48گھنٹے کا دن:رجیم چینج 

48گھنٹے کا دن:رجیم چینج 
48گھنٹے کا دن:رجیم چینج 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 عمران خان کو تحریک عدم اعتمادکے ذریعے وزارت عظمیٰ سے الگ کر دیا گیا۔ یہ عمل 3اپریل کو شروع ہو کر9اپریل کی آدھی رات کو مکمل ہوا۔ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق  تین اپریل کے معاملات  جہاں ختم ہوئے تھے وہیں سے9اپریل کو آگے لے جایا گیا۔3اور9اپریل کو ملا کر ایک دن بنا دیا گیا۔اس روز  منفرد واقعات وقوع پذیر ہوتے رہے۔اس دن تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ایجنڈے پر دو بار آئی۔اس دن کی اہمیت تو مسلمہ ہے البتہ کوئی اسے تاریخ کا تابناک اور کوئی سیاہ دن قرار دے رہا ہے۔ تحریک پر3اپریل کو ووٹنگ ہو جاتی تو قوم کئی اداروں،کئی کرداروں اور کئی سٹیک ہولڈرزکی فعالیت جانچ نہ پاتی۔ متحدہ اپوزیشن جواب  چودہ جماعتی حکومتی اتحاد کاروپ بہروپ ہے اس کے نمبر پورے تھے۔ ان کو 3اپریل کے دن کے پہلے حصے میں کامیابی کا یقین  تھا۔ اجلاس شروع ہوا۔ ”جماعتی اتحاد“ کے ارکان کی تعداد پی ٹی آئی کے ان ارکان جن کے تازہ تازہ ضمیر جاگے تھے سمیت195تھی، جبکہ رجیم چینج کے لئے 172 ارکان کی ضرورت تھی۔ ممکنہ کامیابی پر ان کی چال میں بانکپن تھا۔چہروں سے لالیاں پھوٹ رہی تھیں۔اُدھر حکومتی پارٹی کے اکثر ارکان کے چہروں سے ہوائیاں اُڑ رہیں  اور مایوسیاں اُمڈ رہی تھیں۔ پھر یکسر منظر نامہ بدل گیا۔ ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری نے تحریک عدم اعتماد اور امریکہ کے خط میں ربط قرار دے کر تحریک مسترد کر دی۔ اب اپوزیشن سکتے میں اور پی ٹی آئی والوں کے چہرے پُر رونق تھے۔ڈپٹی سپیکر اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر کے ایوان سے چلے گئے۔ اپوزیشن ہکا بکا بیٹھی رہی، پھر پینل آف چیئرز ایاز صادق نے کرسی ئ  سپیکرسنبھالی اورعلامتی کارروائی چلاتے رہے۔ یہ اتوار کا دن تھا۔ سپریم کورٹ میں درخواست دی گئی۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے دو ججوں جسٹس منیب اختر اور محمد علی مظہر کو ساتھ لیا۔

عدالت لگائی اپنی کارروائی کو سوموٹو قرار دیا اور اگلے روز4اپریل کو کیس پانچ رکنی اس بینچ کے سامنے رکھنے کی ہدایت کی جو بینچ ہارس ٹریڈنگ پر صدارتی ریفرنس کی سماعت کر رہا تھا۔ اس بینچ میں جسٹس منیب اختر، جمال خان مندو خیل، مظہر عالم میاں خیل اور اعجاز الاحسن شامل تھے۔ بینچ نے اپنا فیصلہ محفوظ کرکے رات ساڑھے سات بجے سنانے کا اعلان کیا۔اسی دوران الیکشن کمیشن کی طرف سے میڈیا میں خبر چلی کہ سات ماہ سے قبل انتخابات نہیں ہو سکتے۔  7 اپریل جمعرات کی رات کوسوا آٹھ بجے  فیصلہ سناتے ہوئے  سپریم کورٹ نے سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیا اور حکم دیا کہ9اپریل کو اجلاس بلا کر 3اپریل کی کارروائی کو جاری رکھا جائے۔ 9اپریل کواجلاس شروع ہوا تقریریں ہونے لگیں۔ اپوزیشن کے حوصلے اور اعصاب جواب دینے لگے۔ حکومت اس روز ووٹ کرانے کے موڈ میں نہیں تھی۔ اس روز نماز اور افطار کے لئے4بار اجلاس ملتوی ہوا۔اسی روز حکومت نے 7اپریل کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل تیار کی، جو سپریم کورٹ کا وقت ختم ہونے پر جمع نہ ہو سکی۔

