پاکستان سے محبت کے تقاضے

پاکستان سے محبت کے تقاضے
پاکستان سے محبت کے تقاضے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


قائد اعظم محمد علی جناحؒ پاکستان کے لیے مسیحا لطف بہ داماں بھی تھے اور قوم کے درد کا درماں بھی تھے۔ پاکستان منزل منزل آپ کی قیادت کے باعث معرض وجود میں آیا۔ انہوں نے علاجِ شورش پنہاں کر کے قوم کی قسمت بدلی۔ اس وطن کے لمس کی خوشبو، فاصلوں کی دھول، نگر نگر، گرد سفر، طلوع سحر، مہکتے جنگل، سلگتی شام، چنچل سلونی شام، بابائے قوم کے شہر کراچی کے لب ساحل، ساگر میں ڈوبتے ستارے، یہ حرف وصوت کے سائے، یہ خوابناک کھنڈر، یہ موہنجودڑو، یہ ہڑپہ، ٹھٹھہ، بیلہ کا قلعہ، لاہور کا قلعہ، روہتاس کا قلعہ، فورٹ منرو، یہ رنگ، یہ روپ، یہ خوشبو، بجتی ہوئی شہنائیاں، بابا کے شہر کراچی کے لب ساحل سمندر کی خوش لہریں عجیب اور مہیب احساسات پیدا کرتی ہیں:
جمیل ریت پہ کس کے نشاں ڈھونڈتے ہو
وہ شام خراب ہوئی اور وہ قافلہ بھی گیا
اے ارضِ وطن! تیری سطوتوں کی قسم، تیرا ذرہ ذرہ ہماری آنکھوں کا نور اور دلوں کا سرور ہے۔ اے ارض وطن! تجھے جنگلی جانور، یہ چیلیں اور یہ زاغ وزغن نوچ رہے ہیں۔
تو جو نہیں تو ظلمت شب ہے
بجھی بجھی ہے شمع فروزاں
خالی خالی ہے ہر ڈالی
شاخ نشیمن لرزاں لرزاں
لو دیتا ہے اب بھی ستارا
بخت نہیں لیکن ضوفشاں
قائد اعظم کا پاکستان سر سید احمد خان کی تحریک علی گڑھ کا ثمر ہے۔ یہ علامہ اقبالؒ، سید امیر علی، نواب وقار الملک، نواب محسن الملک، مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی جوہر، حسرت موہانی، سر آغا خان، مولانا ظفر علی خان، مولوی ابوالقاسم، فضل الحق، مولوی عبد الحق، صاحبزادہ عبد اللہ ہارون اور لیاقت علی خان جیسے اکابرین کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ پاکستان ہر اس ننھے ٹمٹماتے چراغ کی روشنی ہے جس نے مجاہد بن کر اور شہید بن کر اس پر اپنا لہو نچھاور کیا۔ قائد اعظمؒ کا پاکستان آزادی کے قافلے کے ہر رہرو کی کاوشوں کاثمر ہے۔ یہ آزادی کے قافلے کے ہر لٹے پٹے مہاجر کے خون اور کاوش کا ثمر ہے۔ قائد اعظمؒ کے شہیدانِ وطن، تم فخر وطن بھی ہو، شان وطن بھی ہو، رنگ وطن بھی ہو، روح وطن بھی ہو۔ قائد اعظمؒ کا پاکستان آج بے شمار اور ان گنت مسائل سے دوچار ہے۔ بے شمار خطرات قائد اعظمؒ کے پاکستان پر منڈلا رہے ہیں۔ آج بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں۔ آزادی کی قدر کریں اور ان منڈلاتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کریں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی کتاب (پاکستانی کلچر) میں رقمطراز ہیں کہ سارا معاشرہ اسلام کے عظیم اصولوں اور پاکستان کے عظیم آدرش کے باوجود مندرجہ ذیل مسائل کا شکار ہے۔ معاشرتی تنگ نظری، تعصب، علاقہ واریت، تقلیدانہ ذہنیت، اور مغرب کی تقلید۔ مذہب، زبان، مادیت اور معاشرتی اتحاد کی سطح پر ہم کیا کر رہے ہیں؟ کیا ہمارا اپنا کوئی کلچر ہے؟
