اللہ حافظ رحمن صاحب، اللہ حافظ ضیاء شاہد صاحب

اللہ حافظ رحمن صاحب، اللہ حافظ ضیاء شاہد صاحب
اللہ حافظ رحمن صاحب، اللہ حافظ ضیاء شاہد صاحب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ایک اچھے رپورٹر آصف چودھری نے فیس بک پر اپنی پوسٹ میں لکھا ”اب تو فیس بک کھولتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ پھر کسی نہ کسی کی وفات ہی کی خبر ملے گی۔“ برادرم آصف کی یہ بات حقیقت ہے کہ گزشتہ چند روز سے مسلسل ایسی ہی اطلاعات مل رہی ہیں اور صدمہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک بڑی حقیقت ہے کہ کورونا کی تیسری لہر کے اس دور میں شاید یہ واحد ذریعہ ہے جس سے اپنے ملنے، جاننے والوں اور پیاروں کی جدائی کا علم ہوتا ورنہ جو دور جا رہا ہے۔ اس میں تدفین بھی مشکل ہو گئی ہے اور نماز جنازہ میں شرکت نا ممکن سی بن گئی ہے۔ اسی وجہ سے کئی اعزہ کی وفات کا علم بڑی تاخیر سے ہوا اور یہ اور دکھ تھا۔ بہر حال آئی اے رحمن اور ضیاء شاہد کی دنیا سے رخصتی ایسی تھی کہ فیس بک بھر گئی تھی، اس سے قبل بھی امروز کے ایک دیرینہ ساتھی سعید بدر کی عمر تمام ہونے والی اور ان کی علالت کی اطلاع کا ذریعہ بھی یہی تھا۔ آئی اے رحمن اور ضیاء شاہد تو ایسے نام ہیں کہ جن کے لئے مسلسل پوسٹیں اور تعزیت کم نظر آتی تھی اگرچہ ہر دوسری پوسٹ انہی سے متعلق تھی۔ بزرگوں سے یہ سنا ہوا ہے اور عملی طور پر خود کو بھی علم ہے کہ دنیا میں وہ بھی کوئی انسان ہے جس کا کوئی دشمن اور مخالف نہ ہو۔ تو نہ صرف آئی اے رحمن اور ضیاء شاہد پر یہ مثال صادق ہے بلکہ ہم سب بھی اسی پیمانے سے تولے اور ناپے جانے والے لوگ ہیں یہ درست ہے کہ ہر دو سینئر بلکہ بزرگ صحافی حضرات کے بھی حامی و مخالفین کی کوئی کمی نہیں۔

لیکن ان کی صفات شاید ایسی مخالفت پر حاوی ہیں کہ بھاری تعداد ان صفات کو گنانے والوں کی ہے۔ ضیاء شاہد کے ساتھ کام کرنے کا موقع تو نہیں ملا لیکن ان سے یاد اللہ بہت دیرینہ تھی۔ جب وہ لاہور میں پاؤں جما رہے تھے اور حنیف رامے (مرحوم) سے ان کی قربت تھی، پھر یہی ضیاء شاہد بتدریج اپنے لئے مقام بناتے چلے گئے اور آج ان کے نام دو روزناموں کے اجرا کا کریڈٹ بھی ہے۔ وہ اپنے پیچھے ”خبریں گروپ“ چھوڑ کر گئے ہیں۔ ضیاء شاہد نے ملکی سیاست میں بھی عمل دخل کی کوشش کی تو خود ایڈیٹروں اور مالکان میڈیا کی گروپنگ میں بھی فعال کردار ادا کیا۔ آج سینکڑوں کارکن صحافی ان کے لئے دعا گو ہیں تو ایسے بھی کم نہیں جن کو ان کی ذات سے نقصان بھی ہوا اور وہ کچھ بہتر خیالات بھی نہیں رکھتے ہیں بہر حال میں اس ہدایت کا قائل ہوں کہ جو دنیا سے چلا گیا اس کا حساب کتاب اللہ اور اس کے فرشتوں کے پاس ہے اس لئے ہم سب کو جانے والوں کے اعمال کا حساب کرنے کی ضرورت نہیں میں ہر دو کے لئے دعا گو ہوں، اگرچہ تاریخ کو بھلایا اور جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا۔


