محمد سعید جاویدکی کتاب ”مصریات“ سے ایک اقتباس
”مصریات“محمد سعید جاوید کی دوسری اور مجموعی طور پر پانچویں کتاب ہے۔ یہ کتاب ان دنوں کی یادگارتخلیق ہے جب سعید جاوید سعودی عرب کے کنگ ہسپتال کے شعبہ فنانس کے ہیڈ ہوا کرتے تھے۔مصر کے بارے میں ہمیشہ ان کے دل میں تجسس رہا۔ایک مرتبہ وہ اپنے ادارے سے چند دن کی چھٹیاں لے کر بذریعہ ہوائی جہاز مصر کے دارالحکومت قاہرہ جا پہنچے۔ وہاں انہوں نے کیا دیکھا ان کی کتاب”مصریات“سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے۔
”مرکزی ہال کے اندر سے ہی ایک دروازہ ایک ذیلی ہال میں کھلتا تھا، جس میں شاہی خاندان کے اونچے درجے کے فرعون بادشاہوں اور ملکاؤں کی ممیاں بھی ایک قطار میں چبوتروں پر پڑی نظر آ رہی تھیں۔ ایک پوری تاریخ ہر ایک کے سرہانے رقم تھی۔ ان میں سے زیادہ تر کے چہرے ننگے اور قابل شناخت تھے، تاہم باقی جسم ابھی تک جزوی طور پر ملگجی سی پٹیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ان کے سرہانے بعض تختیوں میں اصل تحریر تو فرعونوں کی اپنی ہی زبان میں تھی جس میں جانور اور پرندوں کی تصاویر کسی خاص لفظ یا احساس کو ظاہر کرتی تھیں۔ تاہم جیسا کہ سب عجائب گھروں میں ہوتا ہے وہاں سیاحوں کی سہولت کے لئے انگریزی، فرانسیسی اور عربی میں بھی ضروری معلومات فراہم کی گئی ہوتی ہیں،اپنے آپ کو نعوذ باللہ خدا کہلوانے والے نام نہاد”عظیم فرعون“کی ممی کو اسی ہال کے کونے میں بنے ہوئے ایک علیحدہ کمرے میں رکھا گیاتھا۔ میں اس کمرے کی جانب بڑھنے ہی والا تھا کہ ایک محافظ پاس آکر کھڑا ہوگیا اور مجھے گھڑی دکھاکر جلدی واپس جانے کو کہا، حالانکہ اس وقت میری ہی طرح کے تین اور متجسس سیاح وہاں موجود تھے۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے صبر کرنے کو کہا،جو اس نے نہیں کیا اور مجھے اپنی بڑی بڑی آنکھیں دکھائیں۔میں نے فوراً ہی ایک طرف ہو کر ایک پاؤنڈ اس کی جیب میں ڈالا تو وہ میرا شکر گزار ہوتا ہوا دوسرے سیاحوں کی طرف بڑھ گیا اور وہاں سے بھی اسی قسم کی ”مالیاتی ا مداد“ ملتے ہی وہ وہاں سے رفوچکر ہوگیا۔میں کمرے میں داخل ہو کر اپنے وقت کے سب سے بڑے فرعون شہنشاہ کی ممی کے سرہانے جا کھڑا ہوا۔ میرا دِل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور میں عالم حیرت میں اس شخص کو دیکھے جا رہا تھا۔ یہ غالباً دنیا کا پہلا اور آخری انسان تھا جس کا ذکر تمام مقدس کتابوں کے علاوہ قرآن مجید میں بھی موجود ہے اور اب وہ اپنے اصلی انسانی روپ میں یہاں موجود تھا، ٹھیک میری نظروں کے عین سامنے تھا۔یہ فرعون راعمیس ثانی کہلاتا تھا اور بلاشبہ یہ سب سے لمبے عرصے تک مصر پر حکومت کرنے والا بادشاہ تھا۔
اس کے بارے میں مزید تفصیل اس وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں جب میں آپ کو ا ل قصر ”LUXOR“ میں موجود اس کے شہنشاہی محلات، مدفن اور معبدوں میں لے کر جاؤں گا۔ بس ذرا انتظار۔متعدد روایات کے مطابق یہ وہی فرعون تھا جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ظلم و ستم کی انتہا کرکے ان کی اور ان کی امت، یعنی بنی اسرائیل کی زندگی اجیرن کر دی تھی اور انہیں مصر سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا تھا، جب وہ اپنے لوگوں کو لے کر وہاں سے نکلے تو اس ملعون نے ان کا پیچھا کیا اور انہیں دھکیلتا ہوا بحیرہ احمر کی طرف لے گیا۔ کوئی راستہ نہ پا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کی رضا اور توکل پر بحیرہ احمر میں داخل ہوگئے۔