یکساں نصاب تعلیم اور فکر اقبالؒ کا فروغ
علامہ اقبال ؒ نے قیام پاکستان کے لئے جو تصور پیش کیا، اس کی بنیاد دو قومی نظریہ ہے جو آج بھی زندہ و تابندہ ہے۔علامہ اقبالؒ نے امت مسلمہ کے لئے جو خواب دیکھا تھا وہ بہت ہی بروقت تھا۔ اس کے ٹھیک دس برس بعد منٹو پارک لاہور میں تاریخی قرارداد منظور ہوئی جس کے ذریعے برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل آزاد ریاستوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔ قائد اعظمؒ اور برصغیر کے مسلمانوں کا پختہ یقین تھا کہ وہ بہت جلد پاکستان حاصل کر لیں گے اور پھر سات سال کے قلیل عرصے میں پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ یہ ساری دنیا میں واحد تاریخی جغرافیائی حقیقت ہے کہ 14 اگست 1947ء بمطابق 27 رمضان المبارک بروز جمعرات اقوام عالم نے یہ معجزہ دیکھا۔
علامہ اقبال ؒ اور قائد اعظم ؒ جدید اسلامی فلاحی مملکت چاہتے تھے جو آئندہ نسلوں کی اہم ضرورت ہے۔ ہم اقبالؒ کے فلسفے کی تفہیم اور فکر اقبالؒ کے فروغ کے ذریعے پاکستان کو مستحکم، مضبوط اور خوشحال بنا سکتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کے افکار و تصورات کی تبلیغ کے ذریعے کئی اداروں بشمول اقبالؒ اکیڈمی پاکستان اور بزم اقبالؒ لاہور کی جانب سے سینکڑوں کتب شائع ہوئی ہیں۔ ماضی میں اقبالؒ کے بارے میں زیادہ تر کتابیں تحقیق پر مبنی ہیں۔ آج کے دور میں ہمارے بچوں، نوجوانوں، طلبا و طالبات اور عام لوگوں کے لئے آسان اور عام فہم اردو زبان میں کتابوں کی اشاعت اہم ضرورت ہے، کیونکہ آج ہمارے بچے، نوجوان اور عام لوگ چار پانچ دہائیاں قبل لکھی گئی زبان سمجھنے سے قاصر ہیں۔ آج تو بہت کم طلباء و طالبات اور کچھ اساتذہ اقبالؒ پر ایم فل یا پی ایچ ڈی کرتے ہیں۔ ان مقالات کا مطالعہ آج کے طلباء و طالبات و دیگر پاکستانی عوام کے لئے سمجھنا آسان نہیں۔ اقبالؒ اکیڈمی کو آئندہ کتب لکھوانے کے لئے اس امر کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔ یہ امر خوش آئندہ ہے کہ بزم اقبالؒ لاہور نے اقبالؒ، قائد ؒ کے تصورات اور نظریہء اسلام کے فروغ کے لئے آسان اور عام فہم بنانے کا آغاز کر دیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں موجودہ حکومت پاکستان کی تعمیر نو کرنے کا عزم رکھتی ہے، لیکن وزیر اعظم بذات خود کون کون سے مسائل حل کر سکتے ہیں اور کیسے انقلابی تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں متعلقہ وزارتوں اور اعلیٰ حکام کا فرض منصبی ہے کہ وہ وزیر اعظم کے تصورات اور خواہشات کے مطابق ملک اور معاشرے میں تبدیلیاں لانے کے لئے اپنی سوچ کو وزیر اعظم کی سوچ سے ہم آہنگ کردیں۔ وفاقی وزارت تعلیم، چاروں صوبوں کے کچھ ادبی و علمی اداروں کو گرانٹ فراہم کررہی ہے اورماضی میں بزم اقبالؒ لاہور سمیت کئی اداروں کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے۔ کئی بار وزارت تعلیم کے سیکرٹری اور ادارہ ادبیات کے سربراہوں کو اس جانب متوجہ کیا گیا، مگر ادارہ ادبیات کے اندر بعض عناصر بزم اقبال ؒ لاہور کو گرانٹ دینے سے قاصر ہیں۔ یہ تو وہی جانتے ہیں کہ ان کا طرز عمل درست ہے یا نہیں اور وہ ماضی میں نظرانداز کئے گئے علمی ادارے بزم اقبالؒ لاہور کے جائز مطالبے پر توجہ دینے کو تیارکیوں نہیں۔
