گلگت کا شاہی پولو گراﺅنڈ ۔۔۔۔۔حالات کافی ابتر ، غریبانہ ، کوئی شاہانہ بات نہیں تھی 

گلگت کا شاہی پولو گراﺅنڈ ۔۔۔۔۔حالات کافی ابتر ، غریبانہ ، کوئی شاہانہ بات ...
گلگت کا شاہی پولو گراﺅنڈ ۔۔۔۔۔حالات کافی ابتر ، غریبانہ ، کوئی شاہانہ بات نہیں تھی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : عمران الحق چوہان 
قسط :46
 ہم کارگاہ نالہ جانا چاہتے تھے جہاں بدھ کا ایک مجسمہ صدیوںسے مو جود ہے لیکن جانے سے پہلے گلگت کا شاہی پو لو گراونڈ دیکھنا تھا۔ لوکل ویگن والے نے ہمیں شاہی پولو گراونڈ کے باہر اتارا۔ چھوٹے سے داخلی پھاٹک کے گرد چنار کے گھنے اور بلند درختوں کا سایہ تھا۔ گراونڈ میری توقع کے بر عکس کا فی چھوٹا اور غیر دل چسپ تھا۔ نام کے برعکس اس میں کوئی شا ہا نہ بات نہیں تھی بلکہ اس کے حالات کافی ابتر اور غریبانہ تھے۔ پویلین میں رنگ برنگی کر سیاں (bleachers) نصب تھیں، جن کے آگے نا ظرین کو غیر ارادی اور غیر متوقع آنے والی گیند کی چوٹ سے محفوظ رکھنے کےلئے آ ہنی جالی کا پردہ تھا ۔ بے آباد اور ویران مستطیل گراونڈ میں پانی جمع تھا جس سے فضا میں حبس بن گیا تھا اور ماحول میں ساکن پانی کی سڑاند تھی۔ گھاس بھی کافی بڑھی ہوئی تھی۔ گراونڈ کے پیچھے جامع مسجد کا بلند مینار دکھائی دیتا تھا۔ یہاں تو مدت سے کوئی پولو میچ تو کیا کوئی آیا گیا بھی نہیں تھا۔ 
 گوتم بدھ اور یک شینی :
پولو گراو نڈ سے باہر نکل کر کارگاہ نالہ کےلئے ویگن کی تلاش شروع کی گئی۔پوچھ تاچھ کے دوران ایک پولیس وین کے باریش ڈرائی ور سے کارگاہ نالہ کی ویگن کےلئے راہ نمائی چاہی۔ جواب میںاس نیک آدمی نے وہاںلے جانے کےلئے خود کو پیش کر دیا۔ ہم بہت خوش ہوئے ۔ ہمارا خیال تھا کہ وہ فی سبیل للہ یہ نیکی کرناچاہتا ہے لیکن اس نے یہ خوش فہمی یہ کَہ کر رفع کر دی کہ وہ عام ڈرائی وروں کی نسبت کم پیسے لے گا۔ مولوی شاہد اقبال پولیس ملازم تھا، ہر سرکاری ملازم کی طرح اسے بھی تن خواہ کم ہونے کی شکایت تھی چناں چہ اضافی آمدنی کےلئے دفتری اوقات میں اورچھُٹی کے بعد سرکاری گاڑی کو نجِّی طور پر چلا کر گزارہ کرتا تھا۔ اس وقت بھی وہ کسی سرکاری کام سے ڈیوٹی پر نکلا تھا لیکن راہ میں اللہ نے اس کے بچوں کا رزق بھیج دیا تھا اس لیے وہ راضی بہ رضا نیک شخص اپنا فرض موخر کر تے ہوئے اپنی خدمات ہمیں سستے داموںپیش کر رہاتھا۔
”راستہ بوت مشکل اور لمبا ہے۔ڈیڑھ گھنٹا لگ جا تا ہے۔“ اس نے بتایا۔
پھر اس نے اپنی کم تن خواہ اور بڑھتی مہنگائی کا تفصیلی رونا رویا ، جواباً ہم نے اپنی مسافرت اور غربت کے مصائب بڑھا چڑھا کربیان کیے تب کہیں جاکرکرائے کی وہ صورت پیداہوئی جس میں ہمیں کچھ رعایت کا امکان محسوس ہوا، اور ہم چھاپے میں پکڑے گئے جواریوں کی طرح پولیس ویگن میں لد گئے۔
