جنوبی پنجاب کے لوگوں کی اصل ضرورت !
سیاسی حکومت کے گزشتہ پانچ سالہ دور کو اگر پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین باب کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ایک ایسا دور حکومت جس میں مفاہمت کے نام پر لوٹ کھسوٹ،غبن، رشوت ستانی، اقرباپروری اور قومی وسائل کا ضیاع حکومت کا طرئہ امتیاز رہا۔ مہذب معاشرے میں حکومت کا کام عوام کو مخصوص طبقے کے استحصال سے نجات دلانا ہوتا ہے، لیکن کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ حکومت خودہی لوگوں کا نفسیاتی اور سیاسی استحصال کرتی نظرآ ئی۔ اس استحصال کی صورت لسانی بنیاد پر پنجاب کی تقسیم اور سرائیکی صوبے کے قیام کا نعرہ تھا۔ یہ تو ایک حقیقت ہے کہ جنوبی پنجاب کے لوگ ایک عرصے سے احساس محرومی کا شکار چلے آرہے ہیں ،لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس خطے کے باسیوں میں لسانی بنیادوں پر صوبے کا قیام ایک مقبول عام نعرہ کبھی نہیں رہا ،ورنہ حالیہ انتخابات کے یہ نتائج نہ ہوتے۔
پیپلز پارٹی نے صوبے کا نعرہ لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کی غرض سے لگایا اور اس امید کے ساتھ کہ صوبہ نہ بھی بن سکا تو اس نعرے کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کو اس خطے کے لوگوں کے ووٹ ضرور حاصل ہوجائیں گے، لیکن اس خطے کے عوام نے مسلم لیگ ن کو ووٹ دے کر یہ ثابت کردیا کہ صوبے کا قیام ان کی اصل ضرورت نہیں، بلکہ اصل مسئلہ ان کی محرومیوں کا ازالہ ہے۔ خطے میں ترقیاتی کام، صوبائی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور لوگوں کو ترقی کے یکساں مواقع کی فراہمی ہے۔ اگر قیام پاکستان کے بعد سے لے کر اب تک صوبے کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ جنوبی پنجاب کے لوگ وقتاً فوقتاً حکومت سازی میں شامل رہے ہیں۔ مثلاً مرحوم سجاد حسین قریشی، ضیاءالحق مرحوم کے دور میں صوبائی گورنر رہے ہیں۔ اسی طرح نواب صادق حسین قریشی، غلام حیدر وائیں ، ممتاز دولتانہ، نواب مشتاق احمد گورمانی وغیرہ، مختلف ادوار میں صوبے یا صوبائی حکومت کے سربراہ رہے ہیں، لیکن جب سے اختیارات کا مرکز وسطی پنجاب منتقل ہوااس خطے کے لوگ اپنے آپ کو حکومتی معاملات سے الگ تھلک سمجھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے لوگوں کی سوچ کا ناجائز اور غلط فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوشش کی ،لیکن خطے کے عوام نے بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے پیپلزپارٹی کے جھانسے میں آنے سے گریز کیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنوبی پنجاب کے لوگوںکے احساس محرومی کی اصل وجوہات کیا ہیںاور ان کے ازالے کے لئے کیا اقدامات کئے جانے چاہئیں؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے یہاں کے لوگوں کی اقتصادی حالت کا جائزہ لینا ہوگا۔ ایک حالیہ جائزے کے مطابق اس وقت پاکستان میں غربت کا تناسب تقریباً36فیصدہے جو 2007-2008ئ میں 24 فیصد تھا، یعنی گزشتہ پانچ سال میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کی تعداد میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ پنجاب میں یہ تناسب وسطی اور شمالی پنجاب کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ راقم الحروف کا تعلق زندگی بھر تعلیم و تعلم سے رہا ہے ،اس لئے اس صورت حال کا تجزیہ اس تناظر میں لینا مقصود ہے۔
جنوبی پنجاب میں غربت کے زیادہ تناسب کی وجہ وہاں کے لوگوں ، خاص طور پر نوجوانوں کے لئے ترقی کے مواقع کا فقدان ہے۔ اگر اس دلیل کو مزید آگے بڑھایا جائے تو یہ عیاں ہوتا ہے کہ یہاں کے عوام ،بالخصوص نوجوانوں کے لئے معیاری تعلیم کی سہولتوں کی عدم دستیابی ہے۔ اول تو سکول بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور دوم اعلی معیاری تعلیمی ادارے تقریباً مفقودہیں۔
دوسری طرف اگر گزشتہ بارہ سال کے اکتسابی جائزوں کا تفصیلی تجزیہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہیں کہ پاکستان کے دیگر علاقوں کی نسبت یہاں کے بچوں میں تعلیم اور تعلیمی اکتساب کی صلاحیت سب سے زیادہ ہے۔ یہاں ملکی سطح پر اور پنجاب کی سطح پر قومی اور صوبائی اداروں کی طرف سے پچھلے بارہ سال میں طلبہ کے تعلیمی اکتساب کے جائزوں کے اعدادوشمار کا تجزیہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