قائد اعظمؒ کی یہ دھرتی ہم نے بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کی تھی۔ قائد اعظمؒ نے یہ 796095 مربع کلومیٹر دھرتی بڑی کاوشوں سے حاصل کی تھی۔ 1971ءمیں ہم نے آدھا ملک گنوا دیا۔ اب اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنی دھرتی سے پیار کریں۔ وطن عزیز کے کنویں، یہ جھلار، یہ بیراج، یہ ڈیم، کوہستان نمک، یہ وادی سواں کی ہواو¿ں سے پکے ہوئے گندم کے خوشے، صحرائی ریوڑ، کائن، سنبل، یوکلپٹس کے اشجار، دامن کوہ کے جنگلات، کاہو، پھلاہی، چیل، صنوبر اور پڑتل کے درخت، کالا چٹا کے جنگلات، یہ سیلابی علاقے، یہ بیٹ، یہ کھادر، نیلی بار، ساندل بار، دو آبے، باری دو آب، رچنا دو آب، سندھ ساگر دو آب، یہ ڈیرہ جات، یہ تھل، یہ بلوچستان، یہ پنجاب، وادی سوات، یہ سرحد، درہ¿ خیبر، درہ گومل، واد· کشمیر میں دریائے جہلم اور نیلم کا سنگم، یہ پوٹھوہار، جہلم، اٹک، چکوال، راولپنڈی، یہ عروس البلاد اسلام آباد، یہ کوئٹہ، چمن، لورالائی، پشین، یہ ساحل مکران، یہ پوٹھوہار۔ معدنیات کا مخزن، دھاتوں کا مدفن، کانٹے دار جھاڑیاں، ببول اور فراش کے درخت، سبز مخملیں کھیت، چراگاہیں، جنگلوں میں طیور کے مساکن، جنگلی حیات، سبزہ زار، عصمت پارک، رکھ غلاماں، لیہ کا صحرا وجل تھل، چشمہ بیراج، یہ نیلاب، منگلا ڈیم، یہ مٹھن کوٹ، یہ دریاو¿ں کا سنگم، یہ ڈیلٹا کا علاقہ، یہ پنجند، وادی کوئٹہ میں واقع اوڑک کی اُجڑی دھرتی پر سرخ سرخ سیبوں سے لدے ہوئے باغات۔
 پنجاب کے کھیتوں میں کھلنے والے سفید گالوں والے کپاس کے پھول، صبح سویرے کھیتوں میں تت تت اور آ آ کی آوازیں، یہ اونٹ، پھیڑیں، یہ ریوڑ، داجل اور روجہان کے بیل، یہ کھیوڑہ، یہ قبل از مسیح وقت کی نمک کی کان، مکڑوال میں کوئلوں کی دمک، ٹلہ جوگیاں، منارہ، آڑہ اور واڑچھا میں قدرت کے پوشیدہ خزانے، بلکسر، میال اور ڈھلیاں اور فم کسر میں تیل کے مخزن، یہ کارخانے، یہ صنعتیں، نیلگوں آکاش، کراہتا ہوا کراچی کا سمندر، بے قرار ساگر، مناظر دلکش بھی ہیں اور دلفریب بھی۔ یہ شاہراہ ریشم، یہ رفعتوں والا قراقرم، یہ فلک بوس چوٹیاں، یہ رفعتوں کے نشان، یہ وادی مہراں، یہ وادی فاران، یہ مری، یہ بہتا پانی، آبشاریں، یہ کوہستانوں کی دلہن، یہ ملکہ¿ کہسار، یہ عروس کہسار، چولستان کے ریگ رواں، یہ سرائیکی خطہ، یہ جل تھل، یہ پہاڑوں پر برف کی سفید چادر، درختوں کی سرگوشیاں، کھیتوں کی پگڈنڈیاں، تیری یہ بستیاں، یہ حسین وادیاں، یہ ابر رواں، ہر رخ زیبا، چناب، سندھ جہلم اور راوی کی لہروں کی اٹھکیلیاں، یہ سوکھا سوکھا پیاسا پیاسا بیاس، نیلگوں سیف الملوک جھیل، پہاڑوں پر قدرت کی سرخی لب، فلک کے اندھیرے دشت میں تاروں کے جلتے بجھتے چراغ، بربت، خشک صحرائ، لب ساحل کراچی، یہ روشنی کا شہر، یہ بابائے ملت حضرت قائد اعظمؒ کا فرار، آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہوئے بپھرے پانیوں میں سفینے، یہ زخمی دل، یہ جراحتیں، دھڑکتے دل، نقش ونگار، رنگیلے بادباں، نگر نگر، کوچہ کوچہ، بستی بستی، قریہ قریہ، بکھری رتیں، خوشبوئے وطن کے گداز جھونکے، ہر رنگ، ہر سنگ، ہر آہنگ، دامن کشا نظارے حب الوطنی کی صدا دیتے ہیں۔ پیار مانگتے ہیں۔ حب مانگتے ہیں۔ انس مانگتے ہیں، خلوص مانگتے ہیں او قربانی کا تقاضہ کرتے ہیں۔
قائد اعظمؒ کی یہ دھرتی ان گنت مسائل سے نبرد آزما رہی ہے۔ اس پر مندرجہ ذیل خطرات منڈلا رہے ہیں۔ وقت کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ ان خطرات سے نبٹا جائے:
٭....فکری انتشار
٭....صلیبی طرز فکر
٭....نا اہل بیوروکریسی اور کرپٹ ٹیکنو کریسی
٭....مجرمانہ تغافل
٭....ثقافتی کنفیوژن
