بھی اس کی گلبانگ دنیا کی عظیم منظومات میں شمار کی جاتی ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادربخش سومرو نے کہا کہ میر گل خان نصیر جہاں بلوچی زبان و ادب کو وسعت بخشی ہے وہاں پوری دنیا کے لئے بھی رزم نگاری کی مثال قائم کردی ہے۔ جو ھمیشہ اہل ادب کے لئے مشعل راہ بنے گی میر گل خان نصیر کو اپنے غریب عوام کی زبوں حالی کا شدت سے احساس تھا ۔ اس انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں ان کی خوشحالی و ترقی کے علاوہ بلوچی زبان کی ترقی و ترویج اور بلوچستان کے فلاح و بہبود کے لئے وقف کردی تھی۔میر صاحب کے کلام کا ترجمہ فرانسیسی ، روسی اور دوسری عالمی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ میر صاحب کی تصنیفات بلاشبہ ہمارے ذخیرہ تاریخ میں بیش بیا اضافہ ہے۔اس موقع پر جن شعراء نے کلام پیش کیا ان میں بلوچستان سے نامور شاعرتسنیم صنم، عرفان الحق صائم ،کوثر نقوی، رونق حیات، پروین سلطانہ صبا، عرفان علی عابدی،فیروز ناطق خسرو، سید علی اوسط جعفری،زینت لاکھانی، افروز رضوی، جواد عرفان، صدف عرفان، محمد رفیق مغل، تنویر سخنور ، وقار احمد زیدی، مقبول ظفر، کمیل رضا نقوی، جمیل ادیب سید،سید مشرف علی، خالد نور نے بھی اپنا کلام سناکرمیر گل خان نصیر کو خراج تحسین پیش کیا ۔ نظامت قادربخش سومرو ریزیڈنٹ ڈائریکٹر نے کی اور آخر میں اکادمی ادبیات پاکستان کے جانب سے شکریہ ادا کیا۔