پروفیسر خورشید کا انتقال

پروفیسر خورشید کا انتقال

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے قریبی ساتھی اور علمی وارث، جماعت اسلامی پاکستان کے سابق نائب امیر،بزرگ سیاستدان،سابق وفاقی وزیر اور سینیٹر پروفیسر خورشید احمد 93 سال کی عمر میں برطانیہ کے شہر لیسٹر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ وہ پاکستان کے ممتاز ماہرِ اقتصادیات، مفکر اور سیاست دان تھے، معیشت کو اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے میں اُن کا اہم کردار تھا۔ پروفیسر خورشید احمد نے، تعلیم، عالمی اقتصادیات اور اجتماعی اسلامی معاشرے کی تشکیل کے حوالے سے جو کچھ دیکھا اس کی بدولت اُنہیں عالمی سطح پر شہرت حاصل ہوئی۔ وزیراعظم شہباز شریف، امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمن، سابق امیر سراج الحق کے علاوہ ہر مکتب فکر کے رہنماؤں نے ان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا، اْن کا کہنا تھا کہ عالمی معاشی دانشور ہونے کے ساتھ ساتھ نہ صرف وہ اعلیٰ اوصاف کے حامل سیاسی رہنما تھے، اُن کی قومی خدمات کو نہ صرف سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔

 پروفیسر خورشید احمد 23 مارچ 1932ء کو دہلی میں پیدا ہوئے،اُنہوں نے ابتدائی تعلیم دہلی سے حاصل کی، پاکستان بننے کے بعد اْن کے خاندان نے ہجرت کا فیصلہ کیا اور کراچی کو اپنا مسکن بنا لیا۔ یہاں آ کر اْنہوں نے قانون میں گریجوایشن کرنے کے بعد اکنامکس اور اسلامیات میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اُنہوں نے زمانہ طالب علمی میں  اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت اختیار کر لی اور اس کے ناظم اعلیٰ منتخب ہو گئے۔  ”سٹوڈنٹس وائس“ کے نام سے ایک مجلے کا آغاز کیا۔ اْنہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ تعلیم سے فراغت کے بعد جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کریں گے، درس و تدریس کو بطور پیشہ اپنائیں گے اور قلم کے ذریعے اپنے نظریات دنیا تک پہنچائیں گے، اْنہوں نے یہ تینوں ہی کام بھرپور انداز میں کئے اور ہر جگہ انتہائی گہری چھاپ چھوڑی۔

اسلامک ریسرچ اکیڈیمی کے لئے اْنہوں نے گراں قدر خدمات سر انجام دیں، اِس کی بنیاد اگرچہ سید ابوالاعلی مودودی نے رکھی تھی تاہم انتظام پروفیسر خورشید ہی نے سنبھالا۔اُنہوں نے کراچی یونیورسٹی میں بطور لیکچرر کام شروع کیااور پھر 1968ء میں ملازمت چھوڑ کر پی ایچ ڈی کرنے برطانیہ چلے گئے، وہاں اُن کی زندگی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ اْنہوں نے وہاں مقیم مسلمانوں کی مذہبی اور نظریاتی زندگی کا مشاہدہ کیا تو دل میں اْن کے لئے کچھ کرنے کی خواہش جاگی لہٰذا لیسٹر جہاں یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے لئے داخلہ لیا تھا وہاں ہی اسلامک فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھ دی، اِس کی شاخیں بعدازاں نیروبی، کینیا اور نائیجریا میں بھی قائم ہوئیں، برطانیہ کی لوبورو یونیورسٹی نے لٹریچر اور یونیورسٹی آف ملائشیاء نے اِسلامک اکنامکس اور ایجوکیشن میں اُنہیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگریاں عطاء کیں۔

پروفیسر خورشید انٹرنیشنل اِسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس کے چیئرمین رہے،انٹرنیشنل سنٹر فار ریسرچ اِن اِسلامک اکنامکس، لیسٹر کے ایڈوائزری بورڈ کے رکن مقرر ہوئے، شاہ عبد العزیز یونیورسٹی جدہ کے ساتھ ساتھ سٹینڈنگ کانفرنس آن جیوز، کرسچن، اینڈ مسلمز اِن یورپ کے برلن اور لندن چیپٹرز کے نائب صدر رہے۔ وہ دلی اوک کالج برمنگھم کے مرکز برائے مطالعہ اسلام اور عیسائیت اور پروفیسر خورشید فاؤنڈیشن کونسل کے ممبر بنے، رائل اکیڈمی فار اسلامک سولائزیشن عمان (اردن) کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن بھی رہے۔ اْنہوں نے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد کی بنیاد رکھی اور اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کا تصور بھی پیش کیا۔اْنہیں اردو کے علاوہ انگریزی، عربی اور فارسی پر بھی عبور حاصل تھا۔ اُنہوں نے ایک سو سے زائد بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں شرکت کی، متعدد ممالک، اداروں اور تنظیموں نے اُنہیں متعدد اعزازات سے نوازا۔ سعودی حکومت نے اُنہیں 1990ء میں شاہ فیصل بین الاقوامی ایوارڈ سے نوازا جبکہ اسلامی اقتصادیات اورمالیات کے شعبے میں کام پر اُنہیں جولائی 1998ء میں امریکن فنانس ہاوس لاربوٰ یو ایس اے پرائز ملا۔ حکومت پاکستان نے 2010ء میں اُنہیں اعلیٰ سول ایوارڈ نشانِ امتیازعطاء کیا۔پروفیسر خورشید احمد وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی بنے اور پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین کے عہدے پر بھی فائز ہوئے، وہ تین مرتبہ سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے،اْن کی تقریریں آج بھی سینیٹ آرکائیو میں موجود ہیں جن سے اگر آج کے سیاستدان رہنمائی حاصل کریں تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

 پروفیسر خورشید نے اُردو اور انگریزی میں متعدد کتابیں لکھیں۔ اُن کی مشہور کتاب ”تذکرہ زِنداں“ میں اْن کے جیل میں گزرے دنوں کی داستان رقم ہے، جنرل (ر) ایوب خان کے دور میں جب جماعت اسلامی پر پابندی لگی اور مولانا مودودی کو پابند سلاسل کیا گیا تو پروفیسر خورشید بھی اُن کے ہمراہ تھے۔ پروفیسر خورشید کی ہمہ جہت شخصیت پر ملائشیاء  ترکی اور جرمنی کی ممتاز جامعات میں پی ایچ ڈی کے مقالات لکھے گئے۔جماعت اسلامی میں اُن کے مقام کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب مولانا مودودی نے علیل ہونے کی وجہ سے جماعت اسلامی کی امارت چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو نئے امیر جماعت کے انتخاب کے لیے جن تین رہنماؤں کے نام پینل میں تجویز کئے گئے اُن میں میاں طفیل محمد اور پروفیسر غلام اعظم کیساتھ پروفیسر خورشید احمد کا نام بھی شامل تھا۔

پروفیسر خورشید کسی سے ایک مرتبہ مل لیتے تو پھر تعلق قائم رکھتے اور بھرپور طریقے سے نبھاتے، کسی کو بھولتے نہیں تھے،اْن کی یادداشت کمال تھی۔ وہ کئی سالوں سے صاحب فراش تھے لیکن اْن کا ذہن مکمل طور پر کام کر رہا تھا۔اُن کے انتقال سے دنیا ایک عظیم مفکر سے محروم ہو گئی ہے۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور پاکستانی سیاستدانوں اور مذہبی راہنماؤں کو ان کا ذوق نظرد ے۔آمین۔

مزید :

رائے -اداریہ -