٭....ثقافتی روایات کی توڑ پھوڑ
٭....واضح نصب العین کا فقدان
٭....تعلیم کے میدان میں تنزلی اور انحطاط
٭....محبت، یگانگت، انسیت اور اپنائیت کا فقدان
٭....ہڑتالیں، ہنگامے، جرائم، توڑ پھوڑ، معلم اور طالب علم کے رشتے میں دراڑیں
٭....بے چینی، بحران اور بے یقینی کی کیفیت
٭....مختلف قومیتوں کا اندیشہ
٭....لسانی گروہ بندی
٭....علاقائی عصبیتیں، صوبہ واریت، صوبائی تعصب
٭....ذات، برادری، علاقائی تفاوت، رنگ اور نسل کی بنیاد پر تعصب
٭....مذہبی فرقہ واریت اور دہشت گردی کا رجحان ان مختلف تنظیموں میں جو مذہب کے نام پر بنائی جاتی ہیں۔ نیز اتحاد بین المسلمین کا فقدان۔
٭....اسلامی نظام عدل کے نفاذ میں رکاوٹیں۔ فقہ اسلامی کے نفاذ میں زبردست تاخیر
٭....زندگی کے ہر شعبے اور ہر ادارے میں مایوس کن حد تک رشوت اور سفارش
٭....زندگی کے ہر شعبے میں حقوق کی پامالی اور بربادی۔ استحقاق اور میرٹ کا فقدان
٭....اسلام دشمن اور وطن دشمن ممالک اور عناصر اور تنظیموں کا پاکستان کو ہدف بنانا اور اس کو ہر لحاظ سے کھوکھلا کر دینے کی کاوشیں ثقافتی لحاظ سے، سیاسی لحاظ سے، معاشرتی لحاظ سے، معاشی لحاظ سے، مذہبی لحاظ سے۔
دلوں پر نفرتوں کا بوجھ، دماغوں پر آلودگیوں کا انبوہ، جسم پر موٹے موٹے منافقت کے لبادے، اغوا، قتل، اغوا برائے تاوان کی صنعت، ڈاکے، بے روزگار نوجوانوں کی ملازمت کا مسئلہ، اسراف اور اس ضمن میں کفایت شعاری کا فقدان، بیرونی قرضوں کا بوجھ، منشیات کی لعنت، مذہبی رہنماو¿ں کا قتل، عصمت دری، خانہ سوزی، گولیوں کی گھن گرج، نت نئے بسائے جانے والے قبرستان، ظلم کی کالی راتیں، گھر جلائے ہیں مشعلوں کی طرح، الغرض خوش رنگ زمین کو خون رنگیں زمین میں بدل دیا گیا۔
آج پھر ہمیں محمد علی جوہر جیسے بطل حریت کی ضرورت ہے۔ آج پھر ہمیں عطاءاللہ شاہ بخاری، شورش کاشمیری، حمید نظامی، چراغ حسن حسرت، الطاف حسین حالی جیسے غیور، عظیم، قلندر اور شعلہ بیان اور حق گو اہل قلم بزرگوں کی ضرورت ہے۔ جو نظریہ پاکستان کے سبق کو ایک بار پھر دھرائیں۔ آج پھر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا ظفر علی خان، سر سید احمد خان، شبلی نعمانی، حسرت موہانی جیسے اکابرین کی ضرورت ہے۔ آج پھر ہمیں نئے نوجوان عرب سالار محمد بن قاسم کی ضرورت ہے جس نے ساحل مالابار سے ہوتے ہوئے سرزمین سندھ میں ایک مسلمان بیٹی کی آواز پر لبیک کہا تھا۔ آج پھر نئے مجدد الف ثانیؒ کی ضرورت ہے جو تجدید دین کرے۔ آج پھر شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ جیسے عظیم مجاہد، جید عالم اور مصلح کی ضرورت ہے جس نے تصور باطل پر کاری ضرب لگائی تھی۔ آج پھر سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ جیسے شہیدانِ رنگیں قبا کی ضرورت ہے۔ آج پھر مولانا اشرف علی تھانویؒ اور حضرت احمد رضا شاہ بریلویؒ جیسے بزرگوں کی ضرورت ہے جو احیاءدین کریں۔ آج پھر سید امیر علی جیسے سکالرز کی ضرورت ہے۔ آج پھر غازی علم الدین شہید جیسے عاشقوں کی ضرورت ہے جو شمع نبوت کے گرد تھرتھراتے ہوئے اپنی زندگی کا ہدیہ پیش کر سکیں۔ آج پھر علامہ اقبالؒ کی ضرورت ہے جو ہمیں بانگ درا، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز سنا کر ہمارے لہو کو گرما دے۔ آج پھر ہمیں مصری جج اور عظیم قلمکار عبد القادر عودہ شہید کی ضرورت ہے جو قرانسیسی قانون کی بجائے قرآن اور سنت کے مطابق فیصلے کرتا تھا، غدار قرار دیا گیا اور شہادت کے وقت پھانسی کے پھندے کو چوم کر کہنے لگا: ”اے منزل! آج میں نے تجھے پا لیا۔“