مثلاً سال 2001ءمیں یونیسف(UNICEF) کی طرف سے پنجاب کے پانچ اضلاع کے چوتھی اور آٹھویں جماعت کے بچوں کے چار مضامین میں اکتساب کا جائزہ لیا گیا، یہ مضامین، اردو، انگریزی، سائنس، اور ریاضی تھے۔ چوتھی جماعت کے امتحان میں ضلع راجن پور کے بچے چاروں مضامین میں اکتساب کے لحاظ سے سرفہرست تھے، جبکہ جماعت ششم کے امتحانات میں مجموعی طورپر بہاول پور اور راجن پور کے طلبہ سرفہرست تھے۔ اس طرح پنجاب کمیشن برائے امتحانات کی طرف سے جماعت پنجم اور جماعت ہشتم کے امتحانات میں مسلسل کئی سال سے جنوبی پنجاب کے اضلاع مظفرگڑھ، ڈیرہ غازی خاں، جھنگ، لودھراں، راجن پور، بہاولپور اور ملتان وغیرہ کے طلبہ مجموعی طور پر سب سے زیادہ اکتساب کے حامل رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان اعدادو شمار کو حکومتی کار پردازوں اور نام نہاد ماہرین تعلیم کی طرف سے وہ توجہ حاصل نہیں ہوسکی جو تعلیم کی صحیح منصوبہ بندی کے لئے ضروری تھی۔
تیسری شہادت پنجاب کے صوبائی ادارے برائے تعلیمی جائزہ کی طرف سے 2010-11ئمیں منعقد کئے گئے اکتسابی جائزے سے حاصل ہوتی ہے۔ اس صوبائی ادارے نے پنجاب کے مختلف اضلاع کے بچوں کا جماعت پنجم کے اکتساب کا تقابل کرنے کے لئے ریاضی، معاشرتی علوم اور اردو میں اکتساب کاجائزہ لیا ۔ ان جائزوں میں بھی جنوبی پنجاب کے اضلاع، مثلاً ڈیرہ غازی خاں، ملتان، راجن پور، مظفرگڑھ، کے طلباءسب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والوں میںشامل تھے،اسی طرح سن 2005ئسے2008ئتک عالمی بینک سے اربوں روپے قرض لے کر ایک منصوبہ جاری کیا گیا جس کا مقصد جماعت چہارم اور جماعت ہشتم کے طلبہ کا ریاضی، سائنس، معاشرتی علوم، اور اردو کے مضامین میں اکتساب کا جائزہ لینا تھا، تاکہ ان نتائج کی روشنی میں تعلیمی اصلاح کے لئے مناسب تجاویز مرتب کی جاسکیں، لیکن بد قسمتی سے قرض لئے گئے اربوں روپے کی کثیر رقم خرچ کرکے بھی حاصل کئے گئے اعدادوشمار کا نہ معنی خیز تجزیہ کیا جاسکا اور مناسب تجاویز مرتب نہ کی جاسکیں۔
حال ہی میں ان اعدادوشمار کے تفصیلی تجزیے سے بہت ساری مفید معلومات حاصل ہوئیں، جنہیں ایک کتاب کی صورت میں مرتب کیا جارہا ہے۔یہاں پر صرف ایک عنصر کے حوالے سے نتائج کا ذکر کرنا مقصود ہے۔ان اکتسابی جائزوں میں بچوں کے تعلیمی اکتساب کے ساتھ ساتھ مختلف ایسے متغیرات یا عوامل کے بارے میں بھی معلومات حاصل کی گئیں جن کا ممکنہ طور پر اثر بچوں کے تعلیمی اکتساب پر ہوسکتا تھا۔ مثلاً بچوں کے تعلیمی اکتساب کا ان کی مادری زبان کے ساتھ تعلق ۔ ان اعدادوشمار کے تجریہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جماعت چہارم کی سطح پر سائنس، ریاضی اور اردو میں ایسے بچوں کے نمبرزیادہ تھے جن کی مادری زبان سرائیکی تھی۔اسی طرح جماعت ہشتم میں بھی سرائیکی بولنے والے بچوں کا تعلیمی اکتساب سائنس، ریاضی اور اردو میں باقی بچوں کی نسبت زیادہ تھی۔ان تمام نتائج سے ایک بات بڑی واضح ہے۔ وہ یہ کہ جنوبی پنجاب کے طلبہ، بالخصوص ایسے طلبہ جن کی مادری زبان سرائیکی ہے۔ تعلیمی اکتساب کے لحاظ سے ملک کے دیگر علاقوں کے طلبہ کی نسبت بہتر صلاحیت کے حامل ہیں۔ ان کے بہتر اکتساب کی وجہ کیا ہے؟.... وجہ کوئی بھی ہو، یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جنوبی پنجاب کے طلبہ میں تعلیم کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ انہیں ایسے مواقع فراہم کئے جائیں جن سے ان کی صلاحیتیں مکمل طور پر نشوونما پاسکیں۔ اسی لئے میرے خیال میں جنوبی پنجاب کے لوگوں کی اصل ضرورت ایک علیحدہ صوبے سے زیادہ مناسب تعلیمی سہولتوں کی فراہمی ہے۔ جن سے انہیں آگے بڑھنے کے یکساں مواقع میسر ہوسکیں۔
جنوبی پنجاب میں باقی صوبے کی نسبت ایسے سکولوں کی تعداد زیادہ ہے، جن میں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ ایسے سکولوں میں بنیادی سہولتیں فی الفور مہیا کی جانی چاہئیں۔ اسی طرح لاہور سے آگے ہمیں جنوبی پنجاب کے شہروں میں اعلیٰ تعلیم کے معیاری اداروں کی بہت کمی محسوس ہوتی ہے۔ ملتان اور بہاولپور میں سرکاری یونیورسٹیاں بھی مالی دشواریوں اور اعلیٰ تعلیمی قابلیت کے حامل تجربہ کار اساتذہ کی عدم دستیابی کی وجہ سے معیاری تعلیم فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اس علاقے میں سکولوں، کالجوں اور مدرسہ جات کی تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کے مناسب اقدامات کرے تاکہ اس خطے کے باسیوں کو معیاری تعلیم کے حصول کے بعد ترقی کے مواقع میسر آ سکیں۔ ٭