فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 60

فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 60
فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 60

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسی زمانے میں ایک روز اداکار سلطان اور ان کے بھائی جہانگیر ہم سے ملے۔ یہ دونوں اداکار اورنگزیب کے بھائی ہیں۔ ایک اعلیٰ خاندان سے ان کا تعلق ہے۔ تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ تینوں بھائی خوب رو، صحت مند اور دلکش شخصیت کے مالک ہیں۔ اورنگزیب ان میں سے سب سے چھوٹے ہیں اور ’’ رنگو ‘‘ کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ سلطان اور جہانگیر کی عمروں میں زیادہ فرق نہیں تھا اس لیے دونوں میں بہت زیادہ بے تکلفی تھی۔ وہ بھائیوں سے زیادہ بے تکلف اورجگری دوست معلوم ہوتے تھے۔ اکثر وہ ساتھ ہی رہتے تھے۔ سلطان کو اداکاری کا شوق تھا جس پر ان کے والد کو اعتراض تھا لیکن آخر وہ انہیں منانے میں کامیاب ہو گئے۔چند فلموں میں سلطان نے ہیرو کے طور پر کام کیا مگر زیادہ مقبول اور کامیاب نہ ہو سکے۔جہانگیر بھی ایک خوبصورت شخصیت کے مالک تھے مگر انہیں اداکاری سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ سلطان نے کچھ عرصے بعد اداکارہ نسرین سے شادی کر لی تھی جو ایک دلکش اور پر کشش شخصیت کی مالک تھیں لیکن ہیروئن کے طور پر وہ بھی زیادہ نمایاں نہ ہوسکیں۔ان کے حسن وجمال اور پر وقار شخصیت کے باعث انہیں فلموں میں کاسٹ کیا جاتا تھامگر انہیں اداکاری کبھی نہ آئی۔ ان کی شخصیت اور سراپا کی دلکشی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار جب فلم اسٹار کرکٹ میچ کے سلسلے میں تمام فلمی ستارے کراچی پہنچے تو ایک تقریب میں اس وقت کے وزیراعظم پاکستان جناب حسن شہید سہروردی بھی موجود تھے مگر صبیحہ اور مسرت نذیر کو نظر انداز کر کے انہوں نے بطور خاص نسرین کے ساتھ بہت دیر تک بات چیت کی۔

قسط نمبر 59 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
نسرین خوش جمال ہونے کے ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی تھیں۔ بہت اچھی انگریزی بولتی تھیں۔ محفل کے آداب اور طور طریقوں سے بھی بخوبی واقف تھیں اس لیے ہر محفل میں سب کی نگاہوں کا مرکز بن جاتی تھیں۔ انہوں نے نذیر اجمیری صاحب کی فلم ’’ شہرت ‘‘ میں ہیروئن کا کردار کیاتھا لیکن فلموں میں محض خوبصورتی سے کام نہیں چلتا‘ اداکارانہ صلاحیتیں بھی ہونی لازمی ہیں۔ اسی لیے وہ بطور ہیروئن زیادہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے اداکار سلطان سے شادی کر لی اور ہنسی خوشی زندگی گزار رہی ہیں۔سلطان بھی اداکاری میں کوئی نمایاں مقام حاصل نہیں کر سکے تھے اور فلمی دنیا سے کنارہ کش ہو کر انہوں نے کاروبار شروع کر دیا تھا۔ اس طرح فلمی افق پر تو یہ دونوں ستارے بن کر نہ جگمگا سکے مگر ان دونوں کے ستارے ایک دوسرے سے بالکل ہم آہنگ ہو گئے۔
