حکومت.... کیا آپ مقبول نہیں؟ ریفرنڈم!

حکومت.... کیا آپ مقبول نہیں؟ ریفرنڈم!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


بظاہر تو ایسی کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی کہ ہارے ہوئے سیاسی لیڈر الیکشن میں کامیاب ہو کر حکومت بنانے والوں کو پانچ سال مکمل ہونے سے قبل کسی قسم کی ”چنوتی“ یا ”وارننگ“ دیں، کیونکہ یہ تمام تر معاملات وہ ہیں جو پارلیمنٹ کے اندر لانے کی ہر طرح سے آزادی بھی ہے اور آئینی تحفظ بھی، لیکن ہم اس کا کیا کریں کہ آٹے میں نمک کے برابر جن لوگوں نے پارلیمنٹ کی نشستیں حاصل کیں، انہیں اب یہ خیال ستانے لگا کہ اگر ان کے حمایتی ”ایل پی جی“ اور ”سٹیل مل“ کے خام لوہے کے ”پرمٹوں“ پر لگ گئے تو پھر ان نام کے اپوزیشن لیڈروں کو سلام کرنے والا بھی کوئی باقی نہیں رہے گا۔
آج بھی جو حالات اور جو ناک نقشہ یہاں بنا دیا گیا ہے، اس میں بنیادی سوال اب یہ اُٹھ کھڑا ہوا ہے کہ جن ووٹروں نے ووٹ دے کر 11مئی2013ءکو فیصلہ سنایا تھا کیا ان سب کو یرغمال بنا دیا جائے کیا انہیں اب میڈیا یہ باور کرائے کہ آپ کا فیصلہ صحیح نہیں تھا، جو الزام تراشی کچھ اسمبلی اور پارلیمنٹ نشستوں پر دھاندلی کی ہوئی ہے، اگر وہ تمام کی تمام نشستیں بھی کامیاب امیدواروں کی بجائے نمبر2 پر آنے والے امیدواروں کو دے دی جائیں یا عدالت کوئی ایسا فیصلہ کر بھی دے، تو ایسی صورت حال حاصل پیدا ہوتی ہے کہ آپ حکومت ہٹانے کے لئے آئینی تقاضوں کے مطابق ”عدم اعتماد“ کی کوئی تحریک چلائیں۔ تمام کے تمام طریق کار آئین میں درج ہیں۔ ملک بھر کے وہ وکلاءان کی بہتر وضاحت کر سکتے ہیں، جنہوں نے عدلیہ کی جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں ناجائز بے عزتی پر گلی گلی اور کوچہ کوچہ ”بین“ کئے تھے۔ ماتم کا سا سماں پیدا کیا تھا اور ”ہائے ہائے“ کی تھی۔ یہ اُسی جدوجہدکا نتیجہ تھا کہ عدلیہ سرخرو ہوئی اور پھر انہیں ایسی نیک نامی ملی کہ اب خدا نہ کرے اگر کوئی ناجائز غیر آئینی طور پر ”ایمرجنسی“ لگائے تو یہی عدلیہ آئین کی حفاظت کرے گی اور آج یہی ”اطمینان کامل“ حکومت وقت کو حاصل ہے کہ وہ شہریوں کی حفاظت کے لئے مختلف جتن کر رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس سے کئی مقامات پر ان ووٹروں کو تکالیف بھی ہوں، جنہوں نے مسلم لیگ کے اس دھڑے کو ووٹ دیئے جو اب برسر اقتدار ہے، لیکن یہ حقیقت تو اپنی جگہ ہے کہ آج اُن کے ووٹ پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا گیا ہے۔ خدا کا کوئی بندہ یہ خیال نہیں کرتا کہ اگر معاملہ قومی اسمبلی کی چار نشستوں کا ہی ہے، تو پھر ان مظاہروں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
آپ اگر یہ خیال کرتے ہیں کہ ساٹھ مہینوں کے لئے ووٹ لے کر آنے والی حکومت اب غیر مقبول ہو گئی ہے، تو پھر آپ باقی کے45مہینے نئے آنے والے الیکشن کا انتظار کریں۔ دوسرا کوئی ایسا طریقہ آئین میں موجود ہے، تو ملک بھر کے وکلاءاور ریٹائرڈ جج صاحبان سر جوڑ کر بیٹھ جائیں اور اس کے لئے کوئی نیا طریق کار وضع کریں۔ اسے فوراً پارلیمنٹ کے پاس لے جائیں اور اس پر جہاں نئی قانون سازی کریں، وہاں اگر آئین میں کسی نئی ترمیم کی ضرورت ہے تو اس کے لئے تمام سیاسی پارٹیوں بشمول پی پی پی، ایم کیو ایم اور تحریک انصاف سب کو یکجا کر کے دو تہائی اکثریت سے ایسی ایک یا اس سے بھی زیادہ ترامیم منظور کرائیں۔ آخر جن لوگوں نے ”رضا و رغبت“ سے ووٹ دیئے وہ تو آج بھی موجود ہیں۔ یہ قطعی الگ بات ہے کہ ان لوگوں نے جن وعدوں کو سامنے رکھ کر ووٹ دیئے تھے، وہ پورے ہو سکے یا نہیں۔ انہیں روٹی روزی فرا وانی سے مل رہی ہے یا نہیں؟ اُن کی فی کس آمدنی میں اضافہ ہوا ہے یا نہیں؟ اُن کے بجلی کے بل کم ہوئے ہیں یا زیادہ؟ گیس اور پٹرول وافر مل رہا ہے یا نہیں؟ ان کے نرخ کم ہوئے ہیں یا زیادہ؟ یہ سب سوالات ایسے ہیں، جن کے جوابات آپ اگلے آنے والے الیکشن تک تلاش کرتے چلے جائیں۔
دو تین جماعتیں مل کر اب جو طوفان اُٹھا رہی ہیںیہ بھی آخر تھم ہی جائے گا، نہ تو سعودی عرب اور نہ ہی امریکہ کے پاس اس قدر روپیہ ہے کہ وہ ناجائز طور پر پاکستان میں اسے ”جلاﺅ گھیراﺅ“ پر لگا دیں۔ ویسے بھی بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) میں1970ءکے الیکشن کے بعد سے شروع کی گئی ”جلاﺅ گھیراﺅ“ کی پالیسی کیااب 44برس بعد یہاں پاکستان میں کسی بھی صورت میںکامیاب ہو سکتی ہے، پاکستان بھر کی بار کونسلیں اور وکلاءآج سر جوڑ کر معاملات کا حل تلاش کر رہے ہیں، لیکن کوئی سامنے نہیں آ رہا۔ کہاں ہیں ہمارے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری۔ آج ملک کو ان کی ضرورت ہے، وہ سامنے آئیں اور مشورہ دیں کہ جب کسی طرح بھی معاملات بہتری کی طرف نہ بڑھ رہے ہوں، تو معاملہ پاکستان کے عوام کی عدالت میں لے جایا جائے۔ پاکستان کے آئین میں اس کی پہلے سے شق موجود ہے، جس کے تحت ملک بھر میں ”ریفرنڈم“ کے ذریعے ”ہاں یا ناں“ کا واضح ووٹ حاصل کیا جاتا ہے۔
آپ سوال بنائیں کہ کیا پانچ سال مکمل کرنے سے قبل موجودہ حکومت کو مستعفی ہو جانا چاہئے؟ یا سوال بنائیں کہ کیا موجودہ حکمران اب مقبول نہیں رہے؟ اِسی قسم کا دو ٹوک سوال آپ کو بنانا ہو گا اور اس پر فیصلہ قوم سے حاصل کرنا ہو گا،لیکن یہاں پھرایک سوال اُبھرتا ہے کہ کیا پھر ہر منتخب ہونے والی حکومت کے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہے گا؟ امریکی صدر اگر حلف لینے اور عہدہ سنبھالنے کے ایک ہفتہ بعد بھی غیر مقبول ہو جائے، تو وہاں کا میڈیا کبھی اس سے مستعفی ہونے کے لئے نہیں کہتا، لیکن یہاں تو عمران خان بہ بانگ دہل یہ کہہ رہے ہیں کہ وزیراعظم مستعفی ہو جائیں۔ کیا عمران خان کو یہ بات قبول ہو گی کہ اگر کل کلاں ریفرنڈم میں عوام نے اُن کی یہ خواہش، ان کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا تو کیا وہ اگلے دس سال تک کے لئے موجودہ حکمرانوں کا حق حکمرانی تسلیم کر لیں گے؟ یہ اور اس طرح کے سینکڑوں دیگر سوالات اٹھتے ہیں اور ان کا کوئی جواب سامنے نہیں آ پاتا۔