آئی اے رحمن ایک نفیس انسان تھے آہستہ بولتے اور پیار بھی کرتے تھے۔ ان کا ٹریڈ یونین کردار بھی واضح ہے۔ اگرچہ ایک موقع ایسا بھی آیا جب وہ بھی عبداللہ ملک (مرحوم) اور عباس اطہر کے ساتھ روز نامہ ”آزاد“ کے معرکہ میں شامل ہوئے۔ رحمن صاحب کو عام طور پر ترقی پسند کہا جاتا ہے۔ تاہم وہ آخر وقت تک پکے سوشلسٹ تھے۔ میرا ان حضرات کے ساتھ ابتدا ہی سے واسطہ ہو گیا تھا کہ میں نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز روز نامہ امروز سے کیا جو پروگریسو پیپرز کا ایک حصہ تھا۔ جسے میاں افتخار الدین مرحوم نے شروع کیا۔ پاکستان ٹائمز اور لیل و نہار بھی اسی ادارے کے تھے۔ تاہم جب میں نے امروز میں کام شروع کیا تو ظہیر بابر (مرحوم) ایڈیٹر اور عبداللہ ملک چیف رپورٹر تھے۔ حمید جہلمی، حمید اختر، فخر ہمایوں، بدر الاسلام بٹ (مرحومین) بھی یہیں تھے اور آئی اے رحمن پاکستان ٹائمز میں تھے۔ ان سے ربط و ضبط ٹریڈ یونین کے حوالے سے ہوا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی سرگرمیوں میں سینئر تھے۔ ان سے وابستہ بہت یادیں ہیں۔ یہاں ایک واقعہ کا ذکر ہی کافی ہوگا۔ یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور کی بات ہے۔ نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین واجد شمس الحسن تھے روزنامہ امروز کے بارے میں تشویش ناک خبریں ہمیشہ گونجتی رہتی تھیں۔ معلوم ہوا تھا کہ واجد شمس الحسن سمجھتے ہیں کہ امروز گھاٹے کا سودا ہے۔ اگر اس کا نقصان ختم نہ ہوا تو اسے بند کر دینا چاہئے۔ دفتر میں بات چلی تو سینئر حضرات نے مجھے کہا کہ اپنے تعلقات آزماؤ اور امروز کے لئے اشتہارات کی بات کرو کہ اگر سرکاری پالیسی ہی ہے تو پھر سرکاری اشتہار بھی ملنا چاہئیں۔

میں اسلام آباد روانہ ہو گیا۔ ڈاکٹر جہانگیر بدر (مرحوم) وزیر تھے۔ ان سے علیک سلیک ہوئی اور انہی سے گاڑی لے کر میں چیئرمین ٹرسٹ کے دفتر چلا گیا۔ واجد صاحب موجود نہیں تھے۔ انتظار کر رہا تھا کہ رحمن صاحب بھی آگئے وہ پی پی ایل کے چیف ایگزیکٹو تھے۔ واجد صاحب کے آنے پر میں نے بات چھیڑی اور ان سے گزارش کی کہ امروز کے حوالے سے تشویش ہے۔ یہ درست نہیں۔ اس وہ برہم ہو گئے اور مجھے کہا وہاں کام تو کوئی کرنا نہیں۔ آپ یہاں کیوں اور کیسے ہیں۔ اس پر رحمن صاحب نے ذاتی طور پر مداخلت کی اور میرا بھرپور تعارف کرایا۔ میں نے بھی بتا دیا کہ سینئرز کی اجازت سے آیا اپنے خرچ پر ہوں اور خبریں بھی بھیج رہا ہوں۔ آپ اپنا حصہ ڈالیں اور اشتہار بڑھائیں، بہر حال رحمن صاحب کی مداخلت سے محفل بھی خوشگوار ہوئی اور ہم امروز کے جاری رہنے کا پروانہ لینے میں کامیاب ہوئے لکھنے کے لئے بہت کچھ جگہ کی قلت آڑے آ گئی۔ اللہ حافظ رحمن صاحب، اللہ حافظ ضیاء شاہد۔

مزید :

رائے -کالم -