لاک ڈاؤن اور غریب طبقہ

لاک ڈاؤن اور غریب طبقہ
لاک ڈاؤن اور غریب طبقہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کورونا کے وار پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی جاری ہیں اور ان سطور کے شائع ہونے تک اس موذی وائرس سے مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔ پاکستان میں بھی اس وائرس کی وجہ سے سو کے قریب لوگ وفات پا چکے ہیں اور تاحال یہ وائرس رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی ماہرین کے مطابق اب تک پچاس ہزار ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے اور ابھی بھی پوری دنیا میں یہ لاک ڈاؤن جاری ہے مزید یہ کتنا نقصان کرے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔اگر ہم پاکستان کی معیشت کی بات کریں تو وہ پہلے ہی ڈانواں ڈول کیفیت میں تھی لیکن اب اس لاک ڈاؤن نے اسے مزید نشیب میں دھکیل دیا ہے۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے پاکستان میں نچلا طبقہ پس کر رہ گیا ہے اور رمضان کی آمد آمد ہے جس کی وجہ سے غریب طبقے کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔لاک ڈاؤن اور کورونا کے درمیان میں پسنے والے اس طبقے کی مشکلات کو کم کرنے کے لئے کچھ ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے تا کہ پاکستان کی آبادی کا پچاس فیصد یہ حصہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے بغیر اپنی زندگی گزار سکے۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق یہ کورونا متعدی وائرس ہے جس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا گیا ہے تو اس سے نمٹنے کے لئے حکومت کو چاہئے کہ وقت کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے چند معاملات پر عوام کو ریلیف دے۔اگرچہ احساس پروگرام یا اس طرح کے دیگر اقدامات اچھے فیصلے ہیں اس سے غریب کی کسی حد تک اشک شوئی ہوتی ہے لیکن یہ مستقل حل نہیں ہے۔

کیوں کہ پاکستان میں ابھی بھی لاکھوں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جو حکومتی امداد کی بجائے خود کر کے کھانا چاہتے ہیں اور وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا پسند نہیں کرتے۔جس طرح سکول ٹیچرز ہیں جو نجی سکولوں میں پڑھا کر اپنا پیٹ پالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیوں کہ اس لاک ڈاؤن کے دوران سکول بند ہیں لیکن سکول مالکان نے لوگوں کے گھرو ں میں فیسوں کے نوٹس بھیجنے شروع کر دیئے ہیں۔حکومت کو چاہئے ایک تو اس طرح کے چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والے افراد کو ریلیف دے اور دوسرا مالکان کو بھی چاہئے کہ ایسے کڑے وقت میں وہ بچوں سے پوری سکول کی فیس لینے کی بجائے آدھی فیس لیں اور اس سے اپنے گھر بیٹھے اساتذہ کو تنخوا ہ دیں چاہے آدھی دیں لیکن انہیں نوکری سے مت نکالیں یا ان والدین پر بوجھ مت ڈالیں جو خود بھی گھروں میں مقید ہیں وہ اس وقت بچوں کی فیسیں ادا کرنے سے قاصر بھی ہیں۔ کیوں کہ اگر سکول بند ہیں تو سکول میں استعمال ہونے والی ایسی اشیا جن کا بل ادا کرنا پڑتا ہے وہ بھی بند ہیں تو ان کا خرچہ بھی آدھا ہو چکا ہے اس لئے کوئی درمیان کی راہ نکالنا ہو گی تا کہ لاک ڈاؤن میں رہ کر لاکھوں لوگوں کا روزگار بھی چلتا رہے۔اسی طرح رکشہ ٹیکسی چلانے والا طبقہ ہے وہ بھی اس موقع پر عوام کی جیبوں سے پیسے نکالنے کی بجائے گھر سے باہر نکلنے والوں سے اگر آدھا کرایہ لیں گے ایک تو ان کا بھی میٹر چلتا رہے گا اور ادا کرنے والے کو بھی تکلیف نہیں ہو گی۔