اس نئی قوم کی بنیاد کلمہ طیبہ تھا۔ اور یہی وہ کلمہ ہے جو پاکستان کی بنیاد بنا۔ یہ ایک نعرہ انقلاب تھا جس کے نور سے ہندو معاشرے کی تاریکی چھٹنے لگی۔ ظلمتیں بے نقاب ہوئیں اور ظلم کے خلاف فضا تیار ہوئی۔ قائد اعظمؒ کی روح، کارکنان پاکستان کی روحیں اور ان لاکھوں گمنام شہیدوں کی روحیں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ اس ملک میں نظام مصطفویؒ رائج ہو جو اس نئی قوم کا نعرہ بھی تھا، بنیاد بھی تھا، اساس بھی ہے اور نجات کی راہ بھی ہے۔
پاکستان بنتے ہی قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے سول سروس کے افسران کو ان الفاظ میں مخاطب فرمایا تھا:
"Work honestly and sincerely and be faithful and loyal to the Pakistan Government. I can assure that there is nothing greater in this world than your own conscience and, when you appear before God, you can say that you performed your duty with the higest sense of integrity, honesty and with loyalty and faithfulness."
یہ سبق قائداعظمؒ کی طرف سے بیوروکریسی کو دیا گیا۔ افسوس پاکستان کی بیوروکریسی اس عظیم پیغام اور سبق کو بھول گئی۔ اگر بیوروکریسی کو پاکستان میں عزت ملی اور جاہ ومنزلت کی کرسیاں ملیں تو یہ سب پاکستان کی بدولت تھا۔ عوام سے دوری اور نفرت تو انگریز دور میں انگریز آقا کا شیوہ تھی۔ افسوس بیوروکریسی آزادی کے بعد نفرتوں کے جالے ہی بنتی چلی گئی!
پاکستان کا مستقبل خطرات سے نبرد آزما ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ وطن عزیز اس وقت گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ بلوچستان کا سنگین مسئلہ، کراچی میں امن کا فقدان اور خیبر پختونخوا میں عدم استحکام اور دہشت گردی کی لہر نے وطن عزیز کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان میں امن اور اس کی بقا کے لیے خصوصی دعاو¿ں اور حکومت کی طرف سے انتھک اور انتہائی مخلصانہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ عوام کا بھی فرض بنتا ہے کہ استحکام پاکستان کے لیے کام کریں۔ بیوروکریسی کا بھی فرض ہے کہ وہ ملک کی سلامتی کی خاطر انتہا درجہ کی دیانت داری سے اپنے فرائض سرانجام دیں۔ ہماری عزت ہمارا وقار الغرض سب کچھ پاکستان کے وجود میں مضمر ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو سلامت رکھے۔ آمین!
یہ بات خوش آئند ہے کہ ہمیشہ کٹھن وقت میں افواج پاکستان نے وطن عزیز کی حفاظت کی۔ اب نئی صدی میں نہ صرف بیوروکریسی بلکہ پاکستان کے ہر طبقے کو پاکستان کے استحکام کے لیے کام کرنا ہوگا۔ تاجروں کا بھی فرض ہے کہ وہ مضبوط پاکستان کے لیے تعاون کریں۔ ٹیکس کلچر کو فروغ دے کر ہی ہم ایک مضبوط پاکستان بناسکتے ہیں۔
ایک مضبوط پاکستان کے لیے انشاءاللہ حسب ذیل پروگرام پر عمل کرنا ہوگا:
٭....احتساب بے لاگ۔
٭....معیشت کی بحالی۔
٭....انتظامی اداروں میں سیاسی عدم مداخلت
٭....عوام کے اعتماد کو بحال کرنا۔
٭....نچلی سطح تک عوام کے مسائل کو حل کرنا وغیرہ۔

مزید :

کالم -