سلطان اور جہانگیر ایک دن ہمیں ملے تو بہت ہیجان میں مبتلا تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی انہوں نے دورسے اشارے کر نے شروع کر دیے اور کار سے اتر کر ہماری طرف دوڑے آئے۔
’’ کیا بات ہے۔ خیریت تو ہے ؟‘‘ہم نے پوچھا۔
بولے ’’آفاقی۔تمہیں ایک خبر سنانی ہے جو تم خود بھی نہیں جانتے۔‘‘
’’ اچھا۔ وہ کس بارے میں ؟‘‘
’’ تمھارے دوست اعجاز کے بارے میں۔‘‘
’’ اعجاز نے کیا کر دیا ؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
’’ کیا تونہیں مگر کرنے والاہے۔‘‘ جہانگیر نے کہا۔
سلطان نے کہا ’’ وہ بہت بڑا دھماکا کرنے والا ہے۔‘‘
ہم نے کہا ’’ بھائی وہ تو فن کار آدمی ہے وہ بھلا کیا دھماکا کرے گا ؟‘‘
’’ ادھر آؤ۔ ریستوران میں بیٹھ کر باتیں کریں گے۔‘‘
وہ ہمیں لے کر مال روڈ کے ایک ریستوران میں چلے گئے۔ چائے کا آرڈر دیا اور پھر کہا ’’تمھارا دوست بہت اونچی ہواؤں میں اڑ رہاہے۔ اسے سمجھاؤ ایسا نہ ہو کہ منہ کے بل گر جائے۔‘‘
’’ بھئی کچھ بات بھی تو بتاؤ۔ کیوں پہیلیاں بجھوا رہے ہو۔‘‘ہم نے کہا
’’ تو سنو اعجاز آج کل میڈم نور جہاں کے ساتھ عشق کر رہا ہے۔ ‘‘
ہم ہنسنے لگے ’’ چھوڑو یار۔ کیوں بے پر کی اڑا رہے ہوکہاں میڈم نور جہاں اور کہاں اعجاز اور اعجاز تو بہت اچھا اور شریف آدمی ہے۔ ‘‘
’’ عشق کرنا غیر شریفانہ کام تو نہیں ہوتا۔ اس نے تمہیں کچھ بتایا!‘‘
’’ نہیں تو۔‘‘
’’ تو پھر سن لو۔ آج کل وہ دونوں مختلف جگہوں پر ملاقاتیں کرتے ہیں۔ وہ نور جہاں سے ملاقات کے لیے ان کی کوٹھی پر جاتا ہے تو اپنی کار مسرت نذیر کی کوٹھی کے سامنے کھڑی کر کے وہاں سے پیدل ہی میڈم نور جہاں کے پاس پہنچ جاتاہے۔ ‘‘
’’ مگر تمہیں کیسے معلوم ہوا ؟‘‘
’’ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ‘‘
پھر انہوں نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ کس طرح ایک دن پہلے گلبرگ کے مین بلیوارڈ پر رات کو ساڑھے بارہ بجے انہوں نے میڈم کی کار کو کھڑا پایا۔ وہ مدد کے لیے کار کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ میڈم اوراعجاز کار میں موجود ہیں۔میڈم کی کار اچانک خراب ہو گئی تھی۔ ہمیں دیکھ کر وہ دونوں گھبرا گئے۔
