کچھ مثبت اشارے؟

  کچھ مثبت اشارے؟
  کچھ مثبت اشارے؟

  


 رمضان المبارک کے آخری عشرے کا آج جمعہ ہے کہ روئت ہلال کمیٹی نے عیدالفطر کے چاند کا فیصلہ کرنے کے لئے 20اپریل آئندہ جمعرات کو اجلاس طلب کیا کہ اس روز 29روزے پورے ہوں گے اور چاند نظر آنے کا امکان ہے۔اس لئے آج کا جمعہ ہی جمعتہ الوداع ہے اور مساجد کہیں زیادہ آباد ہو گئی ہیں۔ روزہ داروں کے لئے یہ پورا مہینہ پاکیزگی اور طہارت کا ہے دو روز قبل لاکھوں روزہ دار اعتکاف کے لئے بھی بیٹھ گئے اس دوران تلاوت قرآن اور نوافل ادا کئے جا رہے اور اللہ سے اپنے اعمال اور گناہوں کی معافی طلب کی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ حالیہ حالات کے حوالے سے دعائیں بھی مانگی جا رہی ہیں کہ اللہ اپنا کرم فرمائے۔ ملک و قوم کی حفاظت اور یہاں استحکام عطا فرمائے۔ بلاشبہ عبادت اور دعائیں ہیں اور دعاؤں کی مقبولیت سے انکار ممکن نہیں لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ عمل سے زندگی بنتی ہے اور اللہ سے یہ عرض اور دعا ہے کہ اللہ ہمیں اپنے پیارے رسولؐ کی سنت مبارک اور اپنے احکام پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے کہ جس مشکل میں ہم اور ہمارا ملک گھرا ہوا ہے، اس سے نجات ملے۔ جیسا کہ عرض کیا اس کے لئے عزم کی بھی ضرورت ہے اور عمل ہی سے زندگی جنت بن سکتی ہے۔
یہ تمہید اس لئے باندھی کہ حال ہی میں پیپلزپارٹی کے گورو اور مفاہمت کا بادشاہ کہلانے والے آصف علی زرداری کی طرف سے ڈائیلاگ کی تجویز پیش کی گئی۔ قومی اسمبلی میں تقریر سے قبل انہوں نے پارٹی کے سینئر حکام کا ایک اجلاس بلایا اور اس میں تجویز کیا گیا کہ حالیہ مشکل ترین حالات میں مذاکرات لازم ہیں اور پارٹی کو پہلے اتحادی جماعتوں کے اندر مفاہمت اور مصالحت کی فضا پیدا کرکے مذاکرات کی راہ ہموار کرنا چاہیے اس کے بعد ہی انہوں نے قومی اسمبلی میں خطاب کیا تھا اور اب بلاول بھٹو نے ایک سہ رکنی مذاکراتی کمیٹی بھی بنا دی ہے جس نے کام بھی شروع کر دیا ہے۔ اس کمیٹی کے کنوینر سابق وزیراعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی ہیں۔ نوید قمر اور قمر زمان کائرہ اس کے رکن ہیں، اس کمیٹی نے پہلی ملاقات شاہ زین بگٹی سے کی ہے۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اتحادی حکومت کا تو حصہ ہے لیکن پی ڈی ایم میں شامل نہیں۔ یوں اس اتحاد میں شامل جماعتوں سے ملاقات اور مذاکرات کی ابتدا سمجھ میں آنے والی ہے۔ یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ پہلے ان ہم خیال جماعتوں سے بات چیت مکمل ہونے کے بعد اپوزیشن سے بھی بات ہو گی کہ موجودہ حالات میں مفاہمت لازم ہے اور مذاکرات سے راستے نکل آتے ہیں۔
اس حوالے سے اچھی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس والے اعلامیہ کے بعد تحریک انصاف کے فواد چودھری نے خیر مقدم کیا تھا، اس کے بعد جب قومی اسمبلی میں بات ہوئی تب بھی مثبت جواب دیا گیا تاہم موقف یہ تھا کہ حکومت کو پہل کرنا ہوگا اگرچہ تحریک انصاف کی طرف سے مسلسل یہ کہا جا رہا ہے کہ مذاکرات انتخابات کے انعقاد پر ہوں گے، آصف علی زرداری کی تجویز غیر مشروط مذاکرات کی ہے، ان کے مطابق جب مل بیٹھیں گے تو مسائل بھی حل ہوں گے، بات اب یہاں اٹکی ہوئی ہے دعوت میں پہل کون کرے یعنی پہلا پتھر کون مارے یا پہلا کنکر کون پھینکے گا اس لئے کسی نے تجویز کیا کہ وزیراعظم فون اٹھائیں  اور عمران خان کو مدعو کر لیں تاہم ابھی کپ اور لب کے درمیان فاصلہ چلا آ رہا ہے اور اسی کو طے کرنے کے لئے پیپلزپارٹی کی مصالحتی کمیٹی نے کام شروع کیا ہے اور فریقین سے بات مکمل ہو گی تو مذاکراتی میز سجنے کا امکان بھی ہوگا۔ ہم نے ہمیشہ اور مسلسل مذاکرات پر زور دیا ہے اسی لئے تحفظات ہوتے  ہوئے بھی تنقید سے گریز کیا، توقع تھی کہ آخر کار ان حضرات کی سمجھ میں بات آئے گی اور انا پرستی سے باہر نکل کر قومی سوچ اپنا لیں گے۔