جج حضرات اور عملہ گھروں کو جا چکا تھا۔ اسمبلی کے اندر جوں جوں ووٹنگ پر تاخیر ہو رہی تھی، اضطراب بڑھتا جا رہا تھا۔ رات ساڑھے نو بجے یہ اضطراب اسمبلی سے باہر بھی محسوس ہونے لگاجوہلچل میں بدلنے لگا۔مسلم لیگ(ن) کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے توہین عدالت کی درخواست تیار کی۔ ٹی وی سکرینوں پر سپریم کورٹ کے ججوں کی گھروں سے روانگی کے ٹِکر چلنے لگے۔اُدھر  چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے بھی عدالت لگالی۔ یہ ٹکر بھی چلے کہ اسلام آباد میں سیکیورٹی دستے گشت کرنے لگے ہیں۔ہائی کورٹ میں وزیراعظم عمران خان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی بھی درخواست دے دی گئی، جس وقت عدالتیں لگ رہی تھیں اور درخواستیں دائر ہو رہی تھیں اس وقت وزیراعظم ہاؤس میں کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیراعظم صحافیوں سے ملاقات کر رہے تھے۔ وزیراعظم تک یہ اطلاعات پہنچیں تو ان کی طرف سے سختی سے تردید کی گئی۔


حکومت ووٹنگ پر تاخیری حربے اختیار کرتی نظر آتی تھی۔ سپریم کورٹ کا لارجر بنچ کمرہ نمبر ایک میں بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے توہین عدالت کی درخواست تھی، لہٰذا حکومت تاخیر سے تائب ہوگئی۔ اس سارے منظر نامے کا سکرپٹ رائٹر جو بھی ہو اس پر عمل کون کرا رہا تھا۔ سرِدست کوئی بھی یہ بتانے کو تیار نہیں، مگر ہر کوئی اندازہ لگا رہا ہے اوران سب کی سوچ کے دھارے یکساں ہیں۔سپیکر اسد قیصر نے آدھی رات کے وقت وزیراعظم سے ملاقات کے بعدچیئر سنبھالی۔ اس ملاقات میں ان کوامریکی خط دیا گیا تھا۔ انہوں نے اسے پاکستان کے خلاف سازش قرار دیا اور استعفیٰ دیکر چیئر ایاز صادق کے حوالے کردی۔ایاز صادق  نے  ووٹنگ کرا دی یوں 48گھنٹے کے دن کا اختتام ہوا۔اسی روز بی بی سی کی طرف سے ایک سٹوری ”چھوڑی“ گئی،فوجی ترجمان نے اس خبر کی سختی سے تردید کی۔حقیقت یہ ہے کہ شہباز شریف پاکستان کے وزیراعظم بن چکے ہیں۔پی ٹی آئی قومی اسمبلی کو خیر باد کہہ چکی ہے۔

شہبازشریف نے تنخواہوں اور پنشن میں دس فیصد اضافہ کیا اور شاید واپس بھی لے لیا کہ بجٹ میں یہ اضافہ کریں گے۔ن لیگ اقتدار سے گئی تو خزانے میں 9ارب ڈالر تھے۔عمران خان اقتدار سے ہٹے تو خزانے میں 22ارب ڈالر چھوڑے۔نئی حکومت معیشت کی زبوں حالی کا رونا کس طرح رو سکتی ہے۔معیشت کمزور ہوتی تو شہباز شریف اتنے بڑے ریلیف پیکیج کا اعلان کیسے کر سکتے تھے۔ عمران خان سیاسی جنگ سڑکوں پر لڑ رہے ہیں۔ گزشتہ روز 13اپریل کو پشاور میں بڑاجلسہ کیاکل 16کو کراچی میں کریں گے۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔تحریک انصاف کی حکومت کو سیلکٹڈ کہا جاتا تھا وہ ختم ہوگئی تو ”جم غفیر جماعتی“ حکومت آ گئی جسے امپورٹد کہا جا رہا ہے۔اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہر۔

مزید :

رائے -کالم -