’’ مگر تم اتنی رات گئے وہاں کیا کر رہے تھے ؟‘‘ہم نے پوچھا۔ اس لیے کہ اس زمانے میں لاہور میں آٹھ نو بجے ہی رات ہو جاتی تھی۔ سڑکوں پر ٹریفک برائے نام رہ جاتا تھااور گلبرگ کی شاہراہ رات کو دس بجے کے بعد بالکل سونی نظر آتی تھی۔
وہ ہنسنے لگے۔’’ یار ہم تو ٹھہرے آوارہ گرد۔ساری رات گھومتے پھرتے ہیں مگر اعجاز اور میڈم کو اتنی رات گئے یوں گھومنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
ہمیں ان کی بات پر یقین نہیں آیا۔پھر بھی کہا ہم اعجاز سے بات کریں گے۔
’’ دیکھو۔ ہمیں ضرور بتانا۔ یہ خبر سو فی صد درست ہے۔ ‘‘
ہم ایورنیواسٹوڈیو پہنچے تو دور ہی سے اعجاز نظر آگئے۔ اعجاز ہیرو کے طور پر مقبول ہونے لگے تھے۔ان کو پسند کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہاتھا اور تو اور کئی ہیروئنیں بھی انہیں میٹھی نظروں سے دیکھنے لگیں تھیں اور ان سے شادی کرنے کی خواہش مند تھیں۔ ان کی فلمیں بھی کامیاب ہو رہی تھیں اور لوگوں کا خیال تھا کہ اگر اسی طرح محنت کرتے رہے تو وہ بہت جلد صف اول کے ہیرو بن جائیں گے۔ جہاں تک شکل وصورت کا تعلق ہے اعجاز بنے بنائے ہیرو تھے۔ گورے چٹے‘ بڑی بڑی آنکھیں‘ دلکش ناک نقشہ۔ ان کا قد زیادہ لمبا نہیں تھا مگران میں مردانہ وجاہت اور کشش موجود تھی۔ ان سے ہماری دوستی پرانی تھی۔ ان کے اندر کوئی بری عادت بھی نہیں تھی۔ نہ شراب‘ نہ سگریٹ‘ نہ پان‘ نہ اور کوئی بری عادت۔ ان کا کوئی اسکینڈل بھی نہیں بنا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ وہ صنف نازک کی صحبت میں قدرے گھبرائے ہوئے سے نظر آتے تھے۔ اب اگر ایسے آدمی کے بارے میں اچانک پتا چلے کے وہ میڈم نور جہاں کے ساتھ چپکے چپکے عشق کر رہا ہے تو کوئی کیسے یقین کر لے ؟ اسی لئے ہمیں بھی سلطان اور جہانگیر کی باتوں پر یقین نہیں آیا۔ سوچا کہ یہ اعجاز سے جیلس ہو گئے ہیں اس لئے ایسی افواہیں اڑا رہے ہیں۔
اعجاز نے ہمیں دیکھا تو پاس چلے آئے۔ ہم فوراً انہیں بازو سے تھام کر ایک طرف لے گئے۔
’’ بھئی کہاں ہو ؟بہت عرصے سے ملاقات نہیں ہوئی۔‘‘ ہم نے کہا
’’ بس۔ آج کل کام زیادہ ہے۔ اس لیے ڈے نائٹ مصروف رہتا ہوں۔ ‘‘
’’ فلموں میں یا اور کسی کام میں؟‘‘
انہوں نے ایک لمحہ ہمیں دیکھا اور پھر اپنی مخصوص ہنسی ہنسنے لگے۔’’ قصہ کیا ہے ؟‘‘
ہم نے کہا۔’’ قصہ تو تم سناؤکہ کوئی رومانس چل رہاہے۔‘‘
ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ ’’ تمہیں کس نے بتایا؟‘‘
’’ بس بتا دیا کسی نے اور تمھارے اڑے ہوئے رنگ نے اس کی تصدیق کر دی۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی اور تم نے ہمیں خبر تک نہ ہونے دی۔‘‘
وہ گھبرا گئے ’’کہاں تک نوبت پہنچ گئی ؟‘‘
