اسرائیلی مظالم کے خلاف عوامی رد عمل

Apr 15, 2023

سید منیر حسین گیلانی


  آج کل دنیا میں ہر طرف جنگ و جدل کے حالات بن رہے ہیں۔روس اور یوکرائن کی جنگ کو ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے۔ روس نے یوکرائن کا تقریبا ً آدھا حصہ اپنے قبضے میں لے لیا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ خطرناک صورتحال ہم نے رواں ماہ رمضان المبارک میں بیت المقدس میں نماز کے دوران مسلمانوں پر اسرائیلی انتظامیہ کے حملے کی دیکھی، پولیس نے نمازیوں پر ربڑ کی گولیاں بھی چلائیں۔ مسلما نوں کو نماز سے روک کر انہیں مسجد کے اندرونی حصے سے باہر نکال دیا۔ غاصب اسرائیلی ریاست کے مظالم کی فوٹیج دنیا بھر کے ٹی وی چینلز نے دکھائی۔ افسوسناک واقعہ پر دنیا بھر کے مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پا یا گیا۔ تقریباً تمام مسلم ممالک نے اس ظالمانہ اقدام کیخلاف سڑکوں پر آکر احتجاج کیا،جبکہ مسلم حکومتوں نے غیر انسانی مظالم کا شدید نوٹس لیتے ہوئے واقعہ کی شدید مذمت کی ہے۔خاص طور پر اردن اور فلسطین کے مغربی کنارے، لبنان کے فلسطینی کیمپوں سے جوابی اقدام کے طور پر اندھا دھند راکٹ برسائے گے،جس کے نتیجے میں اسرائیل نے بھی مغربی کنارے لبنان میں فلسطینی پناہ گزینوں کے کیمپوں پر اور غزہ کی پٹی پر ہوائی حملے کیے۔
 دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کا قتل عام ہوا تو سامراجی اور یورپی قوتوں نے مل کر فلسطین کے علاقے میں اسرائیلی ریاست تشکیل دی جس کو فرانس،برطانیہ اور امریکہ کے زیراثر حکومتوں نے تسلیم کرلیا۔ ان میں اس وقت کی ایرانی حکومت یعنی رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت نے امریکی خوشنودی کے لئے نہ صرف ناجائز صیہونی ریاست کو تسلیم کرلیا، بلکہ تل ابیب کی بندرگاہ کے لئے شاہ ایران نے اربوں امریکی ڈالرز کی سرمایہ کاری بھی کی،لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ رضا شاہ پہلوی کی حکومت کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فیصلے کو مسترد کرکے بانی انقلاب اسلامی رہبر عظیم الشان حضرت امام خمینی ؒ نے صیہونی ریاست سے ہر طرح کے سفارتی تعلقات کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔پھر آنے والے دنوں میں امام خمینی فلسطینی مسلمانوں کے مربی و سرپرست بن کر اُبھرے اور انہوں نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طور پرمنانے کا اعلان کیا۔ اس اعلان پر ایرانی حکومت اور عوام نہ صرف آج تک قائم ہیں بلکہ انہوں نے دنیا بھر کے فرزندان توحید کو بیداری کا پیغام دے کر ثابت کر دیا کہ مسلمان کسی جغرافیہ، نسل اور مسلک کا پابند نہیں۔اللہ کی وحدانیت، دکھ اور قدر مشترک ہی اتحاد امت کی بنیادہے۔ 
 ایک سیاسی کارکن کے طور پر مجھے کئی بارتہران میں ہونے والی القدس کانفرنسوں میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی ؒ کی اپیل پر القدس تحریک چل نکلی،جس کے نتیجے میں نہ صرف اردن، پاکستان،ایران، بلکہ بھارت،بنگلا دیش، عراق،انڈونیشیا، ملائیشیااور دیگر ممالک میں بھی انسانی حقوق کی تنظیموں اور مسلمانوں نے فلسطینیوں کی حمایت کے لئے احتجاج میں حصہ لیا اور لاکھوں کے اجتماعات کا انعقادکیا۔ 