وزارت تعلیم محترم شفقت محمود کی قیادت میں قومی سطح پر یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے اور نظام تعلیم میں بعض اہم تبدیلیاں لا رہی ہے جو نہایت خوش آئند ہیں۔ ان شاء اللہ یہ تبدیلیاں ضرور رنگ لائیں گی اور قومی تعمیر نو کے لئے مفید ثابت ہوں گی۔ اقبالؒاکیڈمی پاکستان کافی عرصے تک ناظم کے تقرر سے محروم رہی۔ وفاقی وزیر تعلیم نے ڈاکٹر بصیرہ عنبرین کو ڈائریکٹر تعینات کیا ہے اور انہوں نے فکراقبالؒ کے فروغ کے لئے اپنی کاوشیں شروع کر دی ہیں۔ امید ہے وزیر تعلیم کی نگرانی اور محترمہ بصیرہ عنبرین کی برق رفتاری سے اقبالؒ اکیڈمی جلد اعلیٰ مقام حاصل کر لے گی۔ یہاں ہم چند حالیہ سرگرمیوں کا ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ اقبالؒ اکیڈمی کے تحت یوم پاکستان پر ایک اہم تقریب ہوئی،اس کے علاوہ فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کی یاد میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کی یاد میں منعقدہ تقریب سے مرحوم کی بیگم محترمہ جسٹس ناصرہ جاوید اقبال، فرزند جاوید اقبال سینیٹر ولید اقبال اور جاوید اقبال کے خاندان کے دیگر ممتا ز ارکان نے بھی ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی، ادبی، سیاسی اور قانونی خدمات پر روشنی ڈالی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس ناصرہ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ جاوید اقبال (مرحوم) بہت محنتی اور انتہائی مستعد انسان تھے۔ نو سال کی تحقیق کے بعد انہوں نے تین جلدوں پر مشتمل ”زندہ رود“ لکھی اور کسی سے مدد نہیں لی۔ وہ اپنی والدہ کو بہت یاد کرتے تھے،انہوں نے والد کے احکام کے مطابق خود کو ڈھالا۔
سینیٹر ولید اقبال نے کہا کہ مولانا رومی کے انسان کامل اور نطشے کے سپرمین کے تصور کو آگے بڑھاتے ہوئے علامہ اقبال نے مرد حق کا تصور پیش کیا جو ان کو قائد اعظمؒ کی شکل میں حاصل ہوگیا۔ میاں اقبال صلاح الدین نے کہا کہ ڈاکٹر جاوید اقبال کی زندگی ”دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر“ والی نظم میں لکھے گئے ہر شعر سے عبارت تھی۔ ڈائریکٹر اقبالؒ اکادمی پروفیسر ڈاکٹر بصیرہ عنبرین نے اس موقع پر کہا کہ اقبال کی شاعری قوت، حرکت اور حرارت کا استعارہ ہے۔ کلام اقبالؒ میں جاوید کا اسم نوجوانوں کے لئے تحریک کا ایک استعارہ ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی علمی و تحقیقی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کیا۔ اقبالؒ کے کلام کو نوجوانوں میں عام کرنا اس وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ہم وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ارباب اختیار سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے زیر انتظام تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں اقبالؒ کی زندگی اور ان کے مشن کے بارے میں شائع شدہ کتب کی خرید کے لئے وافر فنڈز فراہم کریں۔