 این ایل آئی چوک سے گاڑی جماعت خانہ بازار سے ہوتی ہوئی ہسپتال روڈ پر آئی اور بنک روڈ کے راستے قریبی بستی نپورہ سے ملحق کارگاہ نالہ کی طرف دوڑ نے لگی۔شہر سے نکلتے ہی سڑک ختم ہو گئی اور کچی چڑھائی کا راستہ شروع ہو گیا۔ نپور بسین آیا تو مجھے کالاش یاد آگیا۔ اسی طرح پیڑوں سے انگور کی لپٹی ہو ئی بیلیں اور چھو ٹی چھو ٹی نالیوں میں بہتا چشمے کا صاف پانی، راستے کے گردا گرد پھلوں کے درخت۔ یہ اس علاقے کی قدیم ترین آبادی ہے۔ خا موش گھروں کی ایک پر سکون اور شانت سی آ بادی۔ڈرائی ور مولوی شاہد اقبال کے بیان کے بر عکس ڈیڑھ گھنٹے کا راستہ 20 منٹ میں طے ہو گیا۔ ندیم نے حساب لگا کر بتا یا کہ کُل فا صلہ ہی صرف سات آٹھ کلو میٹر تھا اور اس نے ظلم کی حد تک ہم مسافروں کو لُوٹا تھالیکن ایک باریش شخص کی نیت پر شک کر کے ایمان خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا تھا چناں چہ ہم نے راستے کے مختصر ہونے کو ڈرائی ور کی پرہیز گاری کی کرامت سمجھ کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ گاڑی ایک ہم وار جگہ روک کر وہ ہمیں چڑھائی کی طرف لے چلا۔بائیں ہاتھ بہتے چشمے کی کگر پر چلتے ہوئے اس نے چشمے کے پار ایک چٹان پر بدھ کا کھدا ہوا ایک مجسمہ دکھایا۔ یہی ہماری منزل تھی۔بدھ صاحب خلاف ِعادت سیدھے کھڑے تھے اور خلاف ِ معمول ان کی صحت بھی کافی اچھی تھی۔ غالبا ً یہ ان کے تلاشِ نروان کے ابتدائی دور کی شبیہ تھی۔ گوتم نے روایتی انداز میں دایاں ہاتھ آشیر واد کےلئے بلند کر رکھاتھا اور بایا ں بازو لٹکایا ہوا تھا، البتہ آ نکھیں ہمیشہ کی طرح مُندی ہوئیں اور ہونٹوں پر وہی مدھم اور شانت سی مسکراہٹ تھی جو دنیا کی حقیقت اور اس کا مآل سمجھنے والے کے ہو نٹوں پر ہو تی ہے۔ بدھ کا ایک مطلب ”بیدار ہو جانے والا“ بھی ہے۔ جس کے من آ نکھیں کھل جائیں وہ دنیا کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ دنیا خود بہت بڑا حجاب ہے۔ ہو دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئی۔ دریائے نیرنجان کنارے بودھی (پیپل) کے پیڑ تلے گوتم سدھارتھ نے یہ راز ایسا سمجھا کہ یہ چشم بستگی اور مسکرا ہٹ اس کے وجود کا حصہ بن گئی اور اب ازل تک دنیا اور موہ مایا کے جال میں پھنسے لو گوں کو یاد دلاتی رہے گی کہ۔۔۔ یہ توَہم کا کا رخا نہ ہے۔۔۔ اور یہ کہ:
ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد
 (جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )۔