یہ سب اپنی جگہ،دکھ یہ ہے کہ اس سارے تنازعہ کی وجہ سے عوام کے حقیقی مسائل کی طرف سے توجہ ہٹ گئی یا پوری نہیں دی جا رہی اور سارا زور ایک دوسرے کے خلاف جواب الجواب پر ہے بعض اوقات الیکٹرونک سکرینوں پر یہ دلچسپ منظر بھی نظر آتا ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک ہی شہر یا دو تین مختلف شہروں میں میڈیا سے گفتگو کے منظر نظر آتے ہیں اور ہر کوئی دوسرے کی عیب جوئی کر رہا ہوتا ہے حالانکہ دین فطرت ہے کہ مسلمان کے ہاتھوں اور زبان سے مسلمان محفوظ ہوتا ہے، لیکن یہاں حالات ہی مختلف ہیں اور ہر کوئی اپنے اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ ہم مسلمانوں نے پہلے معاشی کمزوریوں کے بہانے مہنگائی کی۔پھر رمضان المبارک کی آمد والی روائتی ”شان“ دکھائی اور اب آخری عشرے میں عید والی گرانی شروع کر دی گئی ہے اور یہ سب اس کے باوجود ہے کہ عوام کی قوت خرید میں کمی ہوئی ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگا لیں کہ بازاروں میں عید کی خریداری کا رش تو شروع ہو گیا ہے لیکن خریداری معمول سے کم ہے اکثر گاہک قیمت سن کر آگے بڑھ جاتے ہیں  اور مجبوراً خریداری کی جاتی ہے گزشتہ ہفتے بکرے کا گوشت دو ہزار روپے فی کلو تھا جو 21سو روپے کیا گیا اور اس جمعرات سے یہ 22سو روپے فی کلو بیچا جا رہا ہے۔ پاؤ، ڈیڑھ پاؤ والے تو پہلے ہی شرمندہ تھے اب کلو ڈیڑھ کلو والے بھی منہ چھپا رہے ہیں، لیکن تاجر بھائیوں کو فرق نہیں پڑا بدستور تین تین،چار چار کلو لئے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ رحم کرے دیکھنا ہوگا کہ عیدالفطر کا ہفتہ گزر جانے کے بعد کیا ہوتا ہے۔
سرکاری سطح پر حالات ابھی تک بہتر نہیں ہوئے۔ اگرچہ حکومت کے بعد اب آئی ایم ایف کے ایک ڈائریکٹر نے بھی مثبت بات کی اور معاہدہ ہونے کے امکانات کو واضح کیا ہے اس معاہدے سے فائدہ جو ہونا ہے وہ یہی ہے کہ امداد (ادھار) کے وعدے پورے ہونا شروع ہو جائیں گے اور وزیرخزانہ کے بقول معیشت پٹڑی پر چڑھ جائے گی جو  اب تک ڈانوا ڈول ہے، اس کے لئے پھر یہی شرط ہے کہ ملک میں استحکام ہو، اس لئے دعاگو ہیں کہ پیپلزپارٹی کی کوشش بارآور ہو جائے اور مذاکرات کی میز پر عام انتخابات کی تاریخوں کا تعین اور پرامن فضا کے لئے سمجھوتہ ہو جائے، یہ امر تمام جماعتیں تسلیم کرتی ہیں کہ معاشی استحکام کے لئے سیاسی استحکام اور اس کی ضرورت ہے جو مفاہمت ہی سے ممکن ہے۔
میں نے عدالتی امور کے حوالے سے جان بوجھ کر گریزکیا لیکن میڈیا پر جو کچھ ہو رہا ہے۔ س کی وجہ سے نظر انداز کر دینا بھی بہت مشکل ہی نہیں ناممکن ہے، اس وقت دو مقتدر اداروں کے درمیان جو صورت حال بن گئی وہ کسی طور بھی خوشگوار نہیں، ناخوشگوار ہے اور یہ سب کچھ اس کے باوجود ہو رہا ہے کہ ہمارے پاس آئین موجود ہے اور یہ سب اسی آئین کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے بھی کوشش ہونا چاہیے لیکن جو برادری کام آسکتی وہ بھی تقسیم ہے، اس کے باوجود پاکستان بار کونسل کی گول میز کانفرنس سے توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں۔ بجاطور پر میں بھی مثبت انداز ہی میں بات کروں گا کہ قانونی اور آئینی برادری میں تقسیم بھی کوئی اچھی علامت نہیں، پہلے ہی سیاسی فکر نے قوم کو تقسیم کر دیا ہوا ہے اور جذبہ خیر سگالی مفقود ہے حالیہ سیاست تو ہماری سابقہ والی سیاست کے پاسنگ بھی نہیں ہے کہ سابقہ ادوار میں مذاکرات کا خانہ خالی نہیں چھوڑا جاتا تھا۔ اب بھی قومی مذاکرات کی ضرورت ہے اور جو بھی اس حوالے سے کام کرے اس کی حمایت کر دینا چاہیے اور امید کرنا چاہیے کہ نتائج مثبت ہوں گے۔ میں نے اپنی 60سالہ صحافتی زندگی میں آئینی اداروں کے درمیان ایسا تناؤ کبھی نہیں دیکھا، اللہ کرے کہ سب ٹھیک ہو جائے۔

مزید :

رائے -کالم -