ہم نے کہا ’’شادی تک۔ ‘‘
’’ارے نہیں یار۔ بالکل جھوٹ ہے۔‘‘
’’ارے یہ بھی جھوٹ ہے کہ تم راتوں کو میڈم کی کوٹھی پر جاتے ہو اور اپنی کار مسرت نذیر کی کوٹھی کے سامنے کھڑی کر جاتے ہو۔ وہ غریب مفت میں بدنام ہو رہی ہے اور یہ بھی جھوٹ ہے کہ آدھی رات گئے میڈم کی کار میں گھومتے پھرتے ہو؟‘‘
اعجاز بے چارے سیدھے سادھے آدمی ہیں۔ فوراً ہتھیار ڈال دیے۔ ’’یار کیا بتاؤں میں تو خود بہت پریشان ہو ں۔ میڈم تو بس میرے پیچھے پڑ گئی ہیں۔ میری فلموں کے سیٹ پر آجاتی ہیں اور کافی دیر تک بیٹھی رہتی ہیں۔ اور تو اور رات کو گیارہ بارہ بجے کار لے کر میرے گھر پر آجاتی ہیں اور جب تک میں باہر نہ نکلوں ہارن بجاتی رہتی ہیں۔ تمہیں معلوم ہے کہ میں سمن آباد میں رہتا ہوں۔ وہاں کا ماحول اور قسم کا ہے۔ ان کے ہارن سن کر پڑوس کے لوگ باہر نکل آتے ہیں۔ جب تک میں گھر سے نکل کر ان کے پاس نہ جاؤں وہ ہارن بجاتی رہتی ہیں۔ اب بتاؤ میں کیا کروں ؟ یار میں تو بہت پریشان ہو گیا ہوں۔ تم کو پتا ہے کہ گھر میں میرے ساتھ بہنیں بھی رہتی ہیں۔ ہمارے گھر کا ماحول بالکل فلمی نہیں ہے لیکن ان باتوں کی وجہ سے مجھے بہت شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔‘‘
اعجاز کا یہ دکھڑا سن کر ہم نے بغور ان کے چہرے کا جائزہ لیا۔ انہوں نے سلطان اور جہانگیر کی فراہم کردہ خبر کی تصدیق تو کر دی تھی مگر کسی اور انداز میں۔
ہم نے پوچھا ’’سچ سچ بتاؤ۔ کیا تم میڈم سے شادی کرنا چاہتے ہو؟‘‘
اعجاز نے فوراً جواب دیا ’’یار کیسی باتیں کر رہے ہو ! کہاں میں‘ کہاں میڈم‘۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘
ہم نے اعجاز کی بات پر یقین کر لیا۔ اس لئے کہ وہ صاف گو آدمی تھے۔ ہمیں ان کی باتوں پر یقین تھا۔
اس کے دو تین دن بعد ہم ’’گمراہ‘‘ کے سیٹ پر گئے تو پاشا صاحب شوٹنگ میں مصروف تھے۔ اعجاز بھی سیٹ پر تھے اور ان کی ہیروئن بھی شوٹنگ میں حصہ لے رہی تھیں مگر اس سیٹ پر ایک خصوصی مہمان بھی موجود تھا اور وہ تھیں میڈم نور جہاں۔
میڈم نور جہاں عام طور پر کسی اور کے سیٹ پر جانے کی عادی نہ تھیں مگر انہیں ’’گمراہ‘‘ کے سیٹ پر موجود دیکھا تو اعجاز کی باتوں کی تصدیق ہو گئی۔ اعجاز نے قدرے شرمیلی نظروں سے ہمیں دیکھا اور چائے کی دعوت دی۔ ہم نے محسوس کیا کہ سیٹ پر موجود ہر شخص کو میڈم نور جہاں کی موجودگی کا سبب معلوم تھا۔ کچھ دیر بعد میڈم سیٹ پر سے رخصت ہو گئی تو پاشا صاحب نے ہم سے کہا۔ ’’آفاقی صاحب‘ یہ لڑکا ابھرتا ہوا اداکار ہے۔ اس کا مستقبل بہت روشن ہے۔ اسے ان چکروں میں نہیں پڑنا چاہیے۔‘‘