اسی طرح متعدد ایسے کاروبار ہیں جو اگر اس دوران احساس کریں تو اس لاک ڈاؤن کو پرسکون رہ کر اور معاشی تکلیف سے دوچار ہوئے بغیر بھی گزارا جا سکتا ہے۔کیوں کہ احساس ایک ایسی چیز ہے جو اگر انسان میں نہ ہو تو انسان اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔سماجی رابطوں میں فاصلہ برقرار رکھنے اور احتیاطی تدابیر کے علاوہ ہمیں اس دوران اللہ کی جانب سے بتلائے ہوئے طریقوں پر بھی عمل کرنا چاہئے تا کہ یہ خطرناک وائرس اس دنیا سے جلد از جلد اپنا منہ موڑ لے۔جس طرح حضرت یونس ؑ کو اللہ نے مچھلی کے پیٹ میں ڈالا تو انہوں نے تہہ بہ تہہ اندھیروں میں اپنے رب کو پکارا تو اللہ کی بابرکت ذات نے انہیں ان اندھیرں سے نجات دلائی۔انہوں نے اس موقع پر اپنے رب سے دعا مانگی جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ اے میرے اللہ تیرے سواکوئی معبود نہیں ہے تو پاک ذات ہے بے شک میں ہی ظلم کرنے والوں میں سے ہوں۔


اس کے علاوہ پاکستان بھر میں مخیر حضرات لوگوں میں راشن بانٹ رہے ہیں اور کچھ مذہبی و فلاحی تنظیمیں اس مشکل وقت میں عوام کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے ان میں نقد رقم اور راشن بھی دے رہی ہیں جو کہ نہایت خوش آئند بات ہے۔یہ ایک ایسا مرض ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنے پیاروں کا نہ آخری دیدار کر پا رہے ہیں اور نہ ہی ان کی صحیح اسلامی طریقے سے تکفین و تدفین ہو رہی ہے جس کی وجہ سے وہ لوگ جن کے پیارے اس مرض میں مبتلا ہیں وہ نہایت دکھ کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔یہاں اسلامی سکالرزعلامہ ابتسام الہی ظہیر،ہشام الہی ظہیر اور معتصم الہی ظہیر کو داد دینا پڑے گی انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اور ان کی جماعت اس غم کی گھڑی میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی نہ صرف تکفین و تدفین کریں گے بلکہ ان کے غسل کے انتظامات بھی وہ خود کریں گے اس کے لئے انہوں نے پورے پاکستان میں اپنے جانبازوں کی فورس تیار کر دی ہے۔

کچھ دن قبل لاہور کے میو ہسپتال میں فوت ہونے والے ایک شخص کے غسل کے انتظامات اور تکفین و تدفین کو لے کر ایک خاندان انتہائی پریشان تھا تو اس موقع پر ابتسام الہی ظہیر کے جانثاروں نے نہ صرف ان کو غسل دیا بلکہ ان کی اسلامی طریقے سے تدفین بھی کی۔علامہ ابتسام ظہیر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ایک مسلمان کی میت کی بھی اتنی ہی حرمت ہے جتنی اس کی زندگی میں ہے تو ایسے میں کورونا کو بہانہ بنا کر مسلمان میت کی توہین کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ظہیر برادران کی جانب سے یہ اقدام سراہے جانے کے قابل ہے اور اس کار خیر میں پاکستان کی دیگر مذہبی جماعتو ں کو بھی شامل ہونا چاہئے۔کیوں کہ کورونا کو طبیب حضرات ایک متعدی بیماری کہہ رہے ہیں تو اللہ کے نبی ﷺ نے ایک دعا بتلائی ہے جامعہ ترمذی میں یہ دعا موجود ہے اللہ کے پیارے نبی ﷺ کا فرمان ہے جو کوئی اگر کسی بیمار کو ملے تو اور اس کو دیکھ کر یہ دعا پڑھ لے تو وہ اس بیماری سے محفوظ رہے گا۔وہ دعا یہ ہے کہ


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا ابْتَلَاکَ بِہِ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا۔
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے مجھے اس چیز سے عافیت دی جس میں تجھے مبتلا کیا ہے اور مجھے اپنی مخلوق میں سے بہت سوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔یہ دعا کورونا کے مریضوں سے ملتے وقت یاسوشل میڈیا پر دیکھے تو پڑھنی چاہئے تا کہ ہم ہر قسم کی بیماری سے محفوظ رہ سکیں۔آمین

مزید :

رائے -کالم -