آپ نے پاکستان کا اب ایک ایسا نقشہ سامنے بنا دیا ہے، جس پر ساری دنیا سوال اُٹھا رہی ہے۔ سیاست دانوں کو اب ہوش کے ناخن لے کر ان سوالات کے جواب دینا ہوں گے ورنہ جب کبھی کوئی سیاسی لیڈر بیرون ممالک مقیم لاکھوں پاکستانیوں سے اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں کے لئے چندہ مانگنے جائے گا،اسے بے حد ”سبکی“ کا سامنا کرنا پڑے گا، کم از کم آپ ان کی آس تو بندھائے رکھیں۔ امن کی طرف دیکھیں، امن قائم کریں اور اُسی کی چھاﺅں میں پاکستان کو آگے بڑھائیں۔ کروڑوں عوام کے دل ”مٹھی“ میں کرنے والوں سے کسی کو ہمدردی نہیں ہو سکتی۔ اس کا بہتر حل یہی ہے کہ ان کی مقبولیت کا بھانڈا پھوڑ دیں۔ پاکستان آرمی سے کہیں کہ وہ سول انتظامیہ کی مدد کرے اور ریفرنڈم میں آپ اپنے رجسٹرڈ ووٹوں کی ایسی صلاح اور آشیر باد کا فیصلہ کر لیں، جو حق میں ہو تو اگلا الیکشن2018ءکی بجائے 2023ءمیں کرایا جائے اور اگر خلق خدا کچھ اور چاہتی ہے تو بھی معاملہ خوش اسلوبی سے حل کریں، تاہم ریفرنڈم کے بعد خلفشار پھیلانے کی بنا پر بعض سیاسی پارٹیوں پر سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر کے پابندی بھی لگائی جا سکتی ہے؟

مزید :

کالم -