آج جن مشکل حالات سے فلسطینی مسلمان مردو زن اور بچے گذر رہے ہیں،ان میں زیادہ شدت اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے اقتدار میں پیدا ہوئی۔ نیتن یاہوکوتیسری مرتبہ بھی اقتدار میں لایا گیا۔اس کے مسلسل غیر انسانی اور جابرانہ رویوں کے باعث فلسطینیوں کو زیادہ سخت حالات سے گذرنا پڑا۔ خاص طور پر شام کے علاقے دمشق پر ہوائی حملے کیے گئے۔ گزشتہ دِنوں ایرانی فورسز کے کیمپ پر بھی حملہ کیا گیا، جس میں دو ایرانی افسر شہید ہوئے۔ ایران نے ان کے خون کا بدلہ لینے کا اعلان کررکھا ہے۔اسی تناظر میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل میں نیتن یاہو نے عدلیہ کے اختیارات کو کم کرکے حکومت کے تابع کرنے کے لئے سپریم کورٹ کے حکومتی معاملات میں مداخلت کے لئے بل پاس کروا لیا ہے،جس پر اپوزیشن نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ چند دن پہلے تک حکومت کو تل ابیب پر اپوزیشن کی یلغار نے متنازع بل پر عملدرآمدکو زیر التوا میں ڈالنے پر مجبور کردیا ہے اور اس واقعہ میں اسرائیلی فوج اور ائرفورس نے حکومتی آرڈر کو ماننے سے انکار کیاجبکہ دوسری طرف اب صورت حال یکسر بدل رہی ہے، نیتن یاہو نے کابینہ کے اجلاس میں تسلیم کیا ہے کہ اس بل کی وجہ سے اداروں میں جو کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ اس سے اسرائیلی حکومت کمزور ہوئی ہے۔ اب یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ ایران کے  اسرائیل پر حملہ کو روکنے کے لئے کچھ ممالک کے سفیروں کے ذریعے ایران کو پیغام بھیجا گیا ہے کہ وہ کمانڈر جو شہید ہوئے ہیں، انہیں اسرائیلی فورسز نے ٹارگٹ نہیں کیا تھا بلکہ یہ غلطی سے ہوا تھا لیکن ایران اس وضاحت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔اسرائیل اپنے اندرونی حالات اور بیرونی صورت حال کی وجہ سے مشکل میں دکھائی دے رہا ہے، کیونکہ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے رہنما خالد اور حزبِ اللہ کے رہنما سید حسن نصراللہ کے درمیان اہم ملاقات ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل پرحزب اللہ، شام سے فاطمین گروپ، عراق سے القدس، اور یمن سے الحوثی بیت المقدس میں نمازتراویح کے دوران حملے پر شدید ردعمل کا اظہار کرچکے ہیں اور اسرائیل کو اس جرم کی سزا کے لئے تیار رہنے کاانتباہ جاری کرچکے ہیں۔
1979ء میں امام خمینی ؒ کی قیادت میں انقلاب اسلامی ایران کے طلوع ہونے کے بعد سے اسرائیل کی ناجائز ریاست کیخلاف فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کے لئے مسلمان ہر سال رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو دنیا بھر میں سڑکوں پر آ کر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ پاکستان میں یوم القدس کے بانی قائد ملت اسلامیہ شہید علامہ عارف حسین الحسینی ؒ ہیں۔ ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تحریک جعفریہ اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے ملک بھر میں یوم القدس منانے کا آغاز کیا،جو الحمدللہ!بڑے تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ مجھے اچھی طرح یا د ہے کہ جب پہلی دفعہ ہم نے 1986ء میں ناصر باغ چوک لاہور سے القدس ریلی نکالی تو پولیس نے روایتی اندازسے روزہ دار کارکنوں پر شدید لاٹھی چارج کیا۔پھر جلوس میں شامل مہمان ایرانی عالم دین پر تشدد ہوا تو لوگوں میں اشتعال پھیل گیا۔ آج بھی قائد ملت اسلامیہ علامہ سید ساجد علی نقوی کی اپیل پر تنظیمیں ملک بھر میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کا سلسلہ ویسے ہی جاری و ساری ہے۔

مزیدخبریں