اعجاز جھینپے سے انداز میں مسکرانے لگے اور بولے۔ ’’پاشا جی، میری طرف سے کوئی چکر نہیں ہے۔‘‘
ہم چائے پی کر چلے آئے اور مطمئن ہو گئے۔ دو دن بعد وہ دونوں فرشتے (سلطان اور جہانگیر ہم نے یہی نام رکھ چھوڑا تھا ) ہمیں ملے اور پوچھا۔ ’’کیوں ؟ اپنے دوست سے پتا کیا؟‘‘
ہم نے جواب دیا۔ ’’ہاں‘ مگر وہ اس معاملے میں انٹرسٹیڈ نہیں ہے۔‘‘
وہ دونوں بے ساختہ ہنسنے لگے۔ ’’آفاقی، کس کی باتوں میںآئے ہو۔ یہ سو فیصد سچی خبر ہے دیکھ لینا۔‘‘
ہم نے کہا ’’یار کیوں کسی کو بدنام کرتے ہو۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ‘‘
چند دن اور گزر گئے۔ کراچی سے ہفت روزہ ’’نگار‘‘ کے مالک و مدیر الیاس رشیدی صاحب لاہور آئے تو خلاف معمول دو تین دن تک ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ بس وہ فون پر اتنا کہہ دیا کرتے تھے کہ ذرا مصروف ہوں۔ فارغ ہو کر ملوں گا۔

ایک روز صبح کے وقت ہم ان کے کمرے میں گئے تو وہ اکیلے ہی تھے۔ بہت حیرت ہوئی پوچھا ’’کیا بات ہے خلاف معمول کوئی مہمان موجود نہیں ورنہ یہاں تو رات کو بھی لوگ سو جاتے ہیں‘‘۔
وہ جذباتی ہوگئے کہنے لگے ’’آفاقی یہ سب کتنے مخلص اور پیار کرنے والے لوگ ہیں مجھے اس شہر میں اجنبی اور پردیسی ہونے کا احساس نہیں ہونے دیتے‘‘۔
ہم نے کہا ’’اس میں خلوص سے زیادہ خود غرضی کا دخل ہے۔ بھائی جہاں سارے دن مفت میں کھانا پینا اور تفریح ملے اور شام کو بہترین مہنگی شراب بھی دستیاب ہوجائے ایسی جگہ چھوڑ کر کون کافر جائے گا؟‘‘
’’ارے نہیں چندا‘‘ انہوں نے اپنے خاص انداز میں کہا ’’ایسی بات نہیں؟ یہ لوگ واقعی مجھ سے پیار کرتے ہیں‘‘۔
ہم نے کہا ’’کسی دن راشن بند کرکے دیکھ لو اصلیت معلوم ہوجائے گی‘‘۔
انہوں نے راشن تو بند نہیں کیا کہ وضع داری مانع تھی لیکن کچھ عرصے بعد انہیں احساس ہوگیا کہ ہم نے جو کہا تھا وہ غلط نہ تھا۔
ایک روز ہم شام کے وقت محمد علی صاحب کے ہوٹل پہنچے تو دیکھا کہ کمرے میں رونق لگی ہوئی ہے۔ فلمی صنعت سے متعلق بہت سے لوگ موجود تھے۔ حمایت علی شاعر اور احمد رشدی بھی حاضرین محفل میں شامل تھے۔ حمایت علی شاعر کا محمد علی بہت لحاظ اور احترام کرتے تھے اس لئے کہ وہ ان کے بڑے بھائی ارشاد صاحب کے دوست ہیں۔ محمد علی کے ساتھ حمایت علی شاعر نے لاہور میں کئی فلموں میں کام کیا۔ ان کی فلم ’’لوری‘‘ میں علی زیب دونوں نے کام کیا تھا۔ کمرے میں تاش کی بازی جمی ہوئی تھی۔ ایک طرف کسی فلمی موضوع پر دھواں دار بحث جاری تھی۔ چائے کافی کا دور چل رہا تھا۔ شائقین کیلئے جام و مینا کا بھی بندوبست تھا۔ حاضرین محفل بستر پر صوفے پر، قالین پر ہرجگہ براجمان تھے ہم اس وقت بھی حیران ہوا کرتے تھے اور آج بھی حیران ہیں کہ ایک چھوٹے سے کمرے میں اتنے بہت سے لوگ کیوں کر سما جاتے تھے؟ محمد علی اس کے جواب میں مسکرا کر کہتے تھے۔