اسی لمحے رب نے اپنا معجزہ دکھایا۔ موسیٰ ؑ اور ان کے ساتھیوں کے لئے سمندر کو پھاڑ کر دو حصوں میں تقسیم کردیا اور یوں پانی میں سے گزر جانے کا ایک محفوظ راستہ بنا دیا وہ سب اس میں داخل ہو کر دوسرے کنارے کی طرف بڑھنے لگے۔ فرعون بھی اپنے بہت بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ وہاں پہنچا اور اپنے سپاہیوں کو ان کے پیچھے پیچھے سمندر میں داخل ہو جانے کا حکم دیا اور انہوں نے اسی راستے پر چلتے ہوئے ان کاپیچھا جاری رکھا اور پھر جب حضرت موسیٰ علیہ السلام بحفاظت باہر نکل گئے، تو اللہ کے حکم سے پانی کے دونوں پاٹ ایک بار پھر مل گئے۔اس طرح فرعون اور اس کی ساری فوج غرق ہوگئی۔ اس کا سرسری سا ذکر یہودیوں اور عیسائیوں کی متبرک کتابوں تورات اور انجیل کے علاوہ قرآن مجیدمیں بھی موجود ہے، تاہم ان میں کسی مخصوص فرعون کی نشاندہی نہیں کی گئی۔تورات اور انجیل میں تو لکھا ہے کہ وہ اپنی فوجوں کے ساتھ پانی میں اْترا ہی نہیں تھا اور کنارے پر کھڑا اپنی افواج کو احکامات دے رہا تھا۔ اس لئے وہ بچ گیا اور بعدازاں ایک لمبے عرصے تک مصر پر حکومت کرنے کے بعد اکانوے برس کی عمر میں طبعی موت مرا۔ تاہم اسلامی تواریخ کے مطابق وہ اپنی فوجوں کے ساتھ ہی سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوا۔ بعدازاں اس کی لاش کو سمندر سے نکال لیا گیا تھا۔ قرآن کریم میں یہ پیشین گوئی بھی کی گئی ہے کہ اس کو ہزاروں سال بعد ایک دفعہ پھر منظر عام پر لایا جائے گا اور وہ دنیا والوں کے لئے عبرت کا نشان بنے گا اور پھر ایسا ہی ہوا۔انیسویں صدی کے اختتام میں اس کے حنوط شدہ جسم کو ال قصر کے ایک ایسے مقبرے سے دریافت کیا گیا، جو اس کا اپنا بھی نہیں تھا۔
وہاں اس کی ممی کے ساتھ رکھی گئی تحریروں سے اس کی شناخت ہوئی، اور یہ علم ہوا کہ اس کا اپنا ایک شاندار مقبرہ ہونے کے باوجود اسے سکون سے رہنا نصیب نہ ہوا اور وہ مر کر بھی در بدر بھٹکتا رہا اور کم از کم تین مختلف مقبروں میں اس کی لاش کو منتقل کیا جاتا رہا، اور بالآخر اسے قاہرہ لایا گیا اور وہاں وہ ہمیشہ کے لئے عجائب گھر کی زینت بنا دیا گیا۔ ہزاروں لاکھوں لوگ ہر سال اسے دیکھنے کے لئے آنے لگے۔یہاں بھی اسے چین میسر نہ ہوا اور اس کے حنوط شدہ جسم کو اس کے اصلی تابوت سے نکال کر نمائش، تحقیق اور دیمک وغیرہ کے علاج کے نام پر ملکوں ملکوں گھمایا گیا۔وہ سات مہینے تک فرانس کی ایک لیبارٹری میں زیر تفتیش اور زیر علاج رہا، جہاں اس کی موت کی وجوہات جاننے کے لئے ڈاکٹروں نے کئی تجربات کئے اور وقت کے ہاتھوں اس کے مسلسل تباہ ہوتے ہوئے جسم کو بچانے کی کوششیں کی گئیں۔یہی فرعون، جس نے کسی دور میں اپنے خدا ہونے کا دعویٰ کیا تھا، اس وقت بے بسی کی تصویر بنا کاندھوں تک مٹیالی سی پٹیوں میں لپٹا ہوا ایک چبوترے پر پڑا تھا۔ ایک ملگجی سی چادر اوڑھے وہ اپنے مردہ وجود کے ساتھ دونوں ہاتھ ایک خاص شہنشاہی اندازمیں سینے پر باندھے چپ چاپ اپنی اَدھ کھلی آنکھوں سے خلاؤں میں بیتے دِنوں کی عظیم یادوں کو تلاش کر رہا تھا۔ اس کی لمبی سی گردن بہت واضح تھی اور کسی سوکھی ہوئی لکڑی کی مانند اکڑی ہوئی تھی۔ طوطے کی طرح خم کھایا ہوا بڑا سا ناک اس کے لمبوترے چہرے پر ذرا بھی نہیں سج رہا تھا۔ وقت کی دھول میں اَٹا ہوا اس کا کٹا پھٹا جسم تانبے کی سی رنگت اختیار کر چکاتھا۔ وہ عام سے قد کاٹھ کا ایک معمولی سا انسان نظر آتا تھا،میں اس وقت تک وہاں کھڑا رہا جب تک کہ ایک دربان مجھے وہاں سے گھسیٹتا ہوا باہر نہ لے آیا۔
٭٭٭٭٭