’’آفاقی دل بڑا ہونا چاہیے‘‘۔
کھانے پینے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ انڈس ہوٹل میں ایک بہت اچھا ریستوران بھی تھا ۔کھانے پینے کی ہر چیز وہاں سے دستیاب ہوجاتی تھی۔ چنانچہ مال مفت، دل بے رحم والا حساب تھا۔
رات گئے تک یہ محفل جاری رہی۔ پھر آہستہ آہستہ مجمع چھٹنے لگا۔ آخر میں بارہ ساڑھے بارہ بجے صرف چار ہی باقی رہ گئے۔ یعنی محمد علی، حمایت علی شاعر، احمد رشدی اور ہم۔ ہم دونوں گھر جانا چاہتے تھے۔ حمایت علی شاعر کو محمد علی نے رات کے قیام کیلئے روک لیا تھا۔ اب ان کا اصرار تھا کہ کہیں باہر جاکر کھانا کھایا جائے۔ ہم نے بہتیرا کہا کہ پیٹ میں گنجائش نہیں ہے مگر وہ نہیں مانے۔ کھلانے پلانے میں محمد علی ہمیشہ سے شیر ہیں۔یہ تجویز پیش کی گئی کہ انڈس ہوٹل کے کمرے میں بیٹھے بیٹھے اکتا گئے ہیں کہیں باہر چلنا چاہیے۔
باہر نکلے تو جاڑوں کی رات تھی۔ بارہ ساڑھے بارہ کا عمل تھا۔ لاہور کی مال روڈ سنسان اور ویران پڑی تھی۔ کافی دیر کے بعد اکا دکا کار گزر جاتی تھی۔ پیدل چلنے والوں کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ اس زمانے میں لاہور ایسا ہی اونگھتا ہوا، شریفانہ قسم کا شہر تھا۔ کراچی والے مذاق اڑاتے تھے کہ یہاں تو لوگ سات بجے ہی سو جاتے ہیں۔یا گھروں میں گھس کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ۱۹۶۴ء میں ٹریفک کا ہجوم بھی نہیں تھا بلکہ ٹریفک برائے نام ہی تھا۔ ہمیں مال روڈ پر تقریباً سو گز دور ایک ریستوران میں جانا تھا۔ اس کا نام غالباً ’’روبینہ‘‘ تھا۔ اب ناپید ہوگیا ہے۔ اس کی یہ خوبی تھی کہ رات کو دو تین بجے تک یہاں کھانا مل جاتا تھا۔ رات کو شوٹنگ یا دوسرے کاموں سے فارغ ہونے والوں یا مے نوشوں کیلئے یہ بہترین اڈا تھا۔ کھانا بھی اچھا ہوتا تھا اس ہوٹل کے مالک کسی زمانے میں فلم کے رسیا تھے۔ بعد میں مشرق وسطیٰ چلے گئے اور وہاں سے پیسہ کما کر آئے تو لاہور میں ایک ریستوران اور ’’کارواش‘‘ قائم کیا۔ یہ ’’کارواش‘‘ اس زمانے میں لاہور والوں کیلئے بڑی جدت تھی کہ ایک طرف سے کار اندر داخل ہوکر دوسری طرف سے دھلی دھلائی باہر نکل جائے۔ شیمپو صابن بھی اس پر مل دیا جائے۔ انسانی ہاتھ لگنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ اور لطف یہ کہ آپ خود بھی کار کے اندر شیشے چڑھا کر بیٹھے رہیں۔ یورپ امریکہ میں تو یہ عام چیز تھی مگر لاہور والوں کیلئے ایک عجوبہ تھا اس لیے بہت سے لوگ محض لطف لینے کیلئے ’’کارواش‘‘ پہنچ جاتے تھے۔ بیوی بچوں کو بھی کار کے اندر بھر لیتے اور اندر بیٹھ کر کوک وغیرہ پیتے رہتے اور چپس وغیرہ کھاتے۔ بلکہ نان کباب سے بھی شوق فرماتے تھے۔ گویا ایک طرح سے یہ بھی زندہ دلان لاہور کی سیر و تفریح کا حصہ تھا۔
سردی کافی تھی اور سڑک کو سنسان پاکر کچھ زیادہ ہی لگ رہی تھی۔ انڈس ہوٹل سے باہر نکلے تو ہمیں سامنے د وپولیس والے نظر آئے لمبے لمبے ڈنڈے ہاتھوں میں سنبھالے ، اوور کوٹ پہنے کھڑے تھے۔ ہم لوگوں کو دیکھا تو بولے ’’بابو جی۔ بالکل فکر نہ کرو۔ ہم آپ کی حفاظت کیلئے یہاں کھڑے ہیں‘‘۔
یہ کہہ کر انہوں نے سڑک پر لاٹھیاں مار کر گویا ایک طرح سے ہمیں سلامی دے کر رخصت کردیا۔ اس میں کچھ محمد علی کی فیاضی کا بھی دخل تھا۔ وہ ہر روز انہیں دو چار روپے بخشش دے دیا کرتے تھے۔
’’روبینہ‘‘ میں پہنچے تو اندر خاصی گہما گہمی تھی۔ دس پندرہ سے زیادہ مہمان موجود تھے۔ اتنی رات گئے۔ یہ بھی ایک ریکارڈ ہی تھا۔ ہوٹل کے مینجر نے بڑی گرم جوشی سے خیر مقدم کیا۔ وہ ہمیں بھی جانتے تھے اور پھر ایک اداکار بھی ہمارے ساتھ تھا۔ جتنی بھی آؤ بھگت کرتے کم تھی۔ فوراً مؤدب بیرے ادھر ادھر بھاگنے لگے۔
رشدی صاحب بولے ’’ایسی اہمیت دیکھ کر تو گھر میں کھانے کو جی ہی نہیں چاہتا‘‘۔
حمایت علی شاعر نے پوچھا ’’کیوں۔ کیا گھر میں تمہیں اہمیت نہیں دی جاتی؟‘‘
وہ بولے ’’کتنی بھی اہمیت سہی۔ یہ بات تو نہیں ہے کہ درجن بھر لوگ سرجھکائے کھڑے ہیں اور ایک اشارے پر حاضر ہوجاتے ہیں۔ بیوی تو اتنی رات گئے مشکل ہی سے کھانا گرم کرنے کیلئے بستر سے نکلتی ہے۔ دوبارہ بلاؤ تو گھورتی ہے مگر ان بیروں کی کیا بات ہے‘‘۔
محمد علی نے کہا ’’جتنی ٹپ آپ بیروں کو دیتے ہیں وہی بھابی کو بھی دیں تو پھر دیکھئے۔ اس کے علاوہ بیروں کو تنخواہ بھی ملتی ہے۔ بیوی کو بھلا کون تنخواہ دیتا ہے‘‘۔
رشدی صاحب ترنگ میں تھے۔ بولے ’’بس۔ کل سے میں بھی گھر میں ٹپ اور تنخواہ دیا کروں گا‘‘۔
جتنی دیرمیں گرم گرم کھانا آیا ہم لوگ گپ شپ کرتے رہے۔ حمایت صاحب کہہ رہے تھے۔ ’’آفاقی تم بھی رات کو یہیں رہ جاؤ‘‘۔
ہم نے کہا ’’کلام تو نہیں سنائیں گے؟‘‘
وہ ہنسنے لگے ’’بھئی اس کی گارنٹی نہیں ہے‘‘۔
ابھی کھانا ہماری میز پر لگایا ہی جا رہا تھا کہ رشدی صاحب ہاتھ دھونے کیلئے غسل خانے کی طرف چل پڑے۔ راستے میں ایک میز پر تین چار لمبے چوڑے اور تنومند سے سوٹ پوش حضرات بیٹھے تھے۔

(جاری ہے)

قسط نمبر